آداب ِملاقات و معاشرت

راحیل گوہر  جمعـء 8 مارچ 2019
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق اسلام نے عاید کیے ہیں اس کی وجہ انسان کے اندر احساسِ تحفظ پیدا کر نا ہے۔ فوٹو: فائل

ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق اسلام نے عاید کیے ہیں اس کی وجہ انسان کے اندر احساسِ تحفظ پیدا کر نا ہے۔ فوٹو: فائل

قرآن کا اصل مخاطب انسان ہے، اسی لیے قرآن نے اس کی زندگی کے ہر گوشے کی طرف راہ نمائی فرمائی ہے۔ خواہ وہ معیشت ہو، سیاست ہو یا معاشرت، عبادات ہوں یا معاملات کہیں بھی انسان کو ہدایت سے محروم نہیں رکھا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، مفہوم : ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔‘‘ ( البقرہ )

قرآن حکیم میں تمام علائق دنیا میں سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیا گیا ہے وہ اخلاقی تعلیمات ہیں۔ کیوں کہ ایک صالح اور آداب و اخلاق کے زیور سے آراستہ معاشرہ ہی نسل انسانی کی فوز و فلاح اور سلامتی کا ضامن ہوسکتا ہے۔ انسانی معاملات میں بعض اوقات اتنی حساسیت پیدا ہوجاتی ہے کہ اچھے بھلے مضبوط رشتوں میں رنجش اور تناؤ کا سبب بن جاتی ہے اور اگر اس شکر رنجی کو فوری دور نہ کیا جائے تو اس کے بطن سے نفرت کی ایسی چنگاری پیدا ہوتی ہے جو رشتوں کے تقدس کو جلاکر خاکستر کر دیتی ہے۔

انسان کی تربیت میں اصلاح کا پہلو کم زور ہو تو تعلیم کی اعلیٰ ڈگریوں کے حامل ہونے کے باوجود اس کے طرز عمل میں اخلاقی شعور کا فقدان ہوتا ہے۔ اس کا مظاہرہ دو مقامات پر بہ خوبی دیکھا جا سکتا ہے، ایک آپس کے تنازع کے وقت اور دوسرے کسی تقریب میں کھانا کھاتے وقت۔ ان دو مواقع کا نظارہ تو معاشرے کا ہر فرد کرسکتا ہے۔ نبی پاک ﷺ نے منافق کی جو چار نشانیاں فرمائی ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ جب اس کا کسی سے معاملات میں کوئی تنازع یا جھگڑا پیش آئے تو آپے سے باہر ہوجائے اور گالی گلوچ پر اتر آئے اور یہی چیز ظاہر کرتی ہے کہ اس انسان کی تربیت کرنے میں غفلت برتی گئی ہے۔

اسلام انسانی حقوق اور معاشرتی ماحول میں کسی بھی ایسے اقدام سے منع کر تا ہے جس سے معاشرے میں بے چینی اور اضطراب و انتشار پیدا ہو اور انسان خود کو اپنے ماحول میں غیر محفوظ محسوس کرے۔ اس لیے اسلام چھوٹی باتوں کو بھی نظر انداز کر نے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نے دیگر معاملات میں احتیاط کے ساتھ آپس میں ملاقات کے بھی کچھ اصول بتائے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم: ’’ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے، توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے۔ اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ۔ اور یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ البتہ تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ایسے گھروں میں داخل ہوجاؤ جو کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہو۔ اور جن میں تمہارے فائدے (یا کام) کی کوئی چیز نہ ہو۔‘‘ (النور)

گویا قرآن نے واضح طور پر ہر فرد کو بلا اجازت کسی کے گھر میں داخل ہونے سے منع کر دیا ہے۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق اسلام نے عاید کیے ہیں اس کی وجہ انسان کے اندر احساسِ تحفظ پیدا کر نا ہے۔

سورۃ النحل میں فرمایا گیا ہے، مفہوم : ’’ اللہ نے تمہارے گھروں کو جائے سکون بنایا۔‘‘

گھر اسی وقت سکون و راحت کا ذریعہ بن سکتا ہے جب انسان کو اپنے گھر میں مکمل آزادی حاصل ہو اور کسی غیر کی مداخلت کا خوف نہ ہو۔ باہمی ملاقات کے ضمن میں یہ اصول بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ اول تو کسی کے بھی گھر جانے سے قبل اس کی اجازت لینا ضروری ہے، بلا اجازت کسی کے گھر پہنچ جانا بد اخلاقی کا مظاہرہ ہے۔ اور اگر کسی بنا پر قبل از وقت اجازت نہ لی ہو تو اگر صاحب خانہ ملنے سے انکار کر دے تو اس کے انکا ر کا ہرگز بُرا نہیں ماننا چاہیے۔

امام مالک ؒ نے مؤطا میں لکھا ہے، مفہوم: ’’ ایک شخص نبی پاکؐ کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ کیا میں اپنی ماں سے بھی اس کی اجازت لے کر اس کے گھر میں داخل ہوا کروں؟ آپ ؐ نے فرمایا: ہاں! اس آدمی نے کہا: یارسول اللہ ﷺ میں اور میری ماں ایک ساتھ رہتے ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا: ہاں پھر بھی تم اجازت لیے بنا گھر میں داخل نہیں ہوسکتے۔ کیا تم اپنی ماں کو عریاں یا غیر مناسب کپڑوں میں دیکھنا پسند کروگے؟ آدمی نے کہا: ہرگز نہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا: اسی لیے اجازت ضروری ہے، تاکہ اس طرح کے حالات سے انسان بچ سکے۔‘‘

صحابۂ کرامؓ معاشرتی زندگی میں بہت احتیاط برتا کرتے تھے۔ عبداللہ ابن مسعودؓ کی زوجہ فرماتی ہیں: میرے شوہر بھی گھر میں داخل ہونے سے پہلے دروازہ کھٹکھٹایا کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے کبھی مجھے اس حالت میں نہیں دیکھا جس میں وہ مجھے دیکھنا پسند نہ کر تے تھے۔

ملاقات کے آداب میں ایک ادب یہ بھی ہے کہ جب کوئی کسی سے ملاقات کی غرض سے جائے تو میزبان کا دروازہ کھٹکھٹا کر دروازے کے سامنے ہی نہ کھڑا رہے، بل کہ ایک طرف ہوکر کھڑا ہو تاکہ دروازہ کھلنے پر کسی نامحرم پر نظر نہ پڑے۔ دوسری بات یہ کہ اگر دروازہ پر دستک دینے پر دروازہ نہ کھلے تو دو با ر مزید دروازہ پر دستک دے، پھر بھی اندر سے کوئی جواب نہ آئے تو خاموشی سے واپس لوٹ جائے۔ یا گھر کے اندر سے کوئی تمہارا تعارف پوچھے تو سلام کرکے اپنا تعارف کروانا چاہیے محض یہ کہہ دینا کہ ’’ میں ہوں‘‘ یہ گھر والے کو تذبذب میں ڈال دیتا ہے۔ ملاقات کے وقت اسلام علیکم کہنا اپنے بھائی پر سلامتی اور خیر خواہی کا سب سے بہتر اظہار ہے۔

کلدہ بن حنبل ؓ کہتے ہیں کہ میں دودھ، ہرنی کا ایک بچہ اور کچھ کھیرے لے کر اللہ کے رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور نہ میں نے حاضری کی اجازت چاہی اور نہ سلام کیا تو آپؐ نے فرمایا: تم واپس جاؤ اور (قاعدہ کے مطابق) السلام علیکم کہہ کر داخل (السلام علیکم کیا میں اندر آسکتا ہوں) کہہ کر اجازت مانگو۔(جامع ترمذی، سنن ابی داؤد)

اسلام حسن ِمعاشرت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ انسانی معاملات میں کسی پہلو سے بھی وہ ایسا ماحول پیدا کرنا نہیں چاہتا جس میں انسان خود کو غیر محفوظ سمجھے یا باہمی معاملات میں کسی کو اپنی تحقیر یا عزت نفس مجروح ہونے کا احساس دل میں پیدا ہو، یا کسی قسم کے انتشار اور اخلاقی بگاڑ کی راہ معاشرے میں پھیل کر نسلوں کی تباہی اور بے سکونی کا باعث بنے۔

اگر اسلام کی تعلیمات سے انحراف کیا جائے تو بے راہ روی کا یہ زہر گھروں سے نکل کر پورے معاشرے کو تعفن زدہ بنا دیتا ہے۔ اخلاقی اقدار کسی بھی معاشرے سے ختم ہوجائیں تو پھر اس کو برباد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ یہی حکمت ہے کہ اسلام کی تعلیمات میںسب سے زیادہ اصرار انسان کے اخلاق اور کردا ر کی تطہیر پر کیا گیا ہے۔ تطہیر افکار ہی انسان کے تطہیر اعمال کی مضبوط کڑی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔