سندھ میں کرپٹ افسران و سیاستدانوں کیخلاف گھیرا تنگ

جی ایم جمالی / حسن عباس  جمعـء 8 مارچ 2019
تمام صوبائی محکموں میں محکمہ جاتی اینٹی کرپشن سیل / اینٹی کرپشن کمیٹی آ ف دی ڈپارٹمنٹ کے شعبے قائم کیے جارہے ہیں۔ فوٹو : فائل

تمام صوبائی محکموں میں محکمہ جاتی اینٹی کرپشن سیل / اینٹی کرپشن کمیٹی آ ف دی ڈپارٹمنٹ کے شعبے قائم کیے جارہے ہیں۔ فوٹو : فائل

 کراچی: صوبے بھر میں کرپشن کے خاتمے کے لیے نیب اور اینٹی کرپشن افسران پر مشتمل اجلاس میں کرپٹ مافیا کے خلاف کارروائی، طریقہ کار اور آگہی سے متعلق مختلف مراحل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تاکہ کاغذوں پر منصوبے بنا کر اربوں روپے ہضم کرنے والے سرکاری افسران اور کرپشن میں ملوث سیاستدانوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جاسکے۔

نیب اور اینٹی کرپشن حکام کا مشترکہ اجلاس اولڈ کے ڈی اے بلڈنگ میں منعقد ہوا جس میں اسپیشل سیکریٹری اینٹی کرپشن سہیل احمد قریشی، ڈائریکٹر اینٹی کرپشن فیاض احمد عباسی، صوبے بھر کے ڈپٹی ڈائریکٹرز اینٹی کرپشن اور سرکل افسران نے شرکت کی جبکہ نیب کی طرف سے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد طاہر اور دیگر موجود رہے۔

اجلاس میں ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب نے کرپشن کے خلاف آگہی، کرپشن کی روک تھام اور نیب کے طریقہ کار پر بریفنگ دی جبکہ اینٹی کرپشن حکام نے بتایا کہ صوبائی مشیر مرتضیٰ وہاب کی ہدایت پر سندھ حکومت کے تمام محکموں میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اینٹی کرپشن کمیٹی آف دی ڈپارٹمنٹ ڈے ٹو ڈے مسائل کو حل کرے گی جبکہ مجرمانہ غفلت کی صورت میں محکمہ اینٹی کرپشن کو تحریری طور پر آگاہ کیا جائے گا تاکہ فوری کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔

اجلاس میں بتایاگیاکہ زیادہ تر مسائل افسران اور عملے کی کوتاہی اور سست روی کی وجہ سے بڑھ جاتے ہیں اور عوام کومسائل کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر محکمے میں کمیٹی بنانے کا مقصد وقت کا زیاں کیے بغیر مسائل حل کرنا ہے۔

اجلاس میں بتایا گیاکہ محکمہ اینٹی کرپشن سے بھی کرپشن کے خاتمے کے لیے تمام ڈپٹی ڈائریکٹرز اور سرکل افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ کسی درخواست پر براہ راست کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائیں جب تک اس بارے میں اعلیٰ حکام سے تحریری اجازت نامہ حاصل نہ کیا جاسکے۔

اجلاس میں بتایا گیاکہ مختلف محکموں اور افسران کی جانب سے شکایات موصول ہو رہی تھیں کہ نچلی سطح پر ساز باز کرکے جعلی درخواستوں پر افسران کو بلیک میل کیا جاتا رہا ہے اور اینٹی کرپشن پر اس کا غلط اثر پڑا ہے اس لیے اینٹی کرپشن کا طریقہ کار مکمل طور پر شفاف بنادیا گیا ہے۔ اجلاس میں مزید بتایاگیا کہ اس وقت صرف14 انکوائریزالتوا میں ہیں جبکہ4610 انکوائریز پر فیصلہ کیا جاچکا ہے۔

اجلاس میں بتایاگیا کہ اینٹی کرپشن کمیٹی ون نے586 ، اینٹی کرپشن کمیٹی ٹو نے2704 اور اینٹی کرپشن کمیٹی تھری نے1320 انکوائریز سے متعلق فیصلے کرلیے ہیں۔ دوسری جانب حکومت سندھ انکوائریز اینڈ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سروسز جنرل ایڈمنسٹریشن اینڈ کوآرڈینیشن ڈپارٹمنٹ نے مجاز اتھارٹی یعنی وزیراعلیٰ سندھ کی منظوری سے ایک سرکلر جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تمام ایڈمنسٹریٹیو سیکریٹریز ایک ’شکایتی سیل‘ (کمپلینٹ سیل) قائم اور اس کے فون نمبر مشتہر کریں گے جن پر عوام باآسانی رابطہ کرسکیں۔

شکایتی سیل کا سربراہ گریڈ19 یا بالا کا سینئر افسر ہوگا جو روزانہ کی بنیاد پر موصول ہونے والی تمام شکایات کا جائزہ لے گا اور ہر یوم کار ( ورکنگ ڈے ) کی صبح سیکریٹری کو تمام شکایات اور باالخصوص وہ شکایات پیش کرے گا جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے فوری توجہ اور کارروائی کی متقاضی ہوں، ایسی شکایات جن میںآفیشلز پر سنگین الزامات عائد کیے گئے ہوں وہ شکایات انکوائریز اینڈ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے کمپلینٹ سیل کو قواعد و قوانین کے تحت مزیدکارروائی کی سفارش کے ساتھ بھیجی جائیں گی۔

کسی شکایت کے ازالے کے لیے اقدامات اورکارروائی کی بڑے پیمانے پر تشہیر بھی کی جاسکتی ہے تاکہ عوام الناس میں یہ اعتماد پیدا ہوکہ ان کی شکایات اعلیٰ سطح پر سنی جارہی ہیں اور ان پرکارروائی بھی ہو رہی ہے۔

انسپیکٹر جنرل آف پولیس کے تحت کمپلینٹ سیل کے قیام کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کے احکام ہوم سیکریٹری سندھ کے ذریعے پہنچائے جائیں گے۔ آئی جی آفس میں کمپلینٹ سیل ڈی آئی جی رینک افسرکی سربراہی میں کام کرے گا اور شکایات پر قانون کے مطابق مزید کارروائی کیلیے ہر15 روز کے بعد باقاعدگی کے ساتھ پروگریس رپورٹ انکوائریز اینڈ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ ( E&ACE ) آفس کو ارسال کی جائے گی۔

اسی طرح ڈویژنل سربراہ ہونے کی حیثیت سے کمشنرز اور ڈی آئی جیز ایڈیشنل کمشنر ایڈیشنل ڈی آئی جی کی سربراہی میں کمپلینٹ سیل قائم کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔