جاب والی لڑکی... اوہ نو!

راضیہ سید  جمعـء 8 مارچ 2019
ہمارے ہاں کیا ملازمت پیشہ عورت کو اس کے حقوق ملیں گے؟ عزت ملے گی؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمارے ہاں کیا ملازمت پیشہ عورت کو اس کے حقوق ملیں گے؟ عزت ملے گی؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میں جس کالونی میں رہتی ہوں وہاں سیر و تفریح کےلیے کوئی پارک تو نہیں لیکن کالونی کے اندر ہی گرین بیلٹس اور خاصی کشادہ گلیاں ہیں جو مجھ جیسے موٹے افراد کے چہل قدمی کرنے کےلیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ کالونی کے نہ صرف اندر ایک خوب صورت مارکیٹ ہے بلکہ اس کے بالکل اختتام پر ہی مین بازار شروع ہونے لگتا ہے۔ سو اس شدید سردی کے عالم میں بھی مجھ جیسے کئی سرپھرے لوگ ہیں جو کہیں نہ کہیں سے نمودار ہوتے اور گیٹ تک واک کرنے کےلیے جاتے ہیں۔

اس دن غیرمعمولی طور ایک خاتون کی بات سے میرا دل بہت دکھا۔ میرے واک کرتے ہوئے ایک لڑکی اور دو تھوڑی نسبتاً بڑی عمر کی خواتین سامنے سے آرہی تھیں کہ اچانک میرے کانوں نے ایک جملہ سنا، ’’امی پلیز وہ لڑکی مجھے بھائی کےلیے اچھی لگی ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ وہ کہیں سے رشتہ دیکھ کر ہی آئی تھیں اور اب آئندہ کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال ہو رہا تھا، سو اب باری تھی امی جان کے بولنے کی جو یوں گویا ہوئیں:

’’نمرہ تم مت بولو بڑوں کی باتوں میں! وہ لڑکی جاب کرتی ہے اور نوکری والی لڑکی گھر لا کر مجھے اپنے بیٹے کو ہاتھ سے نہیں گنوانا۔ یہ جاب کرنے والی لڑکیاں بہت تیز اور چلتر ہوتی ہیں۔ مجھے پہلے پتا ہوتا تو میں رشتہ ڈالنے ہی نہ جاتی۔‘‘ بات آئی گئی ہوگئی لیکن میں بہت پہلے سے اس موضوع پر سوچتی آئی ہوں کہ ہمارے ہاں کیا ملازمت پیشہ عورت کو اس کے حقوق ملیں گے؟ عزت ملے گی؟ دفتر جاؤ تو باس کی ڈانٹ سنو کیونکہ سب تو نہیں لیکن کئی افراد خواتین کی ذہانت کو برداشت نہیں کرسکتے، اور بے کار کی باتوں پر ڈانٹ کر شور و غل کرنا ان کی عادت بن جاتی ہے۔ اچھے کاموں کا کریڈٹ لینا اور نہ ہونے والی غلطیوں پر پورے دفتر کے سامنے سنانا ایک معمول بن جاتا ہے۔

کل ہی میری ایک رشتہ دار خاتون کہنے لگیں کہ گھر کے حالات بہت خراب ہیں، بیٹا نشہ کرتا ہے؛ اور میرے شوہر تو تمہیں پتا ہے، صدیوں کے نکھٹو ہیں۔ اب میری امی کے اس مشورے پر کہ تمھاری بیٹی کو نوکری کرلینی چاہیے، وہ بولیں نہیں بہن معاف رکھو مجھے! میری بیٹی تو سوچ نہیں سکتی مردوں کے ساتھ بیٹھ کر کام کرنے کا، نہ ہی وہ روز میک اپ کرکے جاسکتی ہے نہ خوشبو لگا کر مردوں میں گھوم سکتی ہے۔ وہ تو گھر بیٹھ کر ٹیوشن ہی پڑھا سکتی ہے، اب ہم کوئی بے غیرت تھوڑی ہیں جو بیٹیوں کو باہر نکال دیں کمائی کےلیے۔

ہمارے آفس کی ایک کولیگ بتانے لگیں کہ ان کے پانچ سات رشتے ان کی نوکری کی وجہ سے ختم ہوئے۔ اب میں حیران کہ آج کل تو لڑکوں کی مائیں پہلے سے سرمایہ کاری کرکے یہ پوچھتی ہیں کہ بیٹا کتنا کمالیتی ہو؟ تو میری کولیگ کہنے لگیں کہ نہیں ہر رشتے والی کو میں پکے منہ والی لگتی ہوں، کہ اس نے تو ساری زندگی دفتر میں ہی گزار دی ہے، نجانے اب تک شادی کیوں نہیں ہوئی اور ہمیں ’’گھریلو لڑکی‘‘ چاہیے۔

میں پندرہ سال سے خود مختلف اداروں کے ساتھ کام کر رہی ہوں، غیر شادی شدہ بھی ہوں تو ایسے بہت سے مسائل میرے مشاہدے اور تجربوں کی وجہ سے مجھ پر آشکار ہوئے ہیں۔

’’ہائے میڈم! آپ نے شادی کی نہیں یا ہوئی نہیں؟‘‘

’’کب سے جاب کر رہی ہیں؟ گھر داری بھی آتی ہے یا نہیں؟‘‘

’’آج کل کی لڑکیوں سے تو بس اللہ بچائے! دفتر والے تو زبان درازی سکھا کر ہی بھیجتے ہیں۔‘‘

’’بہن! آپ کی بیٹی سات بجے گھر آرہی تھی، ہم نے سمجھا شاید آفس سے ہی آرہی ہے…‘‘

یہ سب تلخ جملے آپ کو دن رات سننے اور پھر سہنے پڑتے ہیں۔ خواہ عورت معاشی طور پر کتنی ہی بااختیار کیوں نہ ہو، یہ سارے مسائل بناتا کون ہے؟ ہمارے دفتر میں کام کرنے والے چند اوچھے باس، منچلے اور بدتمیز لڑکے، محلے میں ٹوہ رکھنے والی خواتین، نکھٹو شوہر۔ (یہاں واضح رہے کہ میں سب کی بات نہیں کررہی۔) اور دوسری طرف ایسا بھی نہیں کہ تمام کی تمام لڑکیاں مجبور ہیں اور ضرورتاً نوکری کر رہی ہیں۔ کئی ایسی بھی ہیں جن کی تنخواہ کا پیکیج جس طرح بڑھتا ہے، اس کی وجوہ سب کو معلوم ہی ہوتی ہیں اور وہ صرف وقت گزاری کو ہی اپنا مقصد سمجھ لیتی ہیں۔

تو آج سب ناقدین سے یہی کہنا ہے کہ جناب اگر آپ کسی کی مشکلات دور نہیں کرسکتے تو ان کو بڑھائیں بھی نہیں۔ اگر آپ تریاق بن نہیں سکتے تو زہر رسانی کا سبب بھی نہ بنیے۔ اگر آپ کسی کے گھر میں راشن ڈال نہیں سکتے تو کسی کا رزق چھینیں بھی نہیں، کیونکہ مجبور لڑکیوں کو نہ صرف پیٹ بھرنے کےلیے باہر نکلنا ہے بلکہ آپ کی بے معنی باتوں کو برداشت بھی کرنا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔