اسلامی دنیا میں خانہ جنگی کی آگ لگانے والے

عابد محمود عزام  اتوار 4 اگست 2013

میں کئی روز سے اداسیوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوں۔افسردگی کی لہریں میرا گھیرائو کیے ہوئے ہیں۔ امیدیں دم توڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔اسلامی ممالک ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی مانند ایک ایک کرکے دشمن کی سازشوں کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ایک کے بعد دوسرا  ملک خانہ جنگی کی جانب گامزن ہے۔ اب شام کے بعد مصر بھی دشمن کے نشانے پر ہے۔ کسی بھی  ملک کو مستحکم و مضبوط نہیں ہونے دیا جاتا۔ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کوئی بھی اسلامی ملک امن و آشتی کا گہوارا نہیں ۔

بدامنی ،جنگ وجدل اور قتل وغارتگری کی دبیز تہہ میں لپٹی امت مسلمہ خود اپنی داستان الم سنا رہی ہے ۔ عالم اسلام کے زخموں سے رستا ہوا خون ہر کھلی آنکھ کو دکھائی دے رہا ہے۔ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں اور گولہ و بارود کی بو سے دماغ کی رگیں پھٹنے کو ہیں۔ عالم اسلام میں سکون و چین عنقا ہوچکا ہے۔اسلامی ممالک شورش زدہ ممالک میں تو سرفہرست جب کہ پرامن ممالک کی فہرست کی آخری سطروں میں بھی نام نظر نہیں آتا۔ پیار و محبت کا درس دینے والے مذہب کے پیروکار آپس میں ہی دست و گریباں ہیں۔ دنیا میں اور بھی بہت سی قومیں آباد ہیں لیکن ہر عتاب کا شکار ہم اور سب سے ارزاں خون مسلمان کا ہی ہے۔

میں اسلامی ممالک میں آپس میں قتل و غارت گری کی اصل وجہ کھوجنے کی کوشش میں مصروف تھا کہ ایک خبر نے میرے سامنے عالم اسلام میں خانہ جنگی کی آگ لگانے والے اصل ماسٹر مائنڈ کے چہرے کو بے نقاب کردیا۔ گزشتہ دنوں بیرون ملک جنگوں میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں کے نیشنل کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے خود امریکا کے ریپبلکن سینیٹر رینڈ پال نے واشنگٹن کی دفاعی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے: ’’امریکا دنیا کے ہر کونے میں ہونے والی خانہ جنگی میں ملوث رہا ہے ۔وفاقی حکومت کے لیے آئین اور قوم کے دفاع سے بڑھ کر کوئی بڑی ترجیح نہیں ہوتی لیکن بعض اوقات میں سوچتا ہوں ہمارا دفاع دنیا کے کسی بھی کونے میں خانہ جنگی میں ملوث ہونے کی خواہش سے کمزور ہوا۔

اس نے لیبیا، مصر اور شام میں امریکی مداخلت کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ہم کوئی بھی عملی قدم اٹھانے سے پہلے سوچتے نہیں کہ اس کا ردعمل کیا ہوگا، ہمارے ملک اور قوم کی بقاء کے لیے امن واشنگٹن کی اولین ترجیح ہونی چاہیے اور دنیا پر تھانیداری سے پرہیز کرنا چاہیے۔‘‘ اس بیان کے بعد میرے سامنے ساری حقیقت آشکارا ہوگئی۔ مجھے اسلامی ممالک امریکا کی اس شرارت سے سب سے زیادہ متاثر نظر آئے ہیں۔ بہت سے اسلامی ممالک میں مسلمان سے مسلمان جنگ کرتا نظر آتا ہے۔ افغانستان، عراق، صومالیہ اور شام میں ایک نبی، ایک قرآن اور ایک مذہب کے ماننے والے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر ایک دوسرے کے خلاف لڑرہے ہیں اور دشمن اب مصر، ترکی، ایران ، پاکستان اور سعودی عرب سمیت تمام اسلامی ممالک میں خانہ جنگی کی آگ سلگانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

سوال یہ ہے کہ امریکا اسلامی دنیا کو خانہ جنگی کی طرف کیوں دھکیلنا چاہتا ہے؟ واضح ہو کہ امریکا یہ اقدام دو وجہ سے کرنا چاہتا ہے۔ پہلی وجہ تو یہ کہ خانہ جنگی کی صورت میں دونوں فریقوں کو اسلحے کی ضرورت ہوتی ہے اور امریکا اس وقت دنیا میں اسلحے کی مارکیٹ کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے۔ امریکا سے اسلحہ خریدنے والے سب سے بڑے تاجر اسلامی ممالک ہی ہیں۔ نیویارک ٹائمزکی رپورٹ کے مطابق  2012 میں 66 ارب 30کروڑ ڈالر مالیت کے ہتھیار فروخت کرکے امریکادنیا میں اسلحہ فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا۔ اسلحے کی 85ارب 30کروڑ ڈالر کی مجموعی عالمی مارکیٹ میں صرف امریکا کے ہتھیاروں کی فروخت 75فیصد سے زاید تھی۔ امریکی اسلحے کی سب سے زیادہ خریداری سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اومان کی طرف سے کی گئی جو ایک سال میں ہتھیاروں کی فروخت کا امریکی تاریخ کا سب سے بڑا ریکارڈ ہے۔ ان ممالک نے امریکا سے قیمتی جنگی طیارے اور میزائل ڈیفنس سسٹم خریدا۔

سعودی عرب نے امریکا سے 33ارب 4کروڑ ڈالر کے ہتھیاروں کی خریداری میں 84ایف 15لڑاکا طیارے، میزائل اور دیگر اسلحے سمیت اپنی فضائی بیڑے میں موجود 70ایف 15طیاروں کی اہلیت میں اضافہ کیا۔ متحدہ عرب امارات نے 3ارب 49کروڑ ڈالر کا میزائل دفاعی نظام اور راڈار جب کہ 939کروڑ ڈالر کے چنیوک ہیلی کاپٹر خریدے۔ اومان نے 1ارب 4کروڑ ڈالر کے 18ایف 16لڑاکا طیارے خریدے۔ان کے علاوہ اور بہت سے اسلامی ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ ترقی پذیر ممالک نے 71ارب 5کروڑ ڈالرکے اسلحے کی خریداری میں سے 56ارب 3کروڑ ڈالر کے ہتھیار اور اسلحہ امریکا سے خریدا۔امریکا ہر سال اسلحے کی تجارت میں مزید ترقی کررہا ہے۔

وہ اسلامی ممالک کو جنگ کی بھٹی میں جھونک کر اپنا اسلحہ بیچنے سے جس قدر سرمایا کماتا ہے شاید کسی اور ذریعے سے اتنا نہ کماتا ہو۔اسلامی ممالک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ  امریکا اسلامی ممالک کو خانہ جنگی کے ذریعے اس قدر کمزور کردینا چاہتا ہے کہ مستقبل میں کبھی بھی یہ ممالک اس کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔اسلامی ممالک ہمیشہ امریکا کے کاسہ لیس بنے رہیں اور کمزور اسلامی ممالک پر وہ باآسانی قبضہ کرلے۔ اگر کوئی مسلم لیڈر امریکا کے اس خواب کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا بھی ہے تو اسے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ 1974 کو ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، معمر قذافی، صدام حسین سمیت چند مسلم رہنمائوں نے اسلای بلاک کے حوالے سے سنجیدگی سے کوشش کی تھی جس پر امریکا سمیت سامراج پیج و تاب کھانے لگا، آخرکار سازشوں کے تانے بانے بن کر  اسلامی بلاک کے نام لیوائوں کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔

آج شاید عالم اسلام کے متحدہ اسلامی بینک کے قیام کے خواہاں، پیٹرول کی سپلائی کے حوالے سے اہم پیشرفت کرنے والے، اسلامی بلاک کے ذریعے مسلم ملکوں کے وقار اور مضبوط معیشت کے حامی رہنمائوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہیں بچا۔امریکا اور عالم اسلام کے تمام بدخواہوں کی یہی خواہش ہے کہ کسی طرح تمام مسلمان آپس میں دست و گریباں ہوجائیں۔ ہر اسلامی ملک خانہ جنگی کی بھٹی میں جھونک دیا جائے۔ لیکن اسلامی ممالک کو دشمن کی چالوں کو سمجھ کر اس کی ہر ناپاک کوشش کو ناکام و نامراد لوٹانا ہوگا۔ اس کے لیے اتحاد سے بڑھ کر کوئی قوت نہیں ہے۔ خدا گواہ ہے کہ اگر مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حدیث: ’’تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں‘‘ پر عمل کرلیں تو دنیا کی کوئی طاقت بھی انھیں زیر نہیں کرسکتی۔ دنیا میں مسلم ممالک کے وقار کو بحال کرنے اور اقوام متحدہ کی کاسہ لیسی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے تمام اسلامی ممالک کا متحدہ بلاک وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر اسلامی ممالک آج ہاتھوں میں ہاتھ دے کر سنجیدہ فیصلے نہیں کریں گے تو کل تمام اسلامی ممالک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔