خواتین اور سائنس: اتنا چلے کہ راستے حیران رہ گئے

ڈاکٹر میشال نذیر  جمعـء 8 مارچ 2019
گلوبل ویمن بریک فاسٹ کے موقعے پر ڈاکٹر بینا شاہین صدیقی اور ڈاکٹر اقبال چوہدری، ایک گروپ فوٹو میں۔ (تصاویر بشکریہ آئی سی سی بی ایس)

گلوبل ویمن بریک فاسٹ کے موقعے پر ڈاکٹر بینا شاہین صدیقی اور ڈاکٹر اقبال چوہدری، ایک گروپ فوٹو میں۔ (تصاویر بشکریہ آئی سی سی بی ایس)

12 فروری 2019 کو پوری دنیا میں ’’گلوبل ویمن بریک فاسٹ’’ (خواتین کا عالمی ناشتہ) کے عنوان سے ایک ایونٹ منعقد کیا گیا، جس کا عنوان ’’ایمپاورنگ ویمن ان کیمسٹری‘‘ (کیمیا میں خواتین کو بااختیار بنانا) تھا۔ اس ایونٹ کا انعقاد آئی یو پی اے سی (انٹرنیشنل یونین آف پیور اینڈ ایپلائیڈ کیمسٹری) کے 100 سال پورے ہونے پر کیا گیا۔ آئی یو پی اے سی قومی سطح پر قائم کیمیائی تنظیموں کی بین الاقوامی فیڈریشن ہے جس میں کم و بیش ہر ملک کے ماہرینِ کیمیا کی نمائندگی موجود ہے۔ یہ تنظیم سوئٹزر لینڈ میں رجسٹرڈ ہے، اور اس کا انتظامی دفتر آئی یو پی اے سی سیکریٹریٹ نارتھ کیرولینا، امریکہ میں ہے۔ آج کل اس کے انتظامی دفتر کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر لین سوبے ہیں۔ آئی یو پی اے سی 1919 میں قائم کی گئی جو کیمیائی عناصر اور مرکبات کو نام دینے کے حوالے سے تسلیم شدہ عالمی اتھارٹی ہے۔ اس کے قیام کے بعد اس کو چلانے میں بہت ساری تنظیمیں شامل ہوئیں تو اس کے کام کا دائرہ کار بھی وسیع ہوا۔ اس کے چند اہم کام یہ ہیں: مختلف ممالک کے کیمیا دانوں کے مابین خیالات کا اشتراک، کیمسٹری، فزکس، بیالوجی اور ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق کتابوں کی اشاعت، اور سائنس میں تعلیم کو فروغ دینا وغیرہ۔

گلوبل ویمن بریک فاسٹ کا مقصد خواتین کیمسٹ کو نہ صرف مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے نیٹ ورک کے رابطوں کو بڑھانے میں مدد دینا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انفرادی کیریئر کے مختلف مراحل میں خواتین کا ایک دوسرے کو اپنے کیریئر کی پیش رفت کے بارے میں معلومات فراہم کرنا اور پیشہ ورانہ ترقی میں تحقیق یا تعلیم کے افق پر نئے مواقع تلاش کرنے کےلیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا بھی تھا۔ پاکستان آئی یو پی اے سی کا سرگرم رکن ہے، اس لیے پاکستان میں بھی گلوبل ویمن بریک فاسٹ کی تقریبات منعقد کی گئیں۔ ایسی ہی ایک تقریب کراچی یونیورسٹی کے تحقیقی ادارے ’’آئی سی سی بی ایس‘‘ (عالمی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی تحقیق) میں منعقد کی گئی جس میں ڈائریکٹر آئی سی سی بی ایس، پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری (میرے پی ایچ ڈی سپروائزر) نے خصوصی شرکت کی۔ اس تقریب میں خواتین اساتذہ اور طالبات کی بڑی تعداد موجود تھی، جبکہ اس ایونٹ میں خواتین کی سائنس میں ترقی اور انہیں درپیش مسائل کے حوالے سے خصوصی بات چیت کی گئی۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے طالبات کا حوصلہ بڑھایا اور اس امر پر خصوصی زور دیا کہ اپنے جذبے اور ولولے کو صرف ڈگری لینے تک نہیں رکھیے بلکہ کیریئر میں بھی آگے آئیے۔ اپنی کسی بھی پروفیشنل ڈگری کو ضائع نہ کیجیے۔ خواتین اساتذہ اور طالبات نے بھی عورتوں کے مسائل کے حوالے سے اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا۔ سب اس بات پر متفق نظر آئے کہ پاکستانی عورت کو معاشرتی مسائل کا سامنا ہے، جس کی بڑی وجہ شادی کے بعد سسرال اور شوہرکے رویّے ہیں، جنہیں اب بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہر پروفیشنل انسٹی ٹیوٹ میں لڑکیاں لڑکوں سے بہت آگے ہیں، لیکن ڈگری لینے کے بعد پروفیشن میں آنے والی لڑکیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اور اس سے بھی کم وہ لڑکیاں ہیں جو اپنے پروفیشن میں لیڈر بن کے سامنے آتی ہیں۔ یہ زندہ اور ترقی پذیر ممالک کےلیے ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔

کیمسٹری کی ایک طالبہ کی حیثیت سے میرے نزدیک ہمارے ملک میں ایسے ایونٹس کا انعقاد یقیناً خوشگوار تبدیلی ہے۔ پوری دنیا میں 1901 سے 2018 تک 52 نوبل پرائز خواتین سائنسدانوں کے نام رہے۔ مادام کیوری (میری کیوری) واحد خاتون ہیں جنہیں دو مرتبہ نوبل پرائزملا (1903 میں فزکس کےلیے، اور پھر 1911 میں کیمسٹری کےلیے) جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ عورت کسی بھی میدان میں مرد سے ہرگز پیچھے نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے کچھ کر جانے کے جذبے کو ڈگری لینے کے بعد بھی مرنے نہ دیا جائے۔ پاکستان میں باصلاحیت خواتین کی کوئی کمی نہیں، لیکن کیریئر کو شادی کے بعد جاری رکھنا ہمارے معاشرے میں آج بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس سب کے باوجود، ہمارے ارد گرد ایسی باہمت خواتین موجود ہیں جنہوں نے نہ صرف ملازمت میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے، بلکہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو بھی احسن طریقے سے پورا کیا۔ اس سب میں یقیناً صبر اور ہمت کی ضرورت ہے، سفر کٹھن ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ کسی شاعر کا ایک خوبصورت شعر یاد آگیا:

پھر یوں ہوا کہ صبر کی انگلی پکڑ کے ہم
اتنا چلے کہ راستے حیران رہ گئے

آیئے! آج ہم سب یومِ خواتین کے اس موقع پر خود سے عزم کریں کہ اپنے کسی بھی خواب کو مرنے نہیں دیں گی، اپنی تعلیم اور کیریئر کو جاری رکھنے میں گھریلو اور معاشرتی حالات کو کبھی آڑے آنے نہیں دیں گی۔ ایک عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا اتنا ہی حق ہے، جتنا کہ ایک مرد کو۔ یہ زندگی اللہ کا دیا ہوا بہت خوبصورت تحفہ ہے، کچھ ایسا کیجیے کہ دنیا میں اچھا نام رہ جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر میشال نذیر

ڈاکٹر میشال نذیر

بلاگر حیاتی کیمیا (بایو کیمسٹری) میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اسلام اور سائنس کے موضوع سے خصوصی شغف رکھتی ہیں۔ جو کچھ ہمارے ارد گرد ہورہا ہے، اس سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی سوچ اور فکر، معاشرے کی وہ تصویر ہے جس میں دھنک کے سارے رنگ ہیں؛ اور جسے دیکھنے کےلیے خوبصورت آنکھ چاہیے، جو ہر رنگ میں چھپی خاموشی، شور، سکون، خوشی، غم، خیال، تصور، غرض کہ ہر معاشرتی احساس کو دیکھ، سن، سمجھ اور برداشت کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔