پانی آ رہا ہے

انیس منصوری  اتوار 4 اگست 2013
muhammad.anis@expressnews.tv

[email protected]

جو حکومتیں،بارش کے دو قطرے پی کر  بہک جائے، اُس کے قصیدے لکھنے کے لیے اداکار تو بہت مل سکتے ہیں مگر قلم نہیں ۔چترال کی وادی میں دریا چھلکا تو الفاظ کے جادوگروں نے اپنے مخبروں سے یہ اطلاع لی کہ بتایا جائے کہ میڈیا والے کہاں کہاں موجود ہیں ؟دریا کابل جہاں اپنا زور دکھا رہا تھا وہاں نئے سوٹ میں اُن وزیروں کے کپڑوں پر  بارش کی ایک چھینٹ یا کیچڑ کا ایک داغ نہیں تھا جو کیمروں کے سامنے مسکرا مسکرا کر عوام کے دُکھ میں مرے جا رہے تھے۔

لوگ اپنے پیاروں کی خیریت پوچھتے رہے اور سیاست کے کھلاڑی چُن چُن کر حملے کرتے رہے ۔ وہ دس لوگ بھی تو خیبر پختونخوا  کے شہری تھے جن کی لاشیں لے کر لوگ اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ کب بارش تھمے اور نم مٹی میں اپنے پیاروں کو دفنا سکیں ۔یہ سب لوگ پانی کی دہشت گردی سے نہیں مرے بلکہ یہ آنکھوں میں احساس اور ذمے داری کے پانی نہ ہونے کی وجہ سے قتل کیے گئے ہیں ۔جب پانی پشاور کو گھیرے ہوا تھا تو سارے وزیر اور سارے سیکریٹریز  کہاں تھے؟

یہ سب لوگ عمران خان صاحب کے اردگرد تھے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ صوبے کا چیف کون ہے ؟ لیکن اجلاس کی سربراہی عمران خان نے کی ۔ نواز شریف کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانے والے عمران خان پشاور میں پنجاب کے منصوبوں کی تعریفیں کر رہے تھے ۔ ایک سیکریٹری نے کہا کہ پشاور میں لاہور کے منصوبے نہیں چل سکتے ۔ بات بڑھنے لگی تو ایک سرکاری پریس ریلیز جاری کر دی گئی کہ وہ ماحول اتنا زبردست تھا کہ اجلاس کھلی کچہری میں بدل گیا ۔ میرا دل باغ باغ ہو جاتا کہ وہاں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر عمران خان اس بپھرے ہوئے پانی سے بھی مل لیتے وہاں گھروں میں آئے پانی کو چھو کر گزر جاتے ۔ اُن پانی کی ستائی ہوئی لاشوں پر رونے والوں کے آنسو پونچھ دیتے۔ مجھے تبدیلی کا تو نہیں پتہ لیکن دریا کا پانی پہنچ گیا ۔

تبدیلی کس چڑیا کا نام ہے مجھ جیسے کم عقل کو نہیں معلوم ۔ لیکن یہ ضرور جانتا ہوں دو قطروں نے جیسے پشاور کو پانی پانی کر دیا ویسا ہی منظر کراچی میں دوڑتی سڑکوں کا تھا ۔ اب تو مفاہمت کی چادر سندھ حکومت کے پاس نہیں ۔ اب تو دوستوں کو خوش کرنے کی ضرورت نہیں ۔ تو کیوں؟ سڑک کے کنارے برسات میں ماں گیلی چادر سے اپنے بچے کو چھپا رہی تھی ؟ اگر سڑکوں کو بہا کر لے جانے والا پانی نہیں روک سکتے تھے تو کیا ایک ایڈمنسٹریٹر کے جانے سے بجلی آگئی ۔ کیا قیامت سے بڑی کوئی قیامت تھی کہ گھر پانی سے بھرے ہوں  ، بجلی کا 12 گھنٹے تک معلوم نہ ہو۔ بچوں کی روٹی گیلی ہو چکی ہو  اور بارش کی وجہ سے مزدوری کے پیسے بھی نہ ملے ہوں۔مجھ سے سڑک پر کھڑے ایک دکاندار نے پوچھاکہ کراچی کی چھوٹی سڑکوں پر دو بڑے وزیروں کا بڑی گاڑیوں میں  چکر لگا لینے سے کیا میرے گھر کی بجلی آگئی ؟

بہار ہو یا خزاں ،خوشی ہو یا غم ، رمضان ہو یا محرم ،بارش ہو یا گرمی کیا ہر موسم اور ہر تہوار میں کراچی کے باسیوں کی جان جانا معمولی بات ہے ؟ 12 افراد بارش کے باعث قتل ہو گئے ۔ کوئی ہے جو 12 سال تو دور کی بات 12 مہینوں تک اُن کے گھر میں راشن دے سکے ؟اُن کے بچوں کی تعلیم کا ذمے لے سکے؟ اگر اتنا وقت ہوتا تو آج میرا قلم ضرور لکھتا کہ حکمران  ماضی سے کچھ سبق سیکھتے ہیں۔

یہ فیصلہ تو اب سپریم کورٹ کو کرنا ہے کہ شرمناک کا لفظ گالی ہے یا نہیں ۔ لیکن ٹی وی کی چھوٹی سی اسکرین پر پشاور اور کراچی کا حال دیکھ کر مجھے شرم ضرور آرہی تھی۔ اور یہ شرمناک بھی ہے جب کوہ سلیمان کے پہاڑوں کو نم کرتا ہوا پانی،  راجن پور پہنچا تو میں تلاش کرنے لگا کہ پنجاب کے خادم اعلی اس وقت کہاں ہیں؟کاہا اور چھاچھڑ نالے کوہ سلیمان کے پہاڑوں سے آتے پانی سے بھر گئے ۔ ہر سال یہ ہوتا ہے لیکن راجن پور کے شہری کیا کر سکتے ہیں کہ جب اُن کا منتخب نمایندہ لاہور میں ڈپٹی اسپیکر ہو ۔ لاہور سے راجن پور کا راستہ ہے ہی اتنا دشوار کہ غریبوں کے غریب نمایندے کیسے وقت پر پہنچیں گے؟

سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کیا قصور تھا کہ راجن پور کے علاقے میراں پور میں اُن کا فارم ہائوس بھی ڈبو دیا گیا ۔ ہمارے سابق وزیر اعظم کے خلاف یقینا کوئی سازش  ہوئی ہو گئی  جو ان کی اتنی چھوٹی سی جائیداد کو بھی برداشت نہیں کیا جا رہا ۔ کوئی بات نہیں اب تک تو بس تین لوگوں کو وہاں پانی نے قتل کیا ہے۔ کوئی بات نہیں ابھی تو لال گڑھ میں پانی نے لوگوں کو صرف بے گھر ہی کیا ہے اُن کی فصلوں کو نقصان ہی  پہنچایا ہے ۔ ابھی تو خادم اعلی تک بات پہنچنے میں دیر لگے گی کیونکہ لاہور اور راجن پور کا راستہ  پانی نے خراب کر دیا ہے ۔ہر سال سیلاب آتا ہے اور ہر بار کا کھوکھلا دعوی ہے ۔ پنجاب میں تو پانچ سال سے شہباز شریف کی حکومت ہے۔ سندھ میں تو پیپلز پارٹی ہے  پھر کم از کم اتنی تو پریکٹس ہو جانی چاہیے کہ اب لوگوں سے  نئے  وعدے کر لیں ۔

یہ وہ ہی پشتے ہیں جو پچھلی بار ٹوٹے تھے اور یہ وہ ضلع ہے جہاں بلوچستان کے طاقتور ترین خاندان رہتے ہیں ۔ یہ خضدار ہے  جہاں اس  دور حکومت کے پوشیدہ وزیر اعلی کا بھی آبائی گائوں ہے ۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں سردار ثناء اللہ زہری پر حملہ ہوا ۔ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر کسی کو بھی کسی عہدے سے ہٹا دیتے ہیں ۔ کاش جب دو دن پہلے وہاں کے گائوں پانی میں بہہ رہے تھے تو وہ پانی کو بھی ہٹا دیتے ۔ کاش کاش پشاور میں تبدیلی آجاتی ، کاش سندھ کے حکمرانوں نے سبق سیکھ لیا ہوتا ۔ کاش خادم اعلی کوہ سلیمان کے آنسوئوں کو چند انقلابی اشعار کی طرح یاد رکھتے ، کاش بلوچستان کے پہاڑوں پر سے اترنے والا پانی یاد رکھا جاتا ۔کاش کاش مجھے یہ نہ لکھنا پڑتا کہ خدا اس موسم میں سب کو محفوظ رکھے کیونکہ مجھے آگے اور پانی نظر آرہا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔