زیادہ گیس پیدا کرنیوالے صوبے کا گیس پر حق بھی زیادہ ہے، ہارون اگر

بزنس رپورٹر  اتوار 4 اگست 2013
کراچی چیمبر کا گیس شیئرنگ فارمولے پر وفاقی وزیرپٹرولیم کے بیان پر تحفظات کا اظہار.۔ فوٹو: فائل

کراچی چیمبر کا گیس شیئرنگ فارمولے پر وفاقی وزیرپٹرولیم کے بیان پر تحفظات کا اظہار.۔ فوٹو: فائل

کراچی: کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد ہارون اگرنے وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی کے گیس شیئرنگ فارمولا میں تبدیلی کے حوالے سے دیے گئے بیان پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی وزیر کا اقدام آئین اور اس کے آرٹیکلزسے متصادم ہے۔

ہارون اگر نے کہاکہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل158کے مطابق گیس استعمال کا پہلا حق اس صوبے کا ہے جہاں پر گیس دریافت ہوئی اور اس کے ویل ہیڈ واقع ہیں۔کے سی سی آئی کے صدر نے وفاقی وزیر پٹرولیم کی جانب سے اس آرٹیکل کوڈومیسٹک استعمال کے حوالے سے تشریح سے عدم اتفاق کیاہے اور کہا ہے کہ ملک کے مستند قانون دانوں نے اس آرٹیکل کی کئی مرتبہ واضح تشریح کی ہے جس کے مطابق جس صوبے میں گیس کا ویل ہیڈ واقع ہواس صوبے کواپنے استعمال اور قدرتی گیس کی ضرورت کے لیے پاکستان کے دیگر حصوں کی نسبت فوقیت حاصل ہو گی۔اس وقت پاکستان کی قدرتی گیس کی مجموعی پیداوار کا 67فیصد سندھ پیدا کرتا ہے،19فیصد گیس بلوچستان جبکہ9فیصد خیبر پختونخوا اور5فیصد گیس پنجاب میں پیدا ہوتی ہے۔

آج بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ گیس پیدا کرنے والا صوبہ کتنی گیس استعمال کر رہا ہے اور دیگر صوبوں کو کتنی مقدار میں گیس فراہم کی جارہی ہے، ہارون اگر نے کہاکہ سوئی ناردرن گیس( ایس این جی پی ایل) کو2000ایم ایم سی ایف ڈی گیس سپلائی دی جاتی ہے جبکہ سوئی سدرن گیس(ایس ایس جی سی ایل ) کو 1200ایم ایم سی ایف ڈی گیس دی جارہی ہے جو ظاہر کر تاہے کہ سب سے کم گیس پیدا کرنے والا صوبے کو سب سے زیادہ گیس سپلائی کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ آئین کا احترام اورپاسداری لازم ہے اور گیس پیدا کرنے والے صوبے کواس کی ضرورت استعما ل کے مطابق گیس سپلائی کی جائے۔

گیس کی موجودہ ڈیمانڈ اورسپلائی کے حوالے سے ہارون اگر نے بتایا کہ سوئی سدرن گیس ریجن میں گیس کا شارٹ فال350ایم ایم سی ایف ڈی ہے جو کہ تقریباً شارٹ فال کا 25تا30فیصد ہے جبکہ سوئی نادرن گیس میں شارٹیج تقریباً 600ایم ایم سی ایف ڈی ہے جس کی شرح  25تا30فیصد ہے۔جس سے ڈیمانڈ اورسپلائی کی شرح کے بارے میں صورتحال واضح ہے، ہارون اگر نے وضاحت کی کہ سوئی نادرن گیس ریجن میں گیس کی شارٹ فال کااِتنا شوروغل کیوں ہے؟ اس کی پہلی وجہ حجم کے لحاظ سے  600ایم ایم سی ایف ڈی گیس کا  ہوناہے جو کہ ایک بڑی مقدار ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 7برس میں سوئی ناردرن گیس ریجن میں لاتعداد کنیکشنز دیے گئے اور اس امر کا خیال نہیں رکھا گیا کہ گیس سپلائی کتنی دستیاب ہے اور مستقبل میں کتنی گیس دستیاب ہو گی۔ ہارون اگر نے کہاکہ یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان میں گیس کے ذخائر ختم ہورہے ہیں۔ ماشا اللہ کئی نئی گیس فیلڈ کا اضافہ سسٹم کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ 7 سالوں میں 300سے لے کر400ایم ایم سی ایف ڈی گیس سسٹم میں آئی ہے اور گیس کی مجموعی پیداوار 3800 سے بڑھ کر4200ایم ایم سی ایف ڈی ہو چکی ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم ایک پاکستان پر یقین رکھتے ہیں مگر زمینی حقائق کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔انہوں نے مزید اپیل کی کہ سوئی سدرن گیس ریجن میں واقع آبادی کودرپیش شارٹ فال کو پورا کرنے کے لیے گیس کوٹے میںبھی اضافہ کیاجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔