تصویر کے رنگ

زہرا تنویر  جمعـء 8 مارچ 2019
میرا مشاہدہ ہے کہ طبقہ کوئی بھی ہو، کسی نہ کسی موڑ پر عورت کا استحصال ضرور ہوتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میرا مشاہدہ ہے کہ طبقہ کوئی بھی ہو، کسی نہ کسی موڑ پر عورت کا استحصال ضرور ہوتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمیشہ اس تصویر کے رنگ بہت دلکش و دلفریب ہوتے تھے۔ خوشنما رنگ بہت جلد اپنی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں۔ شاید دنیا والے چمکتی اور کھلکھلاتی تصویروں کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ہر روز نجانے کتنی ہنستی مسکراتی سجی سجائی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ چاند چہرے بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ کتنے دلوں میں خواہش جاگتی ہے کہ ہم بھی یوں ہی ہنستے مسکراتے زندگی گزارتے۔

اب سوچ پر کسی کو اختیار نہیں ہوتا، جس جانب مرضی رخ موڑ لے۔ چہرہ دیکھ کر کون سی کہانی دریچہ خیال میں آتی ہے، یہ بھی ایک الگ کہانی ہے۔ کیونکہ چہرے پڑھنا بھی ایک کمال ہے۔ بعض اوقات ہم تصویر کا بس ایک ہی رخ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ دوسرا رخ دیکھنے کا تکلف ہی نہیں کرتے۔ اگر تصویر کو چاروں اطراف سے دیکھ لیں تو جو سامنے کی تر و تازگی ہے وہیں اس کی پشت پر دیمک زدہ ذات کنڈلی مارے بیٹھی ہوگی۔ ذات کی نگری میں کون کتنے اور کیسے زخم چھپائے بیٹھا ہے، یہ سجی سجائی تصویر میں کبھی نظر نہیں آئے گا کیونکہ لوگ سجاوٹ کے مرید ہیں؛ ٹوٹی ہوئی تصویر کو بھلا کوئی دیکھتا ہے یا جوڑتا ہے؟

کچھ سال قبل ایک تصویر آرٹ گیلری میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے ہر جگہ سمینار اور کانفرنسیں چل رہی تھیں۔ ایگزیبیشن دیکھتے ہوئے ایک خاتون مل گئیں۔ کہنے لگیں، اس سب کا کچھ فائدہ ہے کیا؟ یہاں جو لوگ آئے ہیں کیا یہ کسی ظلم و ستم کا شکار ہیں؟ بس فراغت کے مشاغل ہیں۔ میں یہ بات سن کر بہت حیران ہوئی، ’’میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرتی۔ کوئی بھی انسان ایسا نہیں جو دکھ درد سے آزاد ہو۔ اور ہم جس سماج کا حصہ ہیں، وہاں ہر طبقے میں عورت کا استحصال ہو رہا ہے۔ کہیں پر آزادی کا پروانہ تھما کر استعمال کیا جا رہا ہے تو کہیں اپنے ذاتی مفاد کےلیے۔‘‘

’’تو عورت سے کون کہتا ہے وہ استعمال ہو گھر بیٹھ کر عزت سے گزارا کرے،‘‘ وہ خاتون بولیں۔

’’میرے نزدیک تو گھر بیٹھی عورت کے پاس عزت ہوتی ہی نہیں۔ بس ایک پردہ داری کا بھرم ہوتا ہے جو معاشرے میں دکھاوے کے طور پر کام آتا ہے کہ گھر بیٹھی عورت ورکنگ ویمن سے زیادہ عزت والی زندگی گزار رہی ہیں۔ کیا آپ نے جیل میں قیدی دیکھے ہیں جن کی زندگی مفلوج ہو جاتی ہے۔ بس یہی حال کچھ گھر بیٹھی خواتین کا ہے،‘‘ میں نے کہا۔

’’تو آپ کا کیا مطلب ہے کہ عورت اپنا گھر چھوڑ کر باہر نکل پڑے؟‘‘

’’میں نے ایسا کب کہا کہ گھر بار چھوڑ دے۔ دیکھیے آپ کو ہر عورت کا میک اپ سے مزین چہرہ اچھا لگتا ہے۔ کیا کبھی اس چہرے کے پیچھے چھپی اذیت کو دیکھا ہے؟ وہ اذیت جو جسمانی نہیں ہوتی بلکہ ذہنی اذیت ہوتی ہے۔ اور ذہنی اذیت، جسمانی اذیت سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ایک تو آپ کے ہر کام میں نقص نکالا جاتا ہے، دوسروں کے سامنے تذلیل کی جاتی ہے لیکن عورت خاموشی کی چادر اوڑھے رکھتی ہے کیونکہ اس کے ماں باپ نے بیٹی کو رخصت کرتے وقت کہا تھا کہ تمہارا جینا مرنا اب اسی گھر میں ہے۔ اور ہمارے آس پاس 93 فیصد خواتین مردہ زندگی بسر کرکے قبر میں چلی جاتی ہیں،‘‘ میں نے تاسف سے کہا۔

’’یہ بات ٹھیک ہے کہ ہم اس تعفن زدہ سماج کا حصہ ہیں جہاں کھل کر سانس لینا بھی مشکل ہے۔ لیکن یہ سب ایک طبقے کے مسائل ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جو طبقہ محنت کرکے کمانے کو ترجیح دیتا ہے، اس میں یہ مسائل نہیں ہوتے۔ شاید یہ سچ ہوں لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ طبقہ کوئی بھی ہو، کسی نہ کسی موڑ پر عورت کا استحصال ضرور ہوتا ہے۔ اگر عورت کماتی ہے تو اس میں بھی مرد کا مفاد ہے۔ کیا کمانے والی عورت مرد کی طرح گھر آ کر آرام کرتی ہے؟ بالکل بھی نہیں کیونکہ اسے گھر بھی سنبھالنا ہوتا ہے۔ گھر نہ سنبھالا تو پھر مرد کی حاکمیت جاگ جائے گی۔ تو پھر مان لیجیے طبقہ کوئی بھی ہو قربانی عورت کو ہی دینی پڑتی ہے۔ کہیں اپنے آرام کی، کہیں اپنے خوابوں کی، کہیں سر جھکا کر ہر بات پر سرِ تسلیم خم کرنے کی۔ جب جھکا سر اٹھتا ہے تو خسارہ عورت کے حصے میں ہی آتا ہے،‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’مطلب یہاں ہر کوئی کہیں نہ کہیں اپنا من مار کر ہی رنگ برنگی تصویر میں دکھائی دیتا ہے؟‘‘

’’جی بالکل! ہر تصویر اندر سے کھوکھلی اور بے جان ہے!‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

زہرا تنویر

زہرا تنویر

عرصہ دراز سے مختلف اخبارات میں لکھ رہی ہیں، انسانی رویوں اور سماجی مسائل پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔ فیس بک آئی ڈی xahrakhr جبکہ ٹوئٹر اکاؤنٹ xahratanveer@ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔