دماغ اغوا ہونے لگیں گے

سید بابر علی  اتوار 10 مارچ 2019
کچھ لوگوں کو اپنی اچھی یادداشت پر ناز ہوتا ہے، فوٹو: فائل

کچھ لوگوں کو اپنی اچھی یادداشت پر ناز ہوتا ہے، فوٹو: فائل

 یادداشت کا انسانی زندگی میں بہت عمل دخل ہے، اگر آپ کا ماضی خوب صورت یادوں سے مزین ہیں تو پھر آپ یقینا دنیا کے خوش قسمت ترین انسانوں میں سے ایک ہیں، لیکن اگر آپ ماضی ’ یاد ماضی عذاب ہے یا رب ’کی عملی تصویر ہے تو پھر آپ اسے بھلانے کی تگ و دو میں ہی مصروف رہتے ہیں۔

یادداشت سے جُڑی خوب صورت یادیں اور ناپسندیدہ تصورات اپنی جگہ لیکن ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ آپ اپنے ماضی کے خوب صورت لمحوں کو اسی طرح اسکرول کرسکیں جس طرح آپ انسٹاگرام پر اپنی زندگی کے خوب صورت لمحات کو تمام تر جزیات کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اب ذرا تصور کریں کہ انسٹاگرام کی طرح کوئی آپ کی خوب صورت یادوں کو ہائی جیک کرلے، اور تاوان ادا نہ کرنے پر انہیں مٹانے کی دھمکیاں دے۔ سننے میں یہ بات مبالغہ آمیزی لگتی ہے کہ کوئی آپ کے دماغ میں موجود خوب صورت یادوں کو کیسے تاوان کے لیے اغوا کرسکتا ہے، لیکن جلد ہی مبالغہ آمیزی لگنے والی یہ بات حقیقت کے روپ میں ڈھلنے والی ہے۔

نیوروٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی تیز رفتار ترقی نے ہمیں اس تصور کے قریب تر کردیا ہے کہ اب ہم نہ صرف اپنی دھندلی یادوں کو مزید واضح کرسکتے ہیں بلکہ انہیں اپنی انسٹاگرام پوسٹ کی طرح ڈی کوڈ، اپنی مرضی سے تبدیلیاں کرنے ساتھ ساتھ انہیں دوبارہ لکھ بھی سکتے ہیں۔

انسانی دماغ کے اس حیرت انگیز استعمال کے لیے صدیاں نہیں بس  چند دہائیاں درکار ہیں۔ انسانی دماغ میں اس طرح کی ڈیولپمنٹ کی تائید برین امپلانٹ سے بھی ہوتی ہے جو بہت تیزی سے نیورو سرجنز کا اہم ٹول بنتی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال رعشہ، آبسیسو کمپَلسِو ڈس آرڈر (ایک دماغی عارضہ جو ہر عمر کے افراد کو متاثر کرتا ہے، اس عارضے میں نہ چاہتے ہوئے بھی دماغ میں غیرضروری خیالات، واہمات ایک تسلسل کے ساتھ آتے ہیں) کے لیے بڑے پیمانے پر ڈیپ برین اسٹیمیولیشن (ایک نیورو سرجیکل طریقہ کار جس میں دماغ میں ایک طبی آلہ ’نیورواسٹیمیولیٹر‘ نصب کردیا جاتا ہے، جو دماغ کو برقی تحریک بھیجتا ہے) کیا جا رہا ہے۔

دماغی امراض کے ماہرین جلد ہی ڈیپ برین اسٹیمیولیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ذیابطیس اور موٹاپے کے علاج کے لیے بھی پُرامید ہیں۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں اس ٹیکنالوجی کو یاسیت، مالیخولیا، لقوہ اور دیگر نفسیاتی بیماریوں کے علاج میں استعمال کرنے کے لیے بھی بڑے پیمانے پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن محققین کسی حادثے کے نتیجے میں ختم ہوجانے والی یادداشت کی بحالی کے لیے بھی اس پر کام کر رہے ہیں۔ فوجی مقاصد کے لیے مصنوعی ذہانت اور دیگر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کو فوجی مقاصد میں استعمال کرنے کے منصوبے پر کام کرنے والی امریکی محکمۂ دفاع کی ایک ایجنسی ’ڈیفینس ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی‘ دماغی چوٹ کے نتیجے میں فوجیوں کی ختم ہونے والی یادداشت کی بحالی کے لیے ایک وائرلیس عصبی انٹرفیس (ایک ایسا پوائنٹ جہاں دو ایلیمنٹس ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام یا معلومات کا تبادلہ کرسکیں) تیار اور اس کا کام یاب تجربہ کرچکی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبے نَف فیلڈ برائے سرجیکل سائنسز کے محقق Laurie Pycroft کا کہنا ہے کہ ’کہ اگلے دس سالوں میں دماغ میں نصب کی جانے والی یادداشت کی تجارتی بنیادوں پر دست یابی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، کیوں کہ ہم اس ٹائم فریم کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی کام کر رہے ہیں۔ تاہم اگلے بیس سالوں میں یہ ٹیکنالوجی ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا اہل بناسکتی ہے کہ ہم اپنی یادداشت کی تعمیر، اسے بڑھانے اور واپس دماغ میں داخل کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ اور اس دہائی کے وسط تک ہم اپنی یادداشت میں ردوبدل کرنے کی صلاحیت پر بھی قابو پاسکتے ہیں۔‘

پائیکروفٹ کا کہنا ہے کہ دماغ پر مکمل کنٹرول حاصل کر نے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کا دماغ غلط ہاتھوں میں بھی جا سکتا ہے، دوسرے لفظوں میں آپ اسے ’برین جیکنگ‘ کا نام دے سکتے ہیں، تصور کریں کہ ایک ہیکر پارکنسن کے مریض کے نیورواسٹیمیولیٹر کو توڑتے ہوئے اس کی ترتیب میں بگاڑ پیدا کردیتا ہے۔ اس مریض کے پورے دماغ پر قابو پانے کے بعد وہ ہیکر اس کی سوچوں اور طرزعمل پر اثرانداز ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ وہ جب، جس وقت چاہے اپنے شکار کو عارضی طور پر مفلوج بھی کرسکتا ہے۔ کوئی بھی برین جیکرکسی بھی فرد کے دماغ پر قابو پاکر اس کی یادداشت کو اغوا کر کے تاوان کا مطالبہ کرسکتا ہے، تاوان کی عدم ادائیگی پر اس کی زندگی بھر کی یادداشت یکسر صاف یا اس میں کسی اور کی یادداشت لکھ سکتا ہے۔

یہ برین جیکنگ کے محض چند خاکے ہیں، اگر سائنس داں ہماری یادداشت کے عصبی سنگلز کو ڈی کوڈ (مرموز عبارت کو پڑھنا) کرنے میں کام یاب ہوگئے تو پھر اس طرح کے لامحدود واقعات ہوسکتے ہیں۔ ایسے غیرملکی انٹیلی جنس ہیکر کے بارے میں سوچیں جو واشنگٹن میں قائم فوجی اسپتال کے مریضوں کے دماغ پر قابو پا لے۔ پائیکروفٹ نے بتایا کہ 2012 میں کیلے فورنیا، برکلے اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریسرچرز نے ایک تجربہ کیا۔

اس تجربے میں انہوں نے ایک گروپ کو گیمنگ ہیڈ سیٹ پہنا کر ان کی دماغی لہروں (P-300)کا مشاہدہ کیا۔ اس مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی کہ مارکیٹ میں پہلے سے موجود ہیڈ سیٹ کی مدد سے دماغی لہروں پر قابو پاکر کسی بھی فرد کی نجی معلومات، اے ٹی ایم، کریڈٹ کارڈ اور ان کے پن نمبر تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ دماغ سے موصول ہونے والی ان معلومات کو انسانی ذہن کی بنیادی سوچ پڑھنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، اور برین جیکر دماغ پر مکمل قابو پا کر دماغی لہروں کی مدد سے مذکورہ فرد کے طرزعمل اور جذبات میں ردوبدل کرسکتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پیس میکر، انسولین پمپ جیسے امپلانٹ کی نسبت نیورولوجیکل امپلانٹ زیادہ پیچیدہ اور سائبر حملے کے لیے غیرمحفوظ ہے، کیو ں کہ پیس میکر اور انسولین پمپ کے برعکس اس کا تعلق مریض کی سوچ اور اس کے طرزعمل سے جڑا ہے، ہیکنگ کی اس خطرناک صورت حال میں کئی اخلاقی اور غیرقانونی مسائل بھی سامنے آسکتے ہیں۔

پائیکروفٹ کے علاوہ دیگر محققین کو بھی عصبی سگنل پر مکمل قابو پانے کی ٹیکنالوجی پر تحفظات ہیں۔ سائبر سیکیوریٹی کے لیے کام کرنے والی مشہور کمپنی Kaspersky Lab کی ریسرچر دیمتری گیلووکا اس بابت کچھ یوں کہنا ہے،’برین جیکنگ اور یادداشت میں نقصان دہ تبدیلیوں سے دنیا بھر میں سیکیوریٹی کے کئی مسائل درپیش ہو جائیں گے۔ اس ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے سیکیوریٹی کے ممکنہ خطرات کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کرنے کے لیے ہم (Kaspersky Lab) آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین کے ساتھ مل کر ایک پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔‘

گذشتہ سال اکتوبر میں کیسپر اسکائی لیب نے ’The Memory Market: Preparing for a future where cyberthreats target your past.‘ کے عنوان سے ایک تحقیقی رپورٹ شایع کی۔ اس رپورٹ کے مطابق اگر یادداشت پر ہونے والی موجودہ ترقی کو دیکھیں تو یہ اب بھی بہت سے لوگوں کی سوچ سے کہیں زیادہ جدید ہے، اس میں مریض کی حفاظت اور ضمانت کے درمیان واضح تناؤ ہے۔ اب یہ تصور بھی ناقابل یقین نہیں ہے کہ مستقبل کی آمر حکومتیں عوام کی یادداشت میں مداخلت کرکے تاریخ کو مسخ اور اپنی مرضی کی یادداشت داخل کردیں۔ اگر ہم اس ٹیکنالوجی کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر ہم لوگوں کے طرزعمل کو تبدیل کرنے کے اہل بھی ہوسکتے ہیں۔

اگر ان کا طرزعمل ہمارے لیے پسندیدہ نہیں ہے تو پھر ہم ان کے دماغ میں برے جذبات کو چنگاری دینے والے حصے کو تحریک دے کر انہیں روک سکتے ہیں۔ اسرائیل کے انسٹی ٹیوٹ ’فیوچر آف پرائیویسی فورم‘ کی ہیلتھ پالیسی فیلو کارسن مارٹینیز کا کہنا ہے ’یہ بات سوچنا بعیدازقیاس نہیں ہے کہ مستقبل میں یادداشت بڑھانے کے لیے برین امپلانٹ ایک حقیقت بن جائے گی۔ لیکن ! یادداشت میں ترمیم؟ یہ بات حقیقت کے بجائے ایک قیاس آرائی لگتی ہے۔ تاہم برین جیکنگ کے خطرات ناگزیر نہیں ہوسکتے، اہم بات یہ ہے کہ ہم اس خطرے کو سمجھتے ہوئے حقیقت پسندی سے اس سے تحفظ کے لیے کام کریں، کیوں کہ اس صورت میں مریضوں کا مکمل انحصار نیٹ ورک سے منسلک طبی آلات پر ہوگا۔

انسانی جسم و دماغ سے منسلک طبی آلات کی ہیکنگ کوئی نیا خطرہ نہیں ہے۔ 2017 میں امریکی حکام نے سائبر سیکیوریٹی حملے سے بچاؤ کے لیے غیرمحفوظ تصور کرتے ہوئے 4لاکھ65ہزار پیس میکر (دل کی ڈھرکن کو باقاعدہ رکھنے والی ڈیوائس) مارکیٹ سے واپس اٹھا لیے تھے۔ ایف ڈی اے (فوڈ ایند ڈرگ ایڈمنسٹریشن ) نے اس ڈیوائسز کو واپس اٹھانے کی وجہ یہ بیان کی تھی کہ کچھ بیمار ذہنیت کے لوگ ان پیس میکر میں تحریف کرتے ہوئے دل کی رفتار میں تبدیلی یا بیٹری ختم کرکے مریضوں کو موت سے ہم کنار کرسکتے ہیں۔

ایف ڈی اے کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی تک اس طرح کا معاملہ پیش نہیں آیا ہے لیکن جس طرح طبی آلات کو انٹرنیٹ کے ذریعے اسپتال کے نیٹ ورک، اسمارٹ فون، کمپیوٹر اور دیگر طبی ڈیوائسز سے جوڑا جا رہا ہے تو اس سے سائبرسیکیوریٹی میں تغیرپذیری کے خطرات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اور یہ خطرہ بہت سے طبی شعبوں کے ساتھ درپیش ہے اور مستقبل میں مزید طبی آلات کو مشینوں سے منسلک کرکے ریموٹلی مانیٹر کیا جائے گا اور ڈاکٹرز کو صرف نہایت ہی ہنگامی حالات میں بلایا جائے گا۔

مارٹینیز کا کہنا ہے کہ سائبرسیکیوریٹی کے ڈیزائن اور پلاننگ میں ابتدائی تبدیلی سے زیادہ تر خطرات میں کمی کی جاسکتی ہے۔ انکرپشن (رمز نگاری۔ ڈیٹا کی انکوڈنگ کرنے کا ایسا طریقہ جس سے غیر مستند رسائی روکی جاسکے) آئی ڈینڈیٹیٹی اینڈ ایکس مینجمنٹ، سیکیوریٹی پیچنگ (کمپیوٹر پروگرام یا اپ ڈیٹ، درستی اور بہتری کے لیے ڈیزائن کیا سپورٹنگ ڈیٹا ڈیزائن کا سیٹ) اور اپ ڈیٹنگ کے ذریعے ان طبی آلات کو زیادہ قابل بھروسا اور مریضوں پر ان کا اعتبار قائم رکھا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے اسپتال، کلینک کو بھی مریضوں کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے اپنی ڈیوائسز کو ہیکنگ سے بچا سکتے ہیں۔

انسانی نمائندگی طبی آلات کے غیرمحفوظ ہونے کے اہم اسباب میں سے ایک ہے، کیوں کہ اس وقت دنیا بھر میں ہونے والے امپلانٹ مصروف ہیلتھ کیئر ماحول میں ہو رہے ہیں، اور اسپتالوں میں کام کرنے والے افراد سائبرسیکیوریٹی کے ماہر نہیں ہیں۔ کیسپر لیب کی جانب سے کی گئی آن سائٹ تحقیق کے نتائج بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ مریض کی طرح اسپتالوں میں کام کرنے والا طبی عملہ اور ڈاکٹر حضرات بھی کلینیکل پروگرام کے لیے مضبوط پاس ورڈز نہیں رکھتے، طبی پروگرامز کے لیے پہلے سے انسٹال کیے گئے پروگرام کے ساتھ فراہم کیے گئے جدید آلات، آئی پیڈز، اسمارٹ فونز کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

آن لائن براوئزنگ، غیرضروری ایپلی کیشن انسٹال کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ یادداشت سنبھال کر رکھیں کہیں ’برین جیک‘ نہ ہوجائے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہیلتھ کیئر پروفیشنل بھی وہ ہی غلطی کرتے ہیں جو غلطی ایک عام استعمال کنندہ کرتا ہے۔ اس بات کا شعور اجاگر کرنا اشد ضروری ہے۔ تاہم بہت سے تیارکنندگان نے اپنی ڈیوائسز میں پہلے سے موجود طبی پروگرامز کے علاوہ تھرڈ پارٹی ایپلی کیشن کی انسٹالیشن پر روک لگا دی ہے۔ تاہم اسپتالوں کو یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ انسانی دماغ اور جسم کے امپلانٹ کے شعبے میں کام کرنے والے طبی عملے اور ڈاکٹر حضرات کو سائبر سیکیوریٹی کے حوالے سے بنیادی باتیں ضرور سکھائیں۔ ہم کسی بھی ڈاکٹر کو سائبر سیکیوریٹی ایکسپرٹ نہیں بنا سکتے۔ پائیکروفٹ کا کہنا ہے کہ برین امپلانٹ مستقبل میں زیادہ پیچیدہ، اور اسے آج کی نسبت بہت سی کنڈیشنز میں استعمال کیا جاسکے گا۔ اور ان عوامل کا ملاپ ہی اسے انسانوں میں نصب آلات کو ہیک کرنے کے خواہش مند ہیکرز کے لیے زیادہ آسان اور زیادہ پر کشش بنا دے گا۔ اس کے سدباب کے لیے ہم اگر امپلانٹ کی پہلی جنریشن میں ہی کوئی حل نہیں نکالتے تو پھر دوسری اور تیسر ی جنریشن بھی غیرمحفوظ رہے گی، لیکن امپلانٹ کے بہت زیادہ طاقت ور ہونے کا فائدہ حملہ آور کو ہی جائے گا۔

یادداشت کے بارے میں دل چسپ حقائق

ماہرِنفسیات انسانی یادداشت کی کم زوریوں سے بہ خوبی واقف ہیں لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ یادداشت کے دھوکا دے جانے کی صلاحیت کو اہمیت نہیں دیتے۔ اپنی زندگی کے ابتدائی برسوں کے بارے میں کچھ یاد رکھنا ناممکن ہے، لیکن کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ انھیں ایسی چیزیں یاد ہیں۔ اپنی آپ بیتی میں اسپین کے مشہور مصّور سیلواڈور ڈالی نے لکھا ہے کہ ’مجھے لگتا ہے کہ میرے قارئین کو اپنے پیدا ہونے سے پہلے ماں کی کوکھ میں گزرے ان کے زندگی کے اہم ایام کے بارے میں کچھ یاد نہیں ہو گا، یا شاید کچھ دھندلا دھندلا سا یاد ہو، لیکن مجھے یہ سب ایسے یاد ہے جیسے کل ہی کی بات ہو۔‘ انھیں توقع تھی ان کی اس ’آفاقی جنت‘ کی یادیں باقی لوگوں کو پیدائش سے پہلے کے گم شدہ لمحات کو یاد کرنے میں مدد دیں گی۔ حقیقت میں ڈالی کی یادیں ان کے گہرے تخیل کا نتیجہ ہیں۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ پیدائش سے پہلے اور پیدائش کے فوری بعد کے چند برس کے بارے میں کچھ بھی یاد رکھنا ناممکن ہے۔ یادداشت کے لیے درکار دماغ کا بنیادی ڈھانچا اس وقت مکمل طور پر بنا ہوا نہیں ہوتا جس کا مطلب ہے کہ ابتدائی عمر سے لے کر بچپن میں ہونے والے ذاتی واقعات کو یاد رکھنا جسمانی طور پر ناممکن ہے، بلکہ اُس وقت کی یادیں بعد میں اکٹھے کیے گئے تجربات اور معلومات کا مرکب ہوتی ہیں جو محض فریبِ نظر ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن کی ماہرِنفسیات اور کتاب ’دا میموری اِلوژن‘ کی مصنف جولیا شا اس عمل کی وضاحت کچھ اس طرح کرتی ہیں’ انسانی یادداشت واقعات کو یاد رکھنے کے لیے اردگرد کے حالات پر انحصار کرتی ہے۔ اس بات کو بہتر طریقے سے سمجھانے کے لیے ایک تجربہ کیا گیا جس کے شرکا کو یخ پانی سے بھری بالٹی میں ہاتھ ڈال کر فہرست سے الفاظ یاد کرنے کے لیے کہا گیا۔ کچھ ٹیسٹ کرنے کے بعد محققین کو معلوم ہوا کہ دوبارہ یخ پانی میں ہاتھ ڈالنے سے لوگوں کی یادداشت بہتر ہوگئی۔

ٹھنڈ یا شدید گرمی بھی آپ کی یادداشت پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ اس تحقیق سے پتا چلا کہ ابتدائی مراحل میں ریکارڈ ہونے والی یادیں بظاہر غیرمتعلقہ لگنے والے چھوٹے ماحولیاتی یا فعلیاتی اشاروں کی تجدید کر کے بہتر طرح سے یاد رکھی جاسکتی ہیں۔ اپنی کتاب ’دا میموری الوژن‘ میں شا نے اس جانب نشان دہی کی ہے کہ لوگوں کو اپنے فائدے کے لیے ان فعلیاتی اشاروں کا استعمال کرنا چاہیے، جیسا کہ اکثر لوگ پڑھائی کرتے وقت کافی پیتے ہیں یا چیونگم چباتے ہیں، یہی فعل امتحان کے وقت دہرانے سے ان کی یادداشت بہتر ہوسکتی ہے۔ خوش بُو بھی یادداشت بہتر بنانے میں خاصی تاثیر رکھتی ہے، اس لیے دوران امتحان پڑھائی کرتے وقت مخصوص پرفیوم لگانے سے دہرایا گیا سبق یاد آجاتا ہے ۔

کچھ لوگوں کو اپنی اچھی یادداشت پر ناز ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ ان کی یادداشت اوسط سے بہتر ہے جب کہ یہ شماریاتی طور پر ناممکن ہے۔ ہم ان وقتوں کو بھول جاتے ہیں جب ہماری یادداشت ہمارا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور ترجیحی طور پر ان وقتوں کو یاد کرتے ہیں جب یادداشت کام یاب ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ہمیں لگتا ہے کہ اگلی بار ہماری یادداشت ہمیں بالکل درست معلومات فراہم کرے گی۔ پولیس افسروں کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ کسی کیس میں ان کی یادداشت کی پختگی پر انحصار کرتے ہوئے مجرم کو سزا دے دی جائے اور بلکل یہی خوش فہمی ان طالب علموں کے لیے بھی خطرناک ہوسکتی ہے جنہیں یہ لگتا ہے کہ انہوں نے امتحان کے لیے بہت زیادہ تیاری کرلی ہے۔

یادداشت کے بارے میں خوش فہمی کا سبب ہمارے دماغ میں موجود ’پراسپیکٹِو میموری‘ ہے ، یادداشت کی یہ قسم ہمیں مستقبل میں چیزیں یاد رکھنے کی صلاحیت مہیا کرتی ہے۔ جولیاشا نے اپنی کتاب میں اس طرف نشان دہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’اگر آپ سے اپنے چہرے کو بیان کرنے یا اس کی تصویر بنانے کا کہا جائے تو آپ کو یہی لگے گا کہ آپ کو اپنی شکل کے بارے میں بہت کچھ یاد ہے، لیکن ایسا نہیں ہے ممکن ہے کہ آپ ڈیجیٹل بھلکڑپن کا شکار ہوں۔‘ یادداشت میں کمی کا اہم سبب جدید ٹیکنالوجی بھی ہے۔ شعوری طور پر یاد کرنے سے یادیں کمزور اور غیرمستحکم ہوجاتی ہیں اور ہمارا دماغ یہ یادیں توڑمروڑ دیتا ہے۔ نتیجتاً کسی واقعے کی ایک خاص تفصیل کے بارے میں سوچنے سے اس تفصیل کے بارے میں ہماری یادداشت تو پختہ ہوجاتی ہے مگر اس سے جڑی باقی تفصیلات ہم بھول جاتیں ہیں۔ اس کی واضح مثال سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہے، فیس بُک پر لگی کسی شادی کی کوئی مخصوص تصویر اگر آپ کو اپنی طرف مائل کرے تو ہم اُس دن سے جڑے باقی پہلو بھول جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔