فلم شروع ہوتے ہی ڈراپ سین

محمد عثمان جامعی  اتوار 10 مارچ 2019
مودی سرکار کی بھڑکیں اور بھارتی میڈیا کی غراہٹ ان فلموں ہی کی دین ہے۔ فوٹو: فائل

مودی سرکار کی بھڑکیں اور بھارتی میڈیا کی غراہٹ ان فلموں ہی کی دین ہے۔ فوٹو: فائل

یہ بولی وڈ دراصل ’’بھولی وڈ‘‘ ہے، یہ جب پاکستان کے خلاف کوئی فلم بناتا ہے تو اپنے بھولپن میں بھول جاتا ہے کہ نیپال یا بھوٹان نہیں، پاکستان کو موضوع اور نشانہ بنایا گیا ہے۔

چناں چہ ان فلموں کا ہیرو جو سُپرمین اور اسپائڈرمین کا بھی پتاجی ہوتا ہے، بڑے مزے سے آکر پاکستان میں جو چاہے کرجاتا ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا کہ بھارتی فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار ان فلموں سے مال اور فلم بینوں کو بے وقوف بناتے رہیں، اور بھارتی جنتا بڑی اسکرین پر یہ اجتماعی سپنے دیکھ کر خوش ہوتی رہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ بھارتیوں نے ان فلموں کو سیریس لے لیا ہے، محققین متوجہ ہوں، اس معاملے کو ’’بچوں پر فلموں کے اثرات‘‘ پر تحقیق کا موضوع بنایا جاسکتا ہے۔

مودی سرکار کی بھڑکیں اور بھارتی میڈیا کی غراہٹ ان فلموں ہی کی دین ہے۔ اپنی اس فلمی کیفیت میں یہ لوگ سمجھ نہیں پارہے کہ سنیما میں کچھ اور دکھایا جاتا ہے اور سیما کے پار کسی اور حقیقت کا سامنا ہوتا ہے۔ اگر اب بھی یقین نہ آئے تو اپنے ونگ کمانڈر ابھی نندن سے پوچھ لیں، جو پاکستان ہماری روٹیاں توڑ کر اپنے دیش سدھار چکے ہیں، یقیناً سُدھر بھی چکے ہوں گے۔

بھارتی پائلٹ ابھی نندن پیشے کے اعتبار سے ہواباز تو ہیں ہی غالباً اپنے ملک کی فلمیں دیکھ کر ہواؤں میں رہتے بھی ہیں۔ فلموں کے اثرات تو تھے ہی غضب یہ ہوا کہ انھوں نے ایک فلم میں کام بھی کرلیا۔ یہ تھی2017 میں ریلیز ہونے والی تامل فلم ’’Kaatru Veliyidai‘‘، جس کی کہانی ایک ایسے بھارتی پائلٹ کی زندگی پر مبنی تھی، جس کا طیارہ پاکستان کی حدود میں گر کر تباہ ہوجاتا ہے جس کے بعد اسے پاک فوج گرفتار کرکے راول پنڈی کی جیل میں قید رکھتی ہے۔

ابھی نندن نے اس فلم کے لیے بہ طور معاون خدمات انجام دی تھیں اور انھوں نے کاسٹ کو طیارہ اُڑانے اور دیگر متعلقہ اُمور کی تربیت دی تھی۔ ہمیں لگتا ہے کہ نندن جی نے اپنی ساری تربیت اس فلم کی کاسٹ کو دے دی اور خالی ڈھول بنے پاکستان میں بجنے آپہنچے۔ صاف ظاہر ہے کہ فلمی ماحول میں رہنے کی وجہ سے ابھی نندن پر فلموں کا کچھ زیادہ ہی اثر ہوگا۔ وہ سمجھے ہوں گے کہ فلموں کے ہیروز کی طرح اُڑتے ہوئے پوری شانتی سے پاکستان کی فضا میں پہنچیں گے، بم گرائیں گے اور طیارہ لہراتے مٹکاتے واپس اپنے دیش پہنچ جائیں گے، جہاں کترینہ کیف، پریانکا چوپڑا یا کرینہ کپور ان کی منتظر ہوگی، ان کے ساتھ مٹخ مٹخ کر گانا گائے گی اور فلم ختم ہوجائے گی۔

موصوف گھر پر کہہ کر نکلے ہوں گے ’’میرے کپڑے استری کردو، بس نوں گیا نوں آیا، پھر دونوں جَِنے بھیل پوری کھانے چلیں گے۔‘‘ بیگم نے پوچھا ہوگا،’’کہاں جارہے ہیں؟‘‘، جواب دیا ہوگا،’’پاکستان۔۔۔تمھارے لیے کیا لاؤں، چلو ملتان کا سوہن حلوہ، خان پور کے پیڑے، حیدرآباد کی چوڑیاں لے آؤں گا۔‘‘ مگر یہاں تو فلم گلے پڑگئی۔

پہلا سین ہی ڈراپ سین ہوگیا اور اسی ہدایت کار کی پچھلی فلم ’’اسٹریجیکل اسٹرائیک‘‘ کی طرح یہ فلم بھی فلاپ ہوگئی۔ ہدایت کار کو امید تھی کہ فلم کھڑکی توڑ رش لے گی، مگر نتیجہ ’’طیارہ توڑ‘‘ نکلا۔ فلم کا ہیرو دوڑ نکلنا چاہتا تھا لیکن وہ اتنا گِراپڑا تھا کہ بھاگ نہ پایا اور پکڑا گیا۔ یہ ہیرو بھاگ بھی سکتا تھا مگر ’’الجھا ہے پاؤں یار کا زُلف دراز میں‘‘ کے مصداق شاید موصوف اپنے مونچھِ دراز میں اُلجھ گئے۔

غالب کے محبوب نے اُن سے کہا تھا ۔۔۔نہ دیں گے ہم دل اگر گِرا پایا، لیکن وہ تھا غالب کا بیش قیمت دل، اور جو ہماری سرزمین پر آکے گرا وہ تھا ایک بُزدل، اس لیے واپس کرنا ہی تھا۔ یوں تو ہمارے ملک میں گِری ہوئی چیزوں کو اٹھایا نہیں جاتا، لیکن پڑوس کی کوئی چیز اپنے آنگن میں آگرے تو اٹھانی بھی ہوتی اور واپس بھی کرنا ہوتی ہے، اور پڑوس سے اگر کوئی لال دوپٹہ ململ کا یا وہ جُھمکا جو بریلی کے بازار میں گرا تھا آکے گِرتا تو رکھنے کا سوچتے بھی، گرا بھی تو پڑوسی کا بدبو دیتا میلا کچھا، کون رکھتا، سو واہگہ لے جاکر واپس کردیا اور کہہ دیا۔۔۔لو سنبھالو اپنا ابھی ’’گندن‘‘، پھر کبھی نہ گرانا، ایسی چیزیں پھینکنے کا شوق ہے تو کہیں اور پھینکو، ہمارا مشورہ ہے کہ:

اُٹھاکر پھینک دو باہر گلی میں

تمھاری فوج کے انڈے ہیں گندے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔