آزاد پاکستان

جاوید قاضی  اتوار 10 مارچ 2019
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

کل جو جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے وہ یوں لگتا ہے کہ ٹل گئے مگر نہ ہجر کا دن ڈھلا ہے نہ وصل کی رات آئی ہے۔ نفرتوں کے جو بیج بوئے ہیں وہ اور گہرے ہوگئے ہیں ،کانٹوں سے سجی سیج ہے کہ اسی راہ سے گزرتی ہے وہ امید امن ، خوشحال برصغیر جہاں پھر نہ کبھی غربت کے ڈیرے ہونگے ، فاقہ کشی کے بسیرے ہونگے ۔ افلاس اس کا مقدر ہوگی ۔ وہ نفرتوں کو گہرا کرتے رہیں گے اور ہم امن کی بات۔ نہ وہ اپنی ضد چھوڑیں گے نہ ہم اپنی روایات چھوڑیں گے ۔ کیا ہوگا پھر؟

ہمیں محب وطن نہیں کہا جائیگا ۔ نا کہئے ۔ کہئے کہئے مجھے برا کہئے۔ نہ تاریخ آپ کے ٹھپے کی محتاج ہے نہ محب وطن کہنے سے کوئی محب وطن ہوجاتا ہے۔ ہم جو آج ہیں جو بھی ہیں ، جہاں بھی ہیں یہ وہ ٹکرائو ہے تضاد ہے جو ہماری ترقی کی راہ روکے رکھتا ہے۔ اور ہم جو اپنے تن سے لگی غربت کے دلدل میں نہ تھے جتنے وہ تھے لیکن آج جو بھی انسانی ترقی کے پیمانے ہیں ، برصغیر میں سب سے پیچھے اس تناظر میں ہم ہیں۔ بنگلادیش کے زرمبادلہ کے ذخائر 34 ارب ڈالر کے گرد گھوم رہے ہیں ۔ ہندوستان کے 400 ارب ڈالر ہیں اور ہم جو قرضے لے کر اس کو بھر رہے ہیں مشکل سے پھر بھی 8 ارب ڈالر ہیں۔

حیرانی ہے وہ آج کل نفرتوں کے اس مقابلے میں ہم سے کہیں آگے ہیں۔ ان کے میڈیا نے پورے ہندوستان کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ گاندھی اگر ہوتے تو یہ دیکھ کر پھر روزہ (مرن بھرت) رکھ کر بیٹھ جاتے ۔ مگر ان کی معیشت اب بھی 6.5 کی شرح نمو سے بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف ہماری معیشت ہے کہ اس کے پٹھے بیٹھ گئے ہیں۔

ہم نے جنگ کے پھر تیور بدل دیئے ۔ کنوینشنل سے نان کنوینشنل جنگ کے ٹریک پر اتر آئے ۔ انھیں جو بھی پاکستان کی اندر ریاست کے خلاف لڑتا ہوا نظر آیا انھوں نے اس سے یاریاں بڑھا لیں اور ہم نے بھی پاکستان کی تاریخی وفاقی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے راہ فرار اختیار کی۔ ہم سمجھے کہ ہماری وفاقی حیثیت مصنوعی ہے، ہم نے مشرقی پاکستان سے برابری کے واسطے مغربی پاکستان کو ون یونٹ کردیا۔ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ آدھا بلوچستان تو ایران کے اندر ہے اور آدھا پختون خوا تو افغانستان میں ہے اور آدھا پنجاب ہندوستان میں۔

ہم نے بھی ان کو مصروف رکھا ۔ ہندوستان کی ٹانگ ٹوٹی ہم بہت خوش ہوئے ، کوئی بھی رسوائی نصیب ہوئی ہم نے تالیاں بجائیں۔ انھوں نے بھی یہی کام خوب سرانجام دیا۔ ہندو ہماری لیے نفرت زدہ چیز بن گیا اور وہ اپنے مسلمانوں پر ظلم ڈالتے رہے۔ یہ ہے دنیا کا نایاب خطہ برصغیر جو اب سب سے پیچھے رہ گیا ہے۔ ایسٹ ایشیا میں ASEAN کے نام پر معاشی تعاون سے خطے میں خوشحالی آرہی ہے ۔ امریکا میں NAFTA یورپ میں یورپی یونین ۔ عرب ممالک میں بھی معاشی تعاون کے حوالے سے ٹریٹی ہے ۔ جو ہماری سارک ہے وہ صرف نام کی ہے کام کی نہیں اس کی وجہ پاک و ہند کے درمیاں تنائو ہے۔

اور پھر برصغیر تاریخ میں ستر سال کی ان نفرتوں کی پگڈنڈیوں پے چلتے چلتے ہندوستان اس قوم پرستی سے یرغمال ہوا جس سے ہٹلر نے جرمنی کو یرغمال کیا تھا۔ مودی کا ہندوستان خود ہندوستان کے لیے خطرہ ہے جس طرح یہاں کے انتہا پرست اب پاکستان کے لیے خطرہ ہیں۔ اب ان کے خلاف کریک ڈائون ہے۔ جتنا بھی کشمیر کے اندر خودکش حملوں سے کام لیا جائے گا اتنے ہی کشمیر کی indigenous آزادی کی تحریکوں کو نقصان پہنچے گا، خود مودی کو جواز ملے گا ہندوستان کو یرغمال کرنے کے لیے۔ جو بھی اگر کہتا ہے وہ ہمارا ہے اور مسلح جدو جہد کا راستہ اپناتا ہے۔ وہ ہمارا بے وقوف دوست ہے ہمارے لیے مسئلہ پیدا کریگا۔

ہم مفروضوں ، مہم جوئی وغیرہ سے نہ یہ ملک چلا سکتے ہیں نہ خارجہ پالیسی اور نہ ہی نیشنل سیکیورٹی کے پیمانے بنا سکتے ہیں ۔ ہم نے ایک حوالے سے ہندوستان کو شکست دے دی ہے ۔ وہ نفرت سے آگ کا تودہ بن چکا ہے ۔ وہ خود یرغمال ہوچکا ہے اس بھنور میں پھنس چکا ہے جس سے ہمیں جنرل ضیاء الحق نے دو چار کیا تھا ۔ جس کی باقیات اب بھی ہیں ۔ شاید باقیات سے بھی زیادہ ۔ اگر اسی طرح ہم نے الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول میں رکھا تو پھر اس کی ساکھ خراب ہوگی۔ اور جو سوشل میڈیا ہے اس نے کام اور خراب کیا۔

اس ماحول کو ، اس سوچ کو بہت نچلی سطح پر لے آنا ہے ورنہ یہ جنگ کے بادل پھر سے لوٹ آئیں گے اور ہم اس معاشی حالات میں جنگ لڑ تو سکتے ہیں مگر اس کی قیمت چکانی پڑیگی۔ ایٹمی جنگ اگر چھڑ گئی تو پھر خود ہمارا وجود بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے ۔ ہم خود اندر بھی ایک بہت بڑے بحران سے گزر یں گے۔

یہ ملک نیشنل قیادت کا طلبگار ہے وہ قیادت جو ستر کی دہائی میں ہمارے پاس تھی۔ مگر سی آئی اے کو ایسے ممالک میں نیشنل لیڈر شپ نہیں چاہیے ہوتی ، انھوں نے ان کے خلاف فوج سے بغاوت کروائی۔ اور یہ بات چھپی نہیں ۔ کبھی کوئی سی آئی اے کے ڈاکیومینٹ پڑھ کے دیکھ لے جواب سب کے لیے کھول دیئے گئے ہیں۔

یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ برطانیہ کی کالونی سے امریکا کی نیو کالونی بننے کا سفر قرضوں اور امداد سے شروع ہوا تھا ۔ پہلے وہ حملہ کر کے قبضہ کر تے اور لوٹ کھسوٹ کرتے تھے۔ پھر وہ قرضہ اور امداد دے کے یہاں سے جمہوریتوں کو یرغمال کر کے اپنے پسندیدہ لوگوں کو بٹھاتے۔ اسے طرح وہ اس لیے کرنے میں کامیاب جاتے تھے کہ یہاں پر سیاسی ادارے مضبوط نہیں ہوتے تھے۔ 1947  سے لے کر 1958 کے ایوب کے مارشل لا تک جو باب رقم ہوئے ۔ وزیر اعظم در وزیر اعظم آئے اور گئے۔ نظریہ ضرورت آیا ۔1970تک جو مشرقی پاکستان میں محرومیاں آئیں ۔ سوویت یونین کے خلاف ہم نے اپنے اڈے امریکا کو دیئے ۔ دوسری طرف ہندوستان اپنے آپ کو سرد جنگ کے اس طوفان سے بچاتا آیا ۔ آئین دیا ، ادارے دیئے یہاں تک کے سپریم کورٹ آف انڈیا نے اپنے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو بھی واضع کیا۔ سیاسی ادارے ہونے چاہئیں لیکن جس طرح کی یہاں جمہوری پارٹیاں ہیں وہ پی ٹی آئی ہو ، پی پی پی ہو یا پی ایم ایل نون ہو اور جو ایوانوں میں پہنچتے ہیں ۔ یہ جو نظام ہے جس کے تحت الیکشن ہوتے ہیں جن میں شفافیت نہیں ہوتی اور سب سے بڑی بات جو دیہی پاکستان سے منتخب ہو کے آتے ہیں وہی ستر سال سے پرانے خاندان ہیں۔

ہم جس تیزی سے سی پیک کے نام پر قرضے لیتے گئے بین الاقوامی بانڈ مارکیٹ میں مہنگے سود کی شرح پر بانڈ کا اجرا کرتے گئے ، نتیجتاً آج ہمیں ڈالر میں قرضہ لینا پڑتا ہے ڈالر کا قرضہ اتارنے کے لیے۔

ہمارے لیے اس وقت صرف ون پوائنٹ ایجنڈا ہونا چاہیے ۔ وہ معاشی ترقی قرضوں کے بغیر ۔ پی آئی اے ، اسٹیل مل اور جو بھی سبسڈی پر ہیں یا خود سرکلر قرضہ ہے ، ٹیکس لینے والا ادارہ ہے ۔ ان سب میں انقلابی تبدیلی لانا ہوگی ۔ معیشت کو ڈاکیومینٹ کیجیے مگر تیزی سے نہیں۔

یہ انتہائی اچھی خبر ہے کہ پاکستان اور امریکا میں جو غلط فہمیاں تھیں وہ کم ہورہی ہیں اور ہم افغانستان کے حل کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان کامیاب مذاکرات کر وا رہے ہیں۔ اس خطے میں امن آنے کے حوالے سے امید یں بڑھ گئیں ہیں ۔ اس حقیقت سے ہندوستان بہت پریشان ہے کیوں کہ اس سے اس کا افغانستان میں اثر کم ہوگا۔

ہندوستان پاکستان میں جو خلیج ہے وہ دوست ممالک کم کروا سکتے ہیں ۔ اس خلیج کا فائدہ کوئی اور لے سکتا ہے ۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بین الاقوامی تعلقات میں کوئی کسی کا نہ مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی مستقل دشمن ۔ یہ مفادات ہوتے ہیں جو اولیت رکھتے ہیں اور اس کی ترجیع پر تعلقات قائم کیے جاتے ہیں ۔

یہ ملک شاد و آباد رہے گا، اس کو ایک سنجیدہ و مخلص قیادت چاہیے دونوں حزب اقتدار اور اختلاف میں ۔ اسے عاصمہ جہانگیر جیسی نڈر اختلاف رکھنی والی انسانی حقوق کی علمبردار چاہئیں۔ اسے مذہبی ہم آہنگی چاہیے ۔ کھل کے بحث کرنے کی اجازت ہو۔

آج پاکستان ہندوستان سے زیادہ مذہبی و فرقہ وارانہ بحران سے دور ہے ، ہندوستان دشمنی اب ہمارا ایجنڈا نہیں۔ ہم نے یہ بھی کمال کر دکھایا کہ آپ نے ہم پر جنگ مسلط کی اور ہم نے صرف اپنا دفاع کیا اور جنگ میں گھسنے سے اجتناب ۔ مگر ہمارے یہاں بھی لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ نفرتوں کا بازار گرم رہے۔

ہمیں ایسی سوچ کو شکست دینا ہوگی یہ وہی سوچ ہے جس نے پاکستان کو اس دہانے پے لا کھڑا کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔