’’پاس‘‘ نے ’’دور‘‘ کر دیا

سلیم خالق  اتوار 10 مارچ 2019
ہم کیوں بھارت کو اہمیت دیں، ہمارے اپنے ملک میں کرکٹ کا اتنا بڑا میلہ سج چکا ہے۔ فوٹو : ٹویٹر

ہم کیوں بھارت کو اہمیت دیں، ہمارے اپنے ملک میں کرکٹ کا اتنا بڑا میلہ سج چکا ہے۔ فوٹو : ٹویٹر

’’اتنے سال بعد کوئی کام کہا اور تم نے انکار کر دیا، کیا فائدہ ایسی دوستی کا‘‘ جب میں نے ایک دوست سے یہ طعنہ سنا تو اسے یہی جواب دیا کہ فائدے نقصان کا سوچ کر ہونے والی دوستی واقعی کسی کام کی نہیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں یہ قصہ آپ کو کیوں سنا رہا ہوں تو اس کی وجہ کرکٹ سے تعلق ہونا ہی ہے، جب کبھی پاکستان خصوصاً کراچی میں کوئی بڑا میچ ہو تو دوست احباب کو ایسا لگتا ہے کہ پی سی بی نے ایک انکلوژر میرے لیے مختص کر دیا اور مجھے مفت پاسز کی گڈیاں دی ہیں حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، البتہ کبھی کبھار کوئی2،4 ٹکٹ دے دیتا ہے جس سے سب کی ڈیمانڈ پوری نہیں ہو پاتی۔

یقین مانیے حال ہی میں مجھے بعض ایسے لوگوں کی بھی کالز موصول ہوئیں جنھوں نے گزشتہ برس پی ایس ایل فائنل کے موقع پرفون کیا تھا اور اب دوبارہ انھیں یاد آئی،خیر یہ سب تو چلتا رہتا ہے، پاسز کا دباؤ اپنی جگہ لیکن ملکی میدانوں کے دوبارہ آباد ہونے کی خوشی ان سب باتوں پر حاوی ہو جاتی ہے، اب تو نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں 8 میچز ہونے ہیں، شائقین کرکٹ کو میدان آ کر میچز دیکھنے کا پورا موقع ملے گا،لاہور کے دوست اس بار محروم رہ گئے امید ہے اگلے برس ان کی تشنگی دور ہو جائے گی۔

لاہور قلندرزاور اسلام آباد یونائیٹڈ کے میچ میں اسٹیڈیم مکمل بھر نہیں سکا، کئی اسٹینڈز خالی نظر آئے، البتہ دبئی اور ابوظبی کے تقریباً خالی اسٹیڈیمز میں میچز دیکھنے کے بعد یہ کراؤڈ بھی حوصلہ افزا لگا، شائقین میچ سے بھرپور لطف اندوز ہوتے دکھائی دیے، نعرے بازی بھی ہوئی، لاہور قلندرز کی ٹیم کوئی وکٹ لیتی تو ان کا گانا ’’قلندرز لاہور قلندرز‘‘ چلایا جاتا جس پر شائقین پْرجوش انداز میں تالیاں بجاتے، ایونٹ کاگانا ’’ چل جوش دکھا دے تو‘‘ بھی لوگوں کا جوش بڑھاتا رہا،’’دل دل پاکستان‘‘ گانے کے ساتھ شائقین بھی آواز ملاتے رہے۔

گزشتہ روز کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی پریکٹس بھی تھی،مجھے اپنے ویب شو’’کرکٹ کارنر‘‘ کیلیے چند پلیئرز کے انٹرویوز کرنے تھے لہذا دوپہر2 بجے ہی اسٹیڈیم آ گیا، راستے میں بعض مقامات پر سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے ٹریفک جام بھی تھا، کئی روڈز کنٹینرز لگا کر بند کر دیے گئے تھے، ویسے سمیع الحسن برنی کے ڈائریکٹر میڈیا بننے کا صحافیوں کو یہ فائدہ ہوا کہ اس بار پریس کلب اور کے ایچ اے گراؤنڈ سے 2شٹل بسیں چلا کر انھیں آرام سے اسٹیڈیم آنے کا موقع دیا گیا۔

چونکہ سمیع خود صحافی رہ چکے لہذا میڈیا کے مسائل سے اچھی طرح واقف ہیں،گزشتہ برس تو ایک صحافی کی پیدل چل چل کر حالت غیر ہو گئی تھی،البتہ رواں برس میڈیا کیلیے انتظامات بہتر ہیں،اسٹیڈیم میں سیکیورٹی بھی خاصی سخت تھی اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے، ہمیں دنیا پر ثابت کرنا ہے کہ فول پروف سیکیورٹی فراہم کر سکتے ہیں، بااحسن انداز میں مقابلے ہوئے تو غیرملکی ٹیموں کا اعتماد بھی بڑھے گا اور ایک دن آئے گا جب ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ مکمل طور پر بحال ہو جائے گی۔

مجھے آج زمبابوین ٹیسٹ اسٹار سکندر رضا کے انٹرویوکا بھی موقع ملا، وہ انتہائی ملنسار شخصیت کے مالک ہیں،گزشتہ برس ایک مشترکہ دوست نے ان سے متعارف کرایا، واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ رہا البتہ ملاقات آج پہلی بار ہوئی، اکیڈمی میں پریکٹس کے بعد کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کھلاڑی واپس جا رہے تھے،ان سے سلام دعا ہوئی، سرفراز احمدکو آسٹریلیا سے سیریز کیلیے آرام کرانے کا فیصلہ ان دنوں موضوع بحث بنا ہوا ہے اسی لیے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم مینجمنٹ انھیں پریس کانفرنس میں لے کر نہیں آئی۔

کوچ معین خان اور منیجر اعظم خان آئے اور انھوں نے اعتراف بھی کیا کہ کپتان کو کسی تنازع میں گھرنے سے بچانے کیلیے یہاں نہیں لایا گیا، کچھ دیر بعد کراچی کنگز کے نائب کپتان کولن انگرام کی بھی پریس کانفرنس ہوئی، نیشنل اسٹیڈیم کے دونوں میڈیا سینٹرز نئے بنائے گئے ہیں، ساتھ ہی پریس کانفرنس کی نئی جگہ بھی تیار ہوئی ہے،دبئی کا تو میڈیا باکس خالی خالی سا تھا یہاں دونوں میڈیا سینٹرز کھچا کھچ بھرے ہوئے نظر آئے، ان کے درمیان میں کمنٹری باکس ہے،وہاں جونٹی رہوڈز اور ڈینی موریسن سمیت رمیز راجہ اور بازید خان بھی دکھائی دیے۔

بھارتی کرکٹرز کی جانب سے آسٹریلیا سے ون ڈے میچ میں فوجی کیپس پہن کر کھیلنا بھی صحافیوں کے درمیان موضوع بحث بنا رہا، بعض یہ مشورے بھی دے رہے تھے کہ پی ایس ایل کے دوران پاکستانی کرکٹرز کو بھی کچھ ایسا ہی کرنا چاہیے لیکن مجھے پتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا کیونکہ ہم پاکستانی کھیل کو کھیل ہی سمجھتے ہیں اس میں سیاست نہیں لاتے، ویسے بھارت کو دوہری شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، ایک تو وہ اپنی سرزمین پر میچ ہار گئے دوسرے فوجی کیپس پہن کر ہارنے پر مذاق کا نشانہ بھی بن گئے۔

بھارت میں ان دنوں پاکستان مخالف ہوائیں چل رہی ہیں انہی کو دیکھ کر بھارتی کرکٹ بورڈ بھی وہی انداز اپنا رہا ہے، مجھے نیشنل اسٹیڈیم میں پی سی بی کے ایک آفیشل ملے ، ان سے پوچھا کہ کیا بھارتی بورڈ حکام نے فائنل دیکھنے کیلیے کراچی نہ آنے کی باضابطہ اطلاع دی تو انھوں نے بتایا کہ ’’ہمیں کوئی ای میل تو نہیں ملی لیکن اچھی طرح جانتے ہیں ایسے حالات میں وہ آتے بھی نہیں‘‘۔

خیر ہم کیوں بھارت کو اہمیت دیں، ہمارے اپنے ملک میں کرکٹ کا اتنا بڑا میلہ سج چکا ہے، اسٹیڈیم میں لوگ آرہے ہیں ساتھ ٹی وی پر بھی لاکھوں شائقین مقابلوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، نیشنل اسٹیڈیم میں مرد، خواتین، بچے، بوڑھے سب بڑی تعداد میں موجود تھے، کسی کو سیکیورٹی کا کوئی خوف نہیں اور میچ سے لطف اندوز ہوتے رہے، ہمیں دنیا کو یہی بتانا ہے کہ پاکستان میں اب حالات نارمل ہیں، چلیں اب مجھے بھی میچ سے لطف اندوز ہونے دیں، باقی باتیں پی ایس ایل ڈائری کے ذریعے آپ تک پہنچاتا رہوں گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔