خواتین کو مساوی حقوق دیئے بغیر ملکی ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا !!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 11 مارچ 2019
 شرکاء کا خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِ خیال

 شرکاء کا خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِ خیال

دنیا بھر میں 8 مارچ کو ’’خواتین کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے جس کا مقصد صنفی امتیاز کے خاتمے اور خواتین کے مساوی حقوق کے لئے کوششوں کی اہمیت اجاگر کرنا ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے سرکاری و نجی سطح پر مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے آگہی دی جاسکے۔

ادارہ ایکسپریس ہر سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پروگرام منعقد کرواتا ہے۔ اپنی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس سال بھی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں خواتین سیاسی و سماجی رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

بیگم آشفہ ریاض
(صوبائی وزیر برائے وویمن ڈویلپمنٹ پنجاب)

حکومت نے اپنے 100روزہ پلان میں خواتین کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کا آغاز کیا۔ حکومت نے چند ماہ کے اندر اندر ہی ہوم بیسڈ ورکرز کے حوالے سے بل پاس کیا جبکہ کھیت مزدوروں پر بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے تاکہ انہیں لیبر میں شامل کرکے لیبر قوانین کے تحت تحفظ دیا جائے اورانہیں سوشل سکیورٹی و دیگر سہولیات فراہم کی جائیں۔

قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان تھا۔ اس حوالے سے وویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں سٹیئرنگ کمیٹی بناکر محکمہ لیبر، تعلیم، صحت، زراعت، لائیو سٹاک و دیگر محکمے جہاں خواتین کام کر رہی ہیں، رابطہ قائم کیا گیاہے تاکہ باہمی تعاون سے خواتین کے مسائل حل کیے جاسکیں۔ خواتین کے مسائل دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی وویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ قائم ہونا چاہیے تھا مگر آزادی کے 60 برس بعدوویمن ڈیپارٹمنٹ بنایا گیا جسے ابھی بھی ذہنی طور پر تسلیم نہیں کیا جارہا اور حالت یہ ہے کہ خواتین کے مسائل میں بے حد اضافہ ہوچکا ہے۔

وویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے پالیسی سازی میں بہت زیادہ کام کیا ہے جبکہ بہت سارے اچھے قوانین بھی بنائے ہیں۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ سندھ اور خیبر پختونخوا میں شادی کے لیے لڑکی کی کم از کم عمر 18 سال کا قانون موجود ہے مگر پنجاب میں نہیں ہے۔ میں نے جب اس حوالے سے کام کرنے کی کوشش کی تو اس پر رضامندی کا اظہار نہیں کیا گیا۔ پنجاب میں لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر 16 برس ہے، شادی کے وقت نکاح نامے کے ساتھ ’’ب‘‘ فارم یا فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ منسلک کرنا لازمی ہے، کوشش کی جارہی ہے کہ عمر کی حد18 برس کر دی جائے، میں اس حوالے سے پرامید ہوں۔خواتین کے وراثتی حق کے حوالے سے قانون میں بہتری لائی جارہی ہے۔

افسوس ہے کہ جائیداد میں حصہ نہ لینے کے بارے میں خواتین سے پہلے ہی لکھوالیا جاتا ہے مگراب لڑکی کے نام جائیداد کا انتقال لازمی ہوگاجسے کچھ عرصہ تک بیچا نہیں جاسکے گا۔ اس قانون پر عملدرآمد بھی یقینی بنایا جائے گا۔ پالیسی سازی کے ساتھ ہم سروس فراہم کرنے کی طرف آرہے ہیں تاکہ خواتین کو قومی دھارے میں لایا جاسکے اور ان کی معاشی حالت بہتر بنائی جاسکے۔یہ باعث افسوس ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد صرف 24 سے 27 فیصد لڑکیاں ملازمت کرتی ہیں، اتنی کم تعداد کی وجہ ناسازگار ماحول ہے جس کے باعث وہ عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہیں۔ انہیں محفوظ رہائش گاہیں میسر نہیں ہوتی کہ وہ کسی دوردراز علاقے میں ملازمت کر سکیں۔ اس کے علاوہ شادی کے بعد خواتین کو بچے بھی سنبھالنا ہوتے ہیں جن کے ساتھ ملازمت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

گزشتہ حکومت نے پنجاب میں کروڑوں روپے خرچ کرکے 16 ورکنگ وویمن ہاسٹلز بنائے جن سے صرف 540 خواتین مستفید ہورہی ہیں، اگر بہتر منصوبہ بندی کی جاتی تو زیادہ خواتین کو فائدہ دیا جاسکتا تھا۔ خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے اس عالمی دن کے موقع پر ملکی تاریخ کی پہلی ویمن ہاسٹلز اتھارٹی قائم کی گئی ۔ یہ اتھارٹی تمام پرائیویٹ ہاسٹلز کو رجسٹرڈ کرکے ان کی درجہ بندی کرے گی، ان کے سٹاف کو تربیت بھی فراہم کی جائے گی، ایسا کرنے سے نہ صرف نئی عمارتیں بنانے کا خرچ بچے گا بلکہ حکومت کو مالی طور پر فائدہ بھی ہوگا۔

تمام رجسٹرڈ وویمن ہاسٹلز کا ڈیٹا ویب سائٹ پر موجود ہوگا اور کوئی بھی خاتون کسی بھی شہر میں اپنے لیے ہوسٹل بک کروا سکے گی، ان ہاسٹلز کے ساتھ ڈے کیئر سینٹرز بھی قائم کیے جائیں گے تاکہ شادی شدہ خواتین کے لیے آسانی پیدا کی جاسکے۔حکومت کے پاس جنس کے لحاظ سے ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ ہم اگلے مرحلے میں تعلیمی معیار پرخواتین کا ڈیٹا اکٹھا کریں گے کہ پرائمری، مڈل، میٹرک، انٹر میڈیٹ، بی اے، ماسٹرز، ایم فل، پی ایچ ڈی، ڈاکٹرز، انجینئرز، ٹیکنیکل ٹریننگ و دیگر علوم میں کتنی خواتین نے تعلیم حاصل کی ہے، اس کی روشنی میں ہم حکومت کو تجاویز دیں گے کہ کن علاقوں میں کس شعبے کی تعلیم یافتہ خواتین زیادہ ہیں لہٰذا وہاں اس قسم کے منصوبے شروع کیے جائیں۔مجھے یہ جان کر افسوس ہوا کہ اداروں کے فیصلہ ساز بورڈز میں خواتین کی نمائندگی صرف خانہ پوری ہے جس کے باعث مسائل حل نہیں ہورہے لہٰذا تمام اداروں کو بورڈز میں خواتین کی نمائندگی یقینی بنانے کیلئے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔

محکمے کے 113 ڈے کیئر سینٹرز ہیں مگر ان کی مانیٹرنگ کا کوئی میکانزم موجود نہیں تھا، اب ہر 6 ماہ بعد ڈے کیئر سینٹرز کاسروے کیا جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ ان کی حالت کیا ہے اور ان سے عوام کو فائدہ ہورہا ہے یا نہیں۔ مقامی حکومتوں کا نیا نظام لایا جارہا ہے۔میرے نزدیک لوکل باڈیز کے 11 نمائندوں میں سے 5 خواتین ہونی چاہئیں لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو کم از کم 3 خواتین ہونی چاہئیں۔ ایک بات سب کو سمجھنی چاہیے کہ حکومت اکیلے خواتین کے مسائل حل نہیں کرسکتی۔ اس کے لیے معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے معاشرتی رویے تبدیل کرنا ہوں گے اور اپنی سوچ کو درست سمت دینا ہوگی۔

آئمہ محمود
(جنرل سیکرٹری آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن)

خواتین کا عالمی دن منانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نہ صرف تمام طبقات کی خواتین کی کامیابیوں کا جشن منائیں بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ ابھی تک ہمیں کون سے چیلنجز درپیش ہیں اور پھر ان کے حل کیلئے کام کیا جائے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی مساوات کے حوالے سے جاری رپورٹ میں خواتین کی معاشی سرگرمیوں میں شمولیت کے لحاظ سے پاکستان 149 ممالک میں 146ویں نمبر پر ہے جبکہ صحت کے شعبے میں یہ نمبر 144 ہے۔ افسوس ہے کہ صنفی مساوات میں جنوبی ایشیاء میں پاکستان سب سے پیچھے ہے جبکہ بنگلہ دیش اور سری لنکا میں صورتحال ہم سے بہتر ہے۔

ملکی معیشت میں صرف 24 فیصد خواتین حصہ لے رہی ہیں جن میں صنعتی ورکرز کی تعداد 14 سے 18 فیصد ہے جبکہ باقی خواتین کا تعلق مختلف شعبوں سے ہے مگر بدقسمتی سے زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین اور گھریلو ملازمین کا ان اعداد و شمار میں کہیںذکر نہیں ہے، اس کا نقصان یہ ہے کہ پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں خواتین کو جو حصہ ملنا چاہیے،وہ نہیں مل رہا۔ کام کی جگہ پر خواتین کو درپیش مسائل کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد میں مسئلہ ہے۔ خاص طور پر فیکٹریوں میں بہت زیادہ بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ہراسمنٹ کی شکایت کرنا ہی خواتین کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے، اس حوالے سے لیبر ڈیپارٹمنٹ کے پاس بھی کوئی سٹرٹیجی نہیں ہے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کرنا ہے ۔

خواتین کے لیے ذرائع آمد و رفت، تنخواہ، صحت و دیگر سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو ان کی صورتحال بھی افسوسناک ہے لہٰذا اس طرف توجہ دی جائے۔ پاکستان میں ہیلتھ اینڈ سیفٹی کا علیحدہ قانون نہیں ہے بلکہ فیکٹری ایکٹ کے تحت ہی ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے مسائل دیکھے جاتے ہیں مگر اس کی مانیٹرنگ درست طریقے سے نہیں ہورہی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مختلف اداروں کے درمیان رابطہ نہیں ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں خواتین کی شمولیت میں اضافہ ہورہا ہے مگر ابھی بھی انہیں مردوں کے برابر تنخواہ نہ ملنے کا مسئلہ ہے۔ ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے لیبر منسٹری نے اعلان کیا ہے کہ اب ان پر کم از کم تنخواہ کا قانون لاگو ہوگا اور انہیں اتوار کی چھٹی بھی ملے گی مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کیلئے جو میکانزم درکار ہے ۔

اس کے حوالے سے کام سست روی کا شکار ہے۔ خواتین کی سیاسی شمولیت کی بات کریں تو اس میں جہاں 4 قدم پیش رفت ہوئی وہاں ہم 4 قدم پیچھے کی طرف بھی چلے ہیں۔ ہمیں موجودہ حکومت سے توقع تھی کہ جس طرح خواتین نے تحریک انصاف کی کامیابی کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اسی طرح انہیں زیادہ مواقع دیے جائیں گے مگر بدقسمتی سے تحریک انصاف کی وفاقی و صوبائی حکومتوں میں خواتین کی فیصلہ سازی میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب بھی اس حوالے سے حکومت سے رابطہ کیا جاتا ہے تو جواب آتا ہے کہ ہمیں وقت دیا جائے۔ میرے نزدیک خواتین کو کابینہ میں شامل کرنے کیلئے وقت نہیں ، وِل چاہیے تھی۔ وویمن ایمپاورمنٹ کے حوالے سے حکومت نے عالمی معاہدے کر رکھے ہیں۔

جن میں پائیدار ترقی کے اہداف، سیڈا کنونشن اور جی ایس پی پلس شامل ہیں۔ہم نے ان کے بارے میں دنیا کو جواب دینا ہے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ حکومت تعلیم، صحت، سیاسی شمولیت اور معاشی سرگرمیوں میں خواتین کے بھرپور کردار کو یقینی بنائے گی۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں سکوٹی وویمن فورس موجود ہے جو تعلیمی اداروں کے باہر اور مختلف بازاروں میں گشت کرتی ہے۔ اگر کسی خاتون کو ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہو تو وہ پولیس کو فون کرسکتی ہے ۔ اگر بھارت میں یہ ہوسکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں؟ یہاں ایک موبائل ایپلی کیشن بنائی گئی ہے مگر گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو اس تک رسائی نہیں ہے، ان کے پاس اینڈرائڈ موبائل نہیں یا پھر انہیں یہ ایپلی کیشن استعمال نہیں کرنی آتی لہٰذا بے شمار خواتین اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا پاتی لیکن اگر انہیں وویمن فورس نظر آئے گی تو وہ اس سے رابطہ کر سکتی ہیں۔

ہمیں اپنے کلچر، تعلیم اور وسائل کے حساب سے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ نیا بلدیاتی نظام لانے کی باتیں ہو رہی ہیں،ہمارا مطالبہ ہے کہ اس میں خواتین کو 50 فیصد نمائندگی دی جائے۔ سیاسی عمل میں مزدور خواتین کو شامل کرنے کی ضرورت ہے لیکن اگر مخصوص طبقہ ہی اسمبلیوں میں آئے گا تو مزدوروں کی آواز اسمبلیوں تک پہنچ نہیں سکے گی۔حکومت کو نئی تجاویزپر عمل کرنا چاہیے کیونکہ جب تک محنت کش خواتین کی حالت بہتر نہیں کریں گے تب تک ملک ترقی نہیں کرسکتا۔

بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی)

دنیا بھر میں خواتین نے اپنے حقوق کیلئے جو جدوجہد کی، اس میں پاکستانی خواتین کی جدوجہد ایک روشن مثال ہے۔ معاشرے کے جن مردوں نے خواتین کی اس جدوجہد میں ساتھ دیا ان کا کردار بھی قابل تحسین ہے۔ خواتین کے حقوق کی جدوجہد کا مطلب معاشرے میں انصاف، برابری اور مساوات کی جدوجہد ہے کیونکہ دنیا میں جہاں بھی خواتین کا استحصال ہوگا وہاں مسائل رہیں گے۔ اس کا نقصان صرف عورت کی جنسی یا سماجی حیثیت پر نہیں پڑتا بلکہ مردوں پر بھی پڑتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے جب برابری کے بجائے کسی ایک طبقے کو زیادہ اختیارات دے دیتے ہیں تو معاشرتی توازن خراب ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں خواتین نے اپنے حقوق کی جدوجہد میں بہت ساری کامیابیاں حاصل کی ہیں۔یہ کامیابیاں صرف سماجی تنظیموں کی جدوجہد سے ہی نہیں ملی بلکہ اسے قانونی حیثیت دینے میں خواتین اراکین اسمبلی نے اہم کردار ادا کیا۔انہی کی بدولت ہم  عام عورت کو حقوق دلوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ افسوس ہے کہ ملک میں 50 برس تک خواتین کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ 1961ء میں مسلم فیملی لاء پاس ہوا جس میں خواتین کی شادی، طلاق، وراثت و دیگر حقوق کے حوالے سے بات کی گئی تھی،اس کے بعد 2010ء میں خواتین کے مسائل کے حل کیلئے قانون سازی کی گئی اور بعدازاں ابھی تک بیشتر قوانین لائے گئے ہیں جو خوش آئند ہے، پارلیمنٹ میں موجود خواتین ان قوانین پر مبارکباد کی مستحق ہیں۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ ان قوانین کے نفاذ کے لیے جو میکانزم اور ادارے چاہیے تھے وہ بھی قائم کیے گئے۔ خاص کر پنجاب میں وویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ اور پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن جیسے ادارے بنائے گئے۔

ہراسمنٹ خواتین کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ 2010ء میں کام کی جگہ پر اور عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون سازی کی گئی جس سے قدرے ریلیف ملا۔ جنسی ہراسمنٹ کے حوالے سے خاتون محتسب بھی تعینات کی گئی جو بہترین اقدام تھا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد درست سمت میں جارہی ہے، اگرچہ ابھی مسائل زیادہ ہیں مگر ہم پر امید ہیں کہ بہتری آئے گی۔پاکستان میں خواتین کی سیاسی شمولیت کو آبادی کے تناسب سے بنایا جائے، خواتین کی 50 فیصد نمائندگی ہونی چاہیے مگر افسوس ہے کہ اس وقت یہ نمائندگی 13 سے 17 فیصد ہے۔خواتین کے لیے مخصوص نشستیں موجود ہیں جن پر انہوں نے ہر حال میں آنا ہے مگر سیاسی جماعتوں کے رویے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف 8 خواتین براہ راست الیکشن لڑ کر اسمبلی میں پہنچی ہیں۔

عام انتخابات 2018ء میں الیکشن قوانین کے تحت سیاسی جماعتیں خواتین کو 5 فیصد ٹکٹ دینے کی پابند تھیں،  پیپلز پارٹی نے 6 فیصد جبکہ مسلم لیگ (ن) نے 4.5 فیصد خواتین کو ٹکٹ دیے مگر یہ الگ بحث ہے کہ کن حلقوں میں یہ ٹکٹ دیے گئے اور انہیں کتنے وسائل فراہم کیے گئے۔ افسوس ہے کہ خواتین کے ساتھ زیادتی، قتل، تشدد اور کم عمری کی شادیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ آج بھی بہت سارے گھرانوں میں مائیں اس لیے نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں کہ بیٹا ہوگی یا بیٹی۔ معاشرے میں جنس کے حساب سے سوچ اور پالیسیاں بنائی جاتی ہیں کہ کس کو کتنے اختیارات اور آزادی دینی ہے۔ گزشتہ دنوں شیخوپورہ میں افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو صرف اس لیے قتل کردیا کہ اس کے ہاں دوسری بیٹی پیدا ہوئی۔ اس طرح کے واقعات نہ بھی ہوں تو بیٹی کی پیدائش پر ماتھے پر بل ضرور آجاتے ہیں۔ ریاست کو ایسی سوچ کا خاتمہ کرنے کیلئے کردار ادا کرنا چاہیے۔

خواتین کو تحریک انصاف سے بہت توقع تھی کیونکہ خواتین اور نوجوانوں نے شعوری طور پر جذبے کے ساتھ پی ٹی آئی کا ساتھ دیا لہٰذا ان کا احترام تحریک انصاف پر لازم ہے۔ تحریک انصاف کیلئے خواتین کی خدمات کا تقاضہ یہ تھا کہ انہیں زیادہ وزارتیں اور سٹینڈنگ کمیٹیوں کی سربراہی دی جاتی مگر ایسا نہیں ہوا، سوال یہ ہے کہ وویمن کاکس ابھی تک کیوں نہیں بنایا جاسکا؟پنجاب میں لڑکے اور لڑکی کی شادی کی عمر میں تفریق ہے۔کم عمری کی شادی اور گھریلو تشدد کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ گھریلو تشدد جسمانی چوٹوں سے بہت آگے کی بات ہے۔

افسوس ہے کہ گھروں میں نفساتی ٹارچر اور جنسی تشدد ہورہا ہے لہٰذا جب تک ان مسائل پر قابو نہیں پایا جائے گا تب تک خواتین کی ترقی کا خواب ادھورا رہے گا۔پائیدار ترقی کے اہداف میںصنفی مساوات کی بات کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں ملازمت پیشہ خواتین کو مردوں کی نسبت کم معاوضہ ملتا ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین کے مسائل انتہائی پیچیدہ ہیں۔ حکومت کو خواتین کی تعلیم، صحت اور روزگار پر خصوصی توجہ دینی چاہیے ۔پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ خواتین 30 مختلف اقسام کی سہولیات سے محروم ہیں، اس پر توجہ دی جائے۔

نبیلہ شاہین
(نمائندہ عورت فاؤنڈیشن)

گھر سے لے کر بڑے اداروں تک، ہمیں لوگوں کے رویوں میں تبدیلی نظر نہیںآتی۔ خواتین کو کوٹہ کے ذریعے ایمپاور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر جس ماحول میں عورت کام کر رہی ہے وہاں اسے مسائل درپیش ہیں۔ گھر سے ملازمت کی جگہ تک پہنچنا ایک چیلنج ہے، انہیں ٹرانسپورٹ و دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔افسوس ہے کہ ملازمت کی جگہ پر عورت کے ساتھ اس کے کام کے بجائے جنس کے لحاظ سے برتاؤ کیا جاتا ہے لہٰذا ہمیںرویے تبدیل کرنا ہوں گے۔سیاسی جماعتوں کی بات کی جائے تو الیکشن قوانین کے تحت خواتین کو ٹکٹ کا 5 فیصد کوٹہ تو مل گیا مگر کہاں ملا یہ الگ بحث ہے۔ 2014ء میں فیئر رپریزینٹیشن ایکٹ (Fair Representation Act)کے تحت 66 قوانین میں تبدیلی کی بات کی گئی تھی۔

اس حوالے سے مانیٹرنگ ضروری ہے کہ کتنے ایسے ادارے ہیں جہاں خواتین ان قوانین کے تحت فیصلہ سازی میں شامل ہوئی ہیں۔ ملک میں بہت سارے اچھے قوانین موجود ہیں۔ برائیڈل گفٹ اور جہیز کے حوالے سے بھی قانون سازی ہوئی ہے۔ قانون کے مطابق والدین ایک خاص رقم سے زیادہ کا جہیز نہیں دے سکتے اور اس کے بعد اگلے 6 ماہ تک کوئی گفٹ بھی نہیں دے سکتے،اگر دیا گیا تو اسے جہیز تصور کیا جائے گا۔ اس قانون کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دینی چاہیے۔ ماضی میں جب شادی کے کھانے پر پابندی لگائی گئی تو اس سے لوگوں کو بہت زیادہ فائدہ ہوا۔ میرے نزدیک اگر پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد کیا جائے اور لوگوں کو آگاہی دی جائے تو فائدہ ہوسکتا ہے۔ میری حکومت سے اپیل  ہے کہ جو قانون سازی موجود ہے۔

اس کا جائزہ لیا جائے اور جہاں ضرورت ہے ترمیم کرلی جائے۔ کریمینل جسٹس سسٹم کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ کیا عورت کو انصاف مل رہا ہے؟ انصاف لینے کے بعد وہ عورت معاشرے میں کس طرح زندگی بسر کرتی ہے؟دیہات میں اگر کوئی خاتون وراثت میں حصہ لیتی ہے تو وہ اپنے خاندان سے کٹ کر رہ جاتی ہے۔ اسے عمر بھر مختلف طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سوچ کے خاتمے کیلئے حکومت کو موثر کردار ادا کرنا ہوگا اور ایسا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا جس سے خواتین ایمپاور ہوسکیں۔ کام کے معاوضہ کے حوالے سے خواتین کو مسائل کا سامنا ہے۔

شعبہ زراعت میں کام کرنے والی خاتون کو کم پیسے دیے جاتے ہیں، خواتین دن رات کام کر رہی ہیں، وہ کام کے بعد گھر میں بھی کام کرتی ہیں، انہیں ٹرانسپورٹ کا بھی مسئلہ ہے، ان  کے پاس صحت کی سہولیات بھی نہیں ہیں جو افسوسناک ہے۔ صحت کی سہولیات دینے کیلئے حکومت کو ’’بی ایچ یوز‘‘ کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے کمیشن بھی بنایا گیا ہے لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ اس کی کارکردگی کیا ہے۔ کیا وہاں ادویات موجود ہیں؟ کیا ماں بچے کے لیے علیحدہ کمرے ہیں، کیا خواتین فرینڈلی ٹائلٹ موجود ہیں؟ حکومت کو مانیٹرنگ کا سسٹم بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ گھریلو تشدد کے حوالے سے قانون سازی کی گئی مگر اس پر عملدرآمد کروانے کیلئے رولز آف بزنس ابھی تک نہیں بن سکے۔

اس پر کام ہونا چاہیے۔ کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں مگر آج بھی خواتین شکایت کرتے ہوئے گھبراتی ہیں۔ بعض خواتین شواہد نہ پیش کر سکنے جبکہ بعض ملازمت کھونے کے ڈر سے شکایت نہیں کرتی۔ہمیں ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے قانون کو موثر بنانا ہوگا۔ ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ دارالامان میں خواتین کی بہت زیادہ تعداد موجود ہے۔ خاص کر مئی، جون اور جولائی میں اس تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ دارالامان کو بجٹ کے مسائل کا سامنا ہے لہٰذا ان کا بجٹ بڑھایا جائے۔ہماری آبادی کا 62 فیصد نوجوان ہیں۔ حکومت یوتھ پالیسی پر بہتر کام کر رہی ہے لہٰذا میں پر امید ہوں کہ ہماری حالت بہتر ہوگی۔ صنفی لحاظ سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کی روشنی میں لڑکیوں کے لیے پالیسیاں لائی جائیں۔سیاست میں خواتین کی شمولیت کی بات کریں تو 2001 ء اور 2005ء میں قانون سازی کے حوالے سے خواتین کو 33 فیصد نمائندگی دے دی گئی مگر 2013ء میں جو قانون آیا اس کے تحت 2015ء میں انتخابات ہوئے، اس میں خواتین کی براہ راست شمولیت نہیں ہوئی،ہم خواتین کی سیاسی شمولیت کو یقینی بناتے بناتے پیچھے چلے گئے ہیں، اب جو لوکل گورنمٹ ایکٹ آرہا ہے اس میں خواتین کی شمولیت 50 فیصد کی جائے، اگر ایک ووٹ سے دو نمائندے منتخب ہوں، تو ایک خاتون نمائندہ  لازمی قرار دیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔