پردہ! عقل پر

مسرور علی زیدی  منگل 12 مارچ 2019
جب لوگ برائی کو برائی نہ سمجھیں تو پھر پردہ کون کرے؟ ایسے افراد کی حقیقی زندگی پر پردہ ہو نہ ہو، لیکن عقل پر پردہ ضرور ہوتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جب لوگ برائی کو برائی نہ سمجھیں تو پھر پردہ کون کرے؟ ایسے افراد کی حقیقی زندگی پر پردہ ہو نہ ہو، لیکن عقل پر پردہ ضرور ہوتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پردہ کمال کی شے ہے۔ حال کی طرح ماضی میں کئی تہذیوں میں پردہ باعث تحریم سمجھا جاتا تھا۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ انسانی تاریخ میں پردہ عورتوں کی حفاظت کیلئے ایجاد کیا گیا لیکن آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ اس کا استعمال مرد حضرات نے بھی کیا اور آج بھی کئی معاشروں میں کرتے ہیں۔ جیسا کہ مغربی افریقہ میں رہنے والے فولانی قبائل جو بنجارے ہیں اور فلفلدے زبان بولتے ہیں۔ فولانی قبائل میں خواتین کی جگہ مرد حضرات پردہ کرتے ہیں جس میں وہ چہرے پر صرف اپنی آنکھیں کھلی چھوڑتے ہیں۔ اس طریقہ حجاب کو عربی میں ’’لیتہم‘‘ کہتے ہیں؛ افغانستان میں بھی ایسا ہی پردہ بعض مرد حضرات کرتے ہیں۔

یہ تو رہی بات اس پردے کی جو جسم پر کیا جاتا ہے۔ اب عقل کے پردے کی تاریخ ڈھونڈنے نکلیں گے تو خود گم ہوجائیں گے۔ اتنا سمجھ لیجیے کہ عقل جب سے ہے، تب سے اس کا پردہ ہے۔

پردہ کمال کی شے ہے۔ جسم پر ہو تو عزت اور عقل پر پڑ جائے تو ذلت کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ اگر یہی پردہ رہ جائے تو عزت بچ جاتی ہے اور اسی پردے کو اٹھا دیا جائے تو سمجھیے کہ کھیل ختم۔ اس کے عظیم مقام کا تعین ہر کوئی اپنی سمجھ کے مطابق کرتا ہے لیکن جس پردے سے سب کو نفرت ہے وہ ہے عقل کا پردہ۔ گنے چنے لوگ ہی اس سے بے نیاز بچے ہیں ورنہ تو بھیڑ چال میں لگے سب ہی اسے اوڑھے، مست زندگی گزار رہے ہیں۔ عقل پر پڑے پردے کی چند وجوہ ہوتی ہیں جیسے کہ عقل کے استعمال کو جرم سمجھنا، علم سے منہ موڑنا یا پھر جان بوجھ کر پردے کو عقل، آنکھوں اور دل پر اوڑھ لینا۔

انسانوں میں پردے کا استعمال بھی مختلف طریقوں سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ کوئی پردے کو گھر کے اندرونی معاملات چھپانے کیلئے لٹکاتا ہے تو کوئی دوسرے معاملات کو چھپانے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ کبھی گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق، کوئی پردے کو چاک کرنا پسند کرتا ہے تو کوئی پردہ نشین رہنے میں ہی عافیت جانتا ہے۔ خاص کر سیاست میں لوٹے کی طرح پردہ بھی بہت اہم ہے۔ سیاسی حالات کو عوام کی نظر پر پردہ ڈال کر قابو میں رکھنا سیاسی ہنر قرار دیا جاتا ہے اور ایسا بھی ہر ملک میں ہوتا ہے۔

پردے کے فوائد و نقصانات پر بات اگلی بار کریں گے۔ فی الحال اتنا سمجھ لیجیے کہ ہر کوئی زندگی میں کئی بار جانے انجانے میں پردے کا استعمال کرتا ہے۔ جیسے ہم نے بہت سے حالات کے اظہار پر پردہ رہنے دیا۔

عام زندگی کے برعکس سوشل میڈیا پر پردے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور ہر طرح کی بات کو سماجی رابطے کی سائٹ پر ڈالنا جیسے ٹرینڈ بن گیا ہے۔ بات تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گناہوں کو بھی پردے میں نہیں رکھا جاتا اور سرعام ان کی تشہیر کردی جاتی ہے جس کی وجہ اس کی ستائش ہے۔ جب لوگ برائی کو برائی نہ سمجھیں تو پھر پردہ کون کرے؟ ایسے افراد کی حقیقی زندگی پر پردہ ہو نہ ہو، لیکن عقل پر پردہ ضرور ہوتا ہے۔ کیا خیال ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مسرور علی زیدی

مسرور علی زیدی

بلاگر صحافی، استاد اور مصنف ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے سوشل میڈیا پر طالب علموں کی رہنمائی کررہے ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] یا فیس بُک آئی ڈی Fascinator.Captivator پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔