نیوکلیائی جنگ: جاپان میں ہوئی تباہ کاریاں بار بار پڑھیے

محمد احمد  جمعـء 15 مارچ 2019
لوگ اس بات سے ناآشنا ہیں کہ اگر نیوکلیائی جنگ ہوئی تو اس کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں؟ (فوٹو: فائل)

لوگ اس بات سے ناآشنا ہیں کہ اگر نیوکلیائی جنگ ہوئی تو اس کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں؟ (فوٹو: فائل)

ان دنوں پاکستان اور ہندوستان کی سرحدوں پر جنگ کے سائے ایک با ر پھرسے منڈلا رہے ہیں۔ دونوں ممالک جیسے ہی میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوتے ہیں، عالمی برادری کو فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ ہمسایہ ممالک کی جنگ روایتی ہتھیاروں سے نکل کر غیر روایتی ہتھیاروں تک نہ پہنچ جائے؛ کیونکہ عالمی برادری جانتی ہے کہ اگر، خاکم بدہن، ایسا ہوا تو نتائج پاکستان اور ہندوستان سمیت دنیا کے ہر ملک کو برداشت کرنا ہوں گے۔ یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے معصوم لوگ اس بات سے ناآشنا ہیں کہ اگر نیوکلیائی جنگ ہوئی تو اس کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں؟ اسی لیے بہت آسانی سے عوام نیوکلیائی جنگ کو موضوع بحث بنا لیتے ہیں، نہ صرف عوام بلکہ میڈیا بھی۔ انسانی تاریخ میں نیوکلیائی بم دوسری عالمی جنگ کےدوران جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر استعمال ہوا۔ اس کے اثرات کیا ہوئے؟ یہ آج کی تحریر کا موضوعِ بحث ہے، تاکہ ہم لفظ ’’نیوکلیائی‘‘ زبان پر لانے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔

6 اگست 1945 صبح 8 بج کر 15 منٹ پر جاپان کے شہر ہیروشیما پر سطحِ زمین سے 1900 فٹ بلندی پر ایک نیوکلیائی بم پھوڑا گیا۔ اس بم کا خفیہ نام ’’لٹل بوائے‘‘ (چھوٹا لڑکا) تھا۔ اگرچہ ممکن نہیں کہ کوئی غیر سرکاری یا جاپان کا حکومتی ادارہ مکمل اور حتمی اعداد و شمار سے بتاسکے کہ نیوکلیائی بم پھٹنے کے بعد کتنے لوگ لقمہ اجل بنے۔ مگر ایک اندازے کے مطابق بم پھٹنے کے فوراً بعد 70 ہزار لوگ ہلاک ہوگئے، جن میں زیادہ تعداد معصوم شہریوں کی تھی۔ اس کے علاوہ ایک لاکھ سے زائد لوگ شدید زخمی ہوئے، اور لوگوں کی ایک کثیر تعداد نیوکلیائی تابکاری کا شکار ہوئی۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: کیا پاک بھارت جنگ چھڑ جائے گی؟

نیوکلیائی تابکاری کے علاوہ، جانی نقصان کی ایک سب سے بڑی وجہ علاوہ یہ تھی کے نیوکلیائی بم پھٹنے کے بعد زمینی درجہ حرارت چار ہزار ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا۔ یہ درجہ حرارت قیامتِ صغرٰی کا عکاس تھا جس کے باعث نہ صرف لوگ جلے بلکہ شہر کی 70 فی صد سے زائد عمارتیں جل کر خاکستر ہوگئیں۔

اس واقعے کے تیسرے دن، 9 اگست 1945 صبح 11 بج کر 2 منٹ پر، دوسرا ایٹم بم جاپان کے ایک اور شہر ناگاسا کی پر گرایا گیا۔ اس کا خفیہ نام ’’فیٹ مین‘‘ (موٹا آدمی) تھا۔ اس بم کے پھٹنے کے بعد مزید 80 ہزار لوگ لقمہ اجل بنے؛ اور یوں صرف چند روز کے دوران ڈیڑھ لاکھ لوگ مارے گئے۔

بات اسی نقصان پر ختم نہیں ہوئی، بلکہ ان ایٹمی حملوں کے بعد ایک طویل مدت تک جاپان کے ان شہروں میں نہ تو صحت مند بچے پیدا ہوئے اور نہ ہی فصلیں اگ سکیں۔ اس واقعے کے بعد دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا، جب جاپان نے اتحادیوں کے ہمراہ اپنی شکست تسلیم کرلی۔

وزیراعظم جناب عمران خان بار بار ہندوستان کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنگ شروع کرنا تو آسان ہے، مگر پھر معلوم نہیں کہ بات کہاں جاکر رکے۔ جناب عمران خان نے قوم سے خطابات میں ایک بات مزید عرض کی، وہ یہ کہ اگر جنگ شروع ہوتی ہے تو معاملات ان کے اور ہندوستانی وزیراعظم کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ یعنی پھر معاملات ان طاقتوں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے جو کسی وزیراعظم کے زیر اثر نہیں ہوں گی۔

یہ بات سمجھنے کےلیے آپ دوسری عالمی جنگ کے تناظر میں بنی ہوئی فلمیں ’’ڈارکیسٹ آور‘‘ اور ’’چرچل‘‘ دیکھیے، جو مشہور برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کے کردار کو نمایاں کرتی ہیں۔ یہ فلمیں دیکھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ دوران جنگ چرچل جیسا قابل برطانوی وزیراعظم بھی اپنے فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں بے بس ہوجاتا ہے۔ کسی بھی میٹنگ میں اس کی حیثیت ایک ڈمی سے زیادہ نہیں ہوتی۔ برطانوی فوج کے جرنیل چرچل کی کسی بات کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ایک موقعے پر جرنیلوں نے چرچل کو جوانوں سے خطاب بھی نہیں کر نے دیا، یہ سوچ کر کہ کہیں چرچل کوئی ایسی بات نہ کردے جس سے جوانوں کا حوصلہ پست ہو۔

چرچل اور جرنیلوں کے مابین تناؤ اتنا شدید تھا کہ ایک فوجی افسر نے چرچل سے کہا، ’’جناب وزیراعظم! آپ لندن جائیے اور اپنا کام کیجیے، ریڈیو پر قوم سے خطاب کیجیے اور قوم کو حوصلہ دیجیے؛ اور ہمیں (یعنی فوج کو) اپنا کام کرنے دیجیے۔‘‘

امن کی پاکستانی خواہش کا جواب، ہندوستان لائن آف کنڑول پر گولہ بارود کے استعمال سے دے رہا ہے۔ یہ صورتِ حال اس بات کی عکاس ہے کہ ضروری نہیں جو ملک سیاسی اور معاشی اعتبار سے بڑا ہو، اس کا ظرف بھی بڑا ہو۔ بات ظرف کی چل نکلی ہے تو ایک بڑے ملک کی کم ظرفی بھی ملاحظہ ہو۔

مئی 2016 میں امریکی صدر بارک اوباما نے جاپان کے شہر ہیروشیما کا دورہ کیا۔ جی ہاں! وہی شہر جس پر امریکیوں نے ایٹم بم گرایا۔ اس دورے میں بارک اوباما کو ان لوگوں سے بھی ملنا تھا جو اس حملے کے متاثرین میں شامل تھے۔ ایک روز قبل صحافیوں نے بچ جانے والے لوگوں سے گپ شپ کی اور ان سے دریافت کیا کہ وہ امریکی صدر کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ چند لوگوں نے کہا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ کم از کم امریکی صدر معافی ہی مانگ لیں، اس میں حرج ہی کیا ہے؟‘‘ کسی نے کہا ہم امریکی صدر سے اس بات کی ضمانت لیں گے کہ جو قیامت ہم پر گزری، وہ کسی اور پر نہ گزرے۔ کسی نے کہا ہم امریکی صدر سے دریافت کرنا چاہیں گے کہ ہمارا قصور کیا تھا؟ اس موقع پر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی نظر بھی ایک ہی بات پر تھی، کیا بارک اوباما جاپانیوں سے معافی مانگیں گے؟ یہی سوال ایک صحافی نے ہیروشیما کے میئر (ناظم) کے سامنے رکھا، جس پر انہوں نے کہا، ’’اگر ہم معافی پر اصرار کریں گے تو آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ پہلے ہی 70 سال گزر گئے، ہمیں اس بات سے اب کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں اب دنیا کی بہتری کےلیے مل کر کام کرنا ہے۔‘‘ جب بارک اوباما ہیروشیما پہنچے اور خطاب کیا۔ اس خطاب میں سب کچھ تھا، سوائے معافی اور ندامت کے۔ کیونکہ غلطی تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگ لینا، اعلیٰ ظرف اقوام اور اشخاص کا شیوہ ہوتا ہے؛ اور اعلیٰ ظرفی سے امریکیوں کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ بالا کوٹ پر حملے کے بعد، ہندوستان کی اداکاری کا جواب پاکستان کی جانب سے بھرپور انداز میں دیا گیا۔ ہندوستان کو دراندازی کا جواب دینا اشد ضروری بھی تھا۔ اگر پاکستان ایسا نہ کرتا تو ہندوستان اس طرح کی حرکت بار بار کرتا، جو کسی پاکستانی کو قبول نہیں۔ پاکستان کے جوابی حملے کے بعد، پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے جس خو بصورتی سے تناؤ کی صورت حال کا مقابلہ کیا وہ یقیناً قابلِ ستائش امر ہے، جس کی تعریف نہ صرف پاکستانیوں نے کی، بلکہ دنیا بھر کے حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ نے بھی کی۔

امن کی اس خواہش کے باعث عالمی سطح پر پاکستان کی عزت میں اضافہ ہوا۔ پاکستانی وزیراعظم بار بار امن کا پیغام دے رہا ہے، لیکن دوسری طرف کا وزیراعظم طبلِ جنگ بجانا چاہتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کو ایک بات کا احساس نہیں، جس کا ذکر عمران خان بار بار کررہے ہیں، کہ جنگ اگر شروع ہوئی تو معلوم نہیں کہاں اور کیسے ختم ہو… اور یہ بات خطرناک حد تک درست ہے۔ کیونکہ دوسری جنگ عظیم بھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی، تو تھک کر امریکیوں نے جاپان پر ایٹم بم گرایا جس کے باعث جنگ ختم ہوئی، جاپان کو شکست ہوئی اور انسانیت ہار۔

مگر ہمارے ہاں صورتِ حال بہت مختلف ہے۔ اگر پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک فریق نے ایٹم بم گرانے میں پہل کی تو یہ ناممکن ہے کہ دوسرا فریق اس کے جواب میں ایٹم بم نہ گرائے۔ اور اگر ایسا ہوا تو تباہی صرف ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں تک محدود نہ رہے گی بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آئے گی، کیونکہ جو ایٹمی ہتھیار ہندوستان اور پاکستان کے پاس ہیں، ان کے مقابلے میں لٹل بوائے اور فیٹ مین جیسے ایٹم بم نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔

جاپان کی وزارتِ خارجہ نے 29 مئی 1998 کو ایک بیان دیا۔ یہ بیان اس وقت آیا جب 28 مئی 1998 کو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے۔ بیان میں ان دھماکوں کی مذمت کی گئی اور انسانی بنیادوں پر پاکستان سے اجتجاج بھی کیا گیا۔ بعد ازاں پاکستان نے ایک وفد جاپان بھیجا، جس نے جاپانی حکومت کو سمجھایا کہ یہ دھماکے پاکستان کےلیے کیوں ضروری تھے۔ پاکستان کا جاپان سے صرف ایک ہی سوال تھا: اگر امریکا کے علم میں ہوتا کہ ایٹم بم کے جواب میں جاپان بھی ایٹم بم استعمال کرسکتا ہے، تو کیا امریکا ایٹم بم گراتا؟

اور آج یہ بات عملی طور پر ثابت بھی ہوئی، کہ ہندوستان اور پاکستان صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو اس کی بڑی وجہ ایٹمی اسلحے کے استعمال کا ڈر ہے۔

بہرکیف، ایٹم بم کے استعمال کا سوچنے سے پہلے ہزاروں بار سوچیے اور جاپان میں ہوئی تباہی کو بار بار پڑھیے۔ اس حادثے کے شکار ہونے والے لوگوں میں سے کسی ایک کی تصویر ہی انٹرنیٹ پر دیکھ لیجیے، اور فیصلہ کیجیے کہ کیا ہمیں اپنی عام گفتگو میں بھی ایٹم بم کو موضوعِ بحث بنانا چاہیے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد احمد

محمد احمد

بلاگر الیکٹریکل انجینئر، محقق اور پی ایچ ڈی فیلو ہیں۔ اردو اور انگلش زبانوں میں محتلف موضوعات پر لکھنا ان کا مشغلہ ہے۔ آپ آج کل چین کے شہر شنگھائی میں مقیم ہیں۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر ان سے @ahmadsjtu کی آئی ڈی پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔