شرمناک

جاوید چوہدری  پير 5 اگست 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

برطانیہ کے ایک بادشاہ کو سیکڑوں سال قبل عجیب آئیڈیا آیا اور یہ آئیڈیا آگے چل کر دنیا کا سب سے زیادہ بولا جانے والا تیسرا لفظ بن گیا‘ وہ ملکہ کے ساتھ بیٹھ کر میوزک سن رہا تھا‘ آتش دان روشن تھے‘ کمرے کے اندر حدت تھی‘ غلام دس پندرہ منٹ بعد آتش دان میں صندل کی خشک ٹہنی ڈال دیتا تھا جس کے ساتھ ہی کمرہ صندل کی خوشبو سے مہک اٹھتا تھا‘ کھڑکیوں کے پردے کھلے تھے‘ بادشاہ اور ملکہ کھڑکیوں کے پار برف گرتے دیکھ رہے تھے۔

شاہی باغ کے درخت سفید برف کا غلاف اوڑھ چکے تھے‘ غلام چوبی فرش پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور ان کے قدموں کی چاپ موسیقی میں گھل کر ماحول کو مزید رنگین‘ مزید کیف انگیز بنا رہی تھی‘ سازندے مخصوص شاہی لے میں آلات موسیقی بجا رہے تھے‘ یہ لے بادشاہ نے خصوصی طور پر تیار کروائی تھی‘ اس میں عیش‘ عشرت اور رومانس کی ایک لمبی لے کے بعد اچانک تلواروں کی جھنکار‘ فوجی ڈھول کی تھپ تھپ اور توپوں کی چنگھاڑ سنائی دیتی تھی اور چند سیکنڈ بعد رومانس‘ عشرت اور عیش کی دھنیں واپس آ جاتی تھیں‘ یہ لے بادشاہ کے مزاج کی عکاس تھی‘ یہ سننے والے کو یاد کرواتی تھی‘ ان کے ظل الٰہی عام دنوں میں رومان پرور لیکن جنگی حالات میں سخت گیر ہیں۔

بادشاہ نے ملکہ کے چہرے کی طرف دیکھا‘ ملکہ کمرے کی گرمی‘ مشروب مغرب کی تلخی‘ موسیقی کی رومانویت اور بادشاہ سلامت کی نیت کی وجہ سے گلنار ہو رہی تھی‘ اس کے ماتھے پر ہلکا ہلکا پسینہ تھا‘ ہونٹ ہولے ہولے کپکپارہے تھے‘ ہاتھوں میں مسرت انگین لرزش تھی اور اس کے دل کے آخری لوپ پر ہلکی ہلکی گدگدی ہو رہی تھی‘ وہ چند سکینڈ بعد کرسی پر پہلو بدلتی تھی‘ بادشاہ سلامت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی تھی‘ ان کی آنکھوں میں تیرتے پیغام پڑھتی تھی اور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں کا نیلا پن گہرا ہو جاتا تھا‘ بادشاہ کو اس کی یہ ادا دنیا کی قیمتی ترین نعمت لگتی تھی اور وہ شوق کے اس مرحلے کو وصل کی بے لگام تند خواہشوں تک پھیلائے رکھتا تھا۔

بادشاہ ملکہ کی نیلی ہوتی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کے ذہن میں عجیب آئیڈیا آ گیا‘ بادشاہ نے سوچا برطانیہ میں ہزاروں لاکھوں گھر ہیں اور ہر گھر میں میاں بیوی بھی ہیں اور ان کے درمیان ’’تعلقات ‘‘بھی ہیں مگر یہ لوگ ان ازدواجی تعلقات میں بادشاہ کو شامل نہیں کرتے اور یہ ہماری بادشاہت کی توہین ہے‘ بادشاہ اپنی مسند سے اٹھا‘ غصے سے شاہی میز تک گیا‘ چاندی کی ہتھوڑی اٹھائی اور سونے کی پلیٹ پر دے ماری‘ یہ بادشاہ کی کال بیل تھی‘ برطانیہ کے شاہی محل میں بادشاہ کے دفتر‘ خواب گاہ‘ دربار اور کوریڈور میں صندل کے چوکھٹے میں سونے کی دو فٹ گول پلیٹ لٹک رہی ہوتی تھی‘ اس کے ساتھ چاندی کی چھوٹی سی ہتھوڑی ہوتی تھی‘ بادشاہ جب احکامات لکھوانے کے لیے اے ڈی سی کو بلانا چاہتا تھا یا وہ کسی غلام‘ کسی خادم کو کمرے میں طلب کرنا چاہتا تھا تو وہ چاندی کی ہتھوڑی سونے کی پلیٹ پر دے مارتا تھا اور یوں ٹن کی خوفناک آواز پورے محل میں گونج اٹھتی تھی اور اس آواز کے ساتھ ہی ایک ہزار دو سو نو ملازمین کے بدن میں سراسیمگی پھیل جاتی تھی‘ یہ سراسیمگی اس وقت بھی ملازمین میں پھیل گئی‘ اے ڈی سی بھاگتا ہوا بادشاہ کے میوزک روم میں پہنچ گیا‘ بادشاہ نے فرمایا ’’ جوڈیشل آرڈر لکھو‘‘ اے ڈی سی نے کاغذ نکال لیا۔

بادشاہ نے فرمایا ’’ آج سے ملک کا کوئی شخص بادشاہ کی تحریری اجازت کے بغیر ازدواجی تعلق قائم نہیں کر سکے گا‘ پوری رعایا پہلے تحریری اجازت لے گی‘‘ اے ڈی سی نے کن اکھیوں سے بادشاہ کی طرف دیکھا‘ سرجھکایا‘ آرڈر لکھا اور رائل لاء ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا‘ دنیا کی تاریخ میں اس آرڈر کے بعد دلچسپ واقعہ پیش آیا‘ برطانیہ میں ایک نیا ڈیپارٹمنٹ بن گیا اور پورے ملک میں اس ڈیپارٹمنٹ کی شاخیں کھول دی گئیں‘ اس قصبے یا شہر کے لوگ دفتر کے سامنے لائین بنا کر کھڑے ہو جاتے تھے‘ اپنا اور اپنی بیوی کا نام لکھواتے تھے اور تھوڑی سی فیس ادا کر کے دفتر سے ایک سر ٹیفکیٹ حاصل کرتے تھے‘ یہ ازدواجی تعلقات کا شاہی پروانہ ہوتا تھا‘ یہ لوگ یہ پروانہ اپنے گھر کے دروازے پر آویزاں کردیتے تھے‘ اس پروانے کا نام ’’فارنی کیشن انڈر دی کانسینٹ آف کنگ‘‘ تھا‘پروانے کے اس نام کا مخفف آگے چل کر ایک غلیظ گالی بن گیا‘ میں ان سطروں میں یہ گالی نہیں لکھ سکتا لیکن آپ کی سہولت کے لیے مخفف کے ابتدائی حروف الگ کر دیتا ہوں اور آپ یہ حروف جوڑ کر وہ لفظ (گالی) خود بنا لیجیے‘ آپ فارنی کیشن کا ’’ایف‘‘ انڈر کا ’’یو‘‘ کانسینٹ کا ’’سی‘‘ اور کنگ کا ’’ کے‘‘ الگ کر لیجیے اور یوں وہ لفظ بن جائے گا‘ جو دنیا میں اس وقت تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ بولا جانے والا لفظ ہے ‘یہ لفظ ہر امریکی شہری اوسطاً سو مرتبہ روزانہ بولتا ہے۔

دنیا میں سب سے زیادہ ’’ہیلو‘‘ بولا جاتا ہے‘ یہ لفظ چھ براعظموں میں ہر وہ شخص بولتا ہے جو فون استعمال کرتا ہے‘ آپ دنیا کے کسی ملک میں فون کریں‘ آپ کو دوسری طرف سے ہیلو کی آواز آئے گی‘ دنیا کے اکثر لسانی ماہرین کا خیال ہے ہیلو کا لفظ ہیل سے نکلا اور ہیل کا مطلب دوزخ ہوتا ہے‘ گراہم بیل نے1876ء میں ٹیلی فون ایجاد کیا‘ وہ ٹیسٹنگ کے مراحل کے دوران اپنے ایک دوست کو ٹیلی فون کیا کرتا تھا‘ دوست کو آواز نہیں آتی تھی تو وہ اس آلے کو ’’ہیل‘‘ قرار دیتا تھا‘ یہ ہیل آہستہ آہستہ ہیلو بن گیا اور یہ ہیلو آنے والے دنوں میں ٹیلی فون کے ساتھ چپک گیا‘ یہ ہیلو اب عام زندگی میں سلام بن چکا ہے‘ لوگ ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے وقت ہیلو بھی کہتے ہیں اور ہائے بھی‘ ہائے کے لفظ کا پس منظر بھی انتہائی فحش ہے‘ یہ پس منظر پھر کسی دن بیان کروں گا‘ دنیا میں ہیلو کے بعد سب سے زیادہ ’’شِٹ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے‘ شِٹ بھی غلیظ لفظ ہے مگر یہ لفظ اب امریکی ا ور یورپی دنیا سمیت تمام معاشروں کا حصہ بن چکا ہے ‘یہ مذہبی عبادت گاہوں سے لے کر عدالتوں تک میں استعمال ہوتا ہے‘ تیسرا بین الاقوامی لفظ وہ ہے جس نے بادشاہ کے ’’فارنی کیشن‘‘ سر ٹیفکیٹ سے جنم لیا تھا‘ چوتھا لفظ گاڈ ہے ‘ پانچواں جیسز (یسوع یعنی حضرت عیسیٰ ؑ) چھٹا لفظ او یا اوخ ہے اور ساتواں لفظ اوکے ہے اور سوری‘ تھینک یو اور ایکسکیوزمی جیسے لفظ ان کے بعد آتے ہیں جب کہ ان دس لفظوں کے بعد ایسی بیس غلیظ گالیاں ہیں جو لوگوں کے معمول کا حصہ ہیں اور یہ گالیاں اب کثرت استعمال کی وجہ سے سننے اور بولنے والے کو غلیظ محسوس نہیں ہوتیں۔

ہم اگر پاکستانی معاشرے کی لسانی روایات کا تجزیہ کریں تو ہمیں اس میں بھی دس مشترکہ لفظ ملتے ہیں‘ ان دس لفظوں میں دو ایسی گالیاں بھی شامل ہیں جو بہن اور ماں کے لفظوں سے شروع ہوتی ہیں اوریہ ہمارے معمول کا حصہ ہیں‘ ہم یہ گالیاں ایک سو دس مواقع پر استعمال کرتے ہیں اور ان موقعوں میں بچھڑے ہوئے دوست سے اچانک ملاقات‘ بچے کے امتحان میں کامیابی‘ عید کا چاند نظر آ جانا اور کرکٹ ٹیم کی جیت بھی شامل ہے جب کہ باقی آٹھ لفظوں میں یا اللہ‘ السلام و علیکم‘ ہور(اور)‘ بس کر‘ مہنگائی‘ جان دے (جانے دو) اوئے اور شرم جیسے الفاظ شامل ہیں‘ شرم کا لفظ ہمارے معمول کا اس قدر حصہ ہے کہ ہم گھر سے لے کر مسجد اور اسکول سے لے کر عدالت تک میں اس کا کھلا استعمال کرتے ہیں‘ ہمارے والدین اپنے بچوں کو سر عام بے شرم کہتے ہیں اور کوئی ان کی طرف چونک کر نہیں دیکھتا‘ شرم ناک کا لفظ بھی عام استعمال ہوتا ہے‘ ہمارا میڈیا‘ ہمارے علماء کرام ا ور ہمارے اساتذہ بھی یہ لفظ کھلم کھلا استعمال کرتے ہیں‘ عوام یہ لفظ اکثر اوقات اخبارات کی ہیڈ لائینز میں بھی پڑھتے ہیں‘ ہمارے لیڈر بھی یہ لفظ استعمال کرتے ہیں اور اینکر پرسن بھی‘ ملک میں مہنگائی تک کو شرم ناک کہا جاتا ہے‘ ہم اکثر اوقات وکلاء کو یہ لفظ عدالتوں میں بولتے اور پٹیشنز میں استعمال کرتے بھی دیکھتے ہیں‘ پچھلے پانچ برسوں کے دوران سپریم کورٹ کی مختلف سماعتوں میں بھی شرم ناک کا لفظ بولا گیا اور شاید کسی فیصلے کا حصہ بھی ہو‘ یہ لفظ اب ہماری روٹین کا حصہ بن چکا ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح شِٹ اور ہیل کے لفظ امریکی اور یورپی تہذیب کا حصہ ہیں۔

عمران خان نے شاید اس روزمرہ روٹین میں شرم ناک کا لفظ بول دیا مگر سپریم کورٹ نے اس پر سوموٹو نوٹس لے لیا‘ عمران خان کو 2 اگست کو سپریم کورٹ نے طلب کیا اور عمران خان نے کورٹ میں کھڑے ہو کر حیرت سے چیف جسٹس سے کہا ’’مجھے پہلی بار معلوم ہوا شرم ناک گالی ہے‘‘ عمران خان درست کہہ رہے ہیں‘ ہمارے ملک کے ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد لوگ اب شرم ناک کو گالی اور قابل تعزیز جرم نہیں سمجھتے ‘ یہ اب معمول کا لفظ ہے لیکن سپریم کورٹ نے اس کے باوجود نوٹس لے کر اچھا فیصلہ کیا‘ معزز جج حضرات کو چاہیے یہ اب اس لفظ پر پابندی بھی لگا دیں تا کہ ہماری زبان صاف ہو سکے اور سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ عوام‘ اینکر پرسنز‘ صحافی‘ وکلاء اور جج حضرات بھی یہ لفظ استعمال نہ کر سکیں‘ عدالت اگر تھوڑی سی مہربانی کرے تو یہ مزید ایسے دس بیس لفظوں پر پابندی لگا سکتی ہے جن کی وجہ سے یہ معاشرہ خراب ہو رہا ہے‘ چیف جسٹس کو اس معاملے میں آگے بڑھنا چاہیے‘ پوری قوم ان کا ساتھ دے گی کیونکہ قوم ان شرم ناک لفظوں کی وجہ سے بے شرم ہو رہی ہے اور یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔