خواتین کی آزادی …نظریہ اور عمل

علی احمد ڈھلوں  منگل 12 مارچ 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

بلا شک و شبہ عورت زندگی کا ایک خاص جزو ہے جس کے بغیر شاید کائنات ادھوری رہتی۔ عورت بیٹی، بہن، بیوی، ماں سبھی روپ میں ہمارے سماج کا حصہ ہے، اسے اتنی ہی عزت ملنی چاہیے جتنی مردوں کی ہے۔ جو اس کی عزت نہیں کرتا، وہ بھی عزت کے لائق نہیں ہونا چاہیے۔ گزشتہ جمعہ کو8مارچ (خواتین ڈے) تھا، ہر سال کی طرح ملکی و عالمی سطح پر تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور ’’عورت‘‘ کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ پاکستان میں بھی یہ دن منایا گیا۔پہلی بار نہایت منظم انداز میں مختلف شہروں میں مختلف تنظیموں اور این جی اوز کے زیراہتمام جلوس نکالے گئے، جسے خواتین مارچ کا نام دیا گیا۔

میڈیا میں تو زیادہ کچھ نہیں آیا، البتہ سوشل میڈیا پر اس مارچ کے حوالے سے تنقید سامنے آئی ہے۔چونکہ میں بذات خود ’’خواتین‘‘ کے حقوق کا سب سے بڑا حامی ہوں، میں تنگ ذہن بھی نہیںہوں، اس لیے میری بیوی، بہو، بہن اور بھابھی جاب بھی کرتی ہیں اور گھرداری کے امور بھی احسن طریقے سے انجام دے رہی ہیں، وہ ڈرائیونگ بھی کرتی ہیںاور وہ اپنے گھروں میں خود مختار بھی ہیں۔لیکن جو اُس دن کیا گیا، اس حوالے سے میرے پاس بھی زیادہ معلومات نہیں ہیں۔بہرحال اس موقع میں میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہمارے معاشرے میں اعتدال لازم ہے۔ ان لوگوں کے لیے بھی جو عورت کی آزادی کے مطلب کو ہی غلط رنگ میں پیش کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی جو عورت کی آزادی کا نعرہ بلند کرکے حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ پاکستان خواتین کی ترقی کے حوالے سے بدترین ممالک میں شمار ہوتا ہے، خواتین کے مساوی حقوق کے حوالے سے پاکستان کانمبر بھی 103واں ہے۔ پاکستان خواتین کو تعلیم دینے کے حوالے سے بھی بہت پیچھے ہے، یہاں محض 34فیصد خواتین پڑھنا لکھنا جانتی ہیں۔ محض 11فیصد خواتین گریجویشن تک پہنچتی ہیں اور محض 1فیصد خواتین پوسٹ گریجویٹ تک پہنچتی ہیں۔ یہاں جاب کرنے والی خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، 12کروڑ خواتین کی آبادی والے ملک میں میں محض 7فیصد خواتین نوکری پیشہ ہیں۔ جب اس قدر مسائل ہمارے درمیان حائل ہیں تو کیا ہمیں ان پر بات نہیں کرنی چاہیے؟ کیا ہمیں خواتین کی ایجوکیشن کی بات کرنی چاہیے؟ دنیا جانتی ہے کہ ابھی ہماری ذہنی حالت بہت خراب ہے، ابھی تو ہم ذہنی پسماندگی سے باہر نہیں آسکے۔ یہاں تو ابھی مرد مکمل آزاد نہیں ہے، یہاں تو ابھی مردوں کے حقوق پورے نہیں مل رہے۔ ایسی صورت میں عورت کیسے آزاد ہو سکتی؟ آپ حیران ہوں گے کہ ہمارے 30فیصد سے زائد ممبران اسمبلی تو قبروں کی کمائی کھاتے ہیں، وہ اپنے مریدین کو غلام سمجھتے ہیں۔ ابھی تو ہم اُن کے چنگل سے باہر نہیں نکل سکے۔

جن خواتین نے نام کمایا کیا وہ سب کے سامنے ہے۔  محترمہ فاطمہ جناح مادر ملت کہلائیں؟بے نظیر بھٹو، مارگریٹ تھیچراوراندراگاندھی اچھی حکمران کے ساتھ ساتھ مائیں بھی  ثابت ہوئیں۔ منیبہ مزاری، ملیحہ لودھی، شرمین عبید، کلثوم نواز، مریم نواز، مریم اورنگ زیب، شیری رحمن، شیری مزاری، ڈاکٹر یاسمین راشد، سبین محمود، تہمینہ درانی، حنا ربانی کھر، شازیہ مری، ماروی میمن، کشمالہ طارق، شرمیلا فاروقی، سمیرا ملک، فہمیدہ مرزا، انوشے رحمن،نصرت بھٹو، بیگم رعنا  لیاقت علی خان، بیگم وقارالنساء، بشریٰ گوہر، شہلا رضا، نسرین جلیل، بلقیس ایدھی، آمنہ بٹر، سسی پلیجو، تہمینہ دولتانہ،بیگم سلمیٰ تصدق حسین، مہناز رفیع ،بیگم عابدہ حسین، بانو قدسیہ، صہبا مشرف، صغریٰ امام اور فوزیہ وہاب جیسی نامور اور معتبر خواتین نے اسی سماج میں رہتے ہوئے اپنا نام بنایا؟ اگر آپ خواتین کو موجودہ حالات میں عزت بخشنا چاہتے ہیں تو چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کی مثال لے لیجیے جنہوں نے خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر پاکستانی سینیٹ میں نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے اپنی کرسی اقلیتی خاتون رکن کرشنا کماری کوہلی کو سونپ دی۔

ملالہ یوسف زئی کو دیکھیے جو خواتین کی تعلیم کا ایجنڈا پورا کرنے نکلی ہے۔ اور عزت بخشنی ہے تو یقینا اُن خواتین کو بخشیے جو کسی بھی قسم کا مطالبہ کیے بغیر منہ اندھیرے جاب کے لیے نکلتی اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتی اور اپنے بچوں کی بھی صحیح پرورش کرتی ہیں۔ حیرت تو اس وقت بھی ہوتی ہے کہ جب مغرب کی مثالیں دے کر عورت کی آزادی کی بات کی جاتی ہے۔میں ہر سال دو تین دفعہ امریکا جاتا ہوں، وہاں خواتین اپنے مردوں، بچوں اور بوڑھوں کی نہ صرف خدمت کرتی ہیں بلکہ ساتھ وہ جاب بھی کرتی ہیں۔ انھوں نے کبھی نہیں کہا کہ اپنے موزے خود ڈھونڈو… یا اپنا سالن خود گرم کرو۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ وہاں خواتین کی تعلیم 100فیصد ہے، اس لیے ہمیں سب سے پہلے ایجوکیشن مانگنی چاہیے، آزادی تو بعد کی باتیں ہیں۔

جب ایجوکیشن آتی ہے تو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ کپڑے کیسے پہننے ہیں اور اپنے آپ کو کس حد تک کنٹرول میں رکھنا ہے۔ ایجوکیشن ہمیشہ تہذیب سکھاتی اور انڈراسٹینڈنگ کو فروغ دیتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مانگا اُس سے جانا چاہیے جسے علم ہو کہ اُس نے دینا کیا ہے؟آپ کسی سے چیز مانگتے جا رہے ہیں مگر آپ کو علم ہی نہیں کہ آپ مانگ کیا رہے ہیں؟ اس میں اہم کردار یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں بچیوں کی تربیت کیسے کر رہے ہیں؟ کیا انھیں اس حوالے سے ایجوکیٹ کیا جاتا ہے کہ آزادی اور بے ہودگی میں فرق سمجھایا جائے؟ کیوں کہ تربیت اور ایجوکیشن اگر بہتر دی جائے تو یقینا آزادی خود ہی نصیب میں لکھ دی جائے گی۔ لہٰذاخدارا پوسٹرز سے تبدیلی آنے والی نہیں ہے اور نہ ہی آزادی ملنے والی ہے، خواتین کی آزادی کا مطلب معاشرے میں مساوی حقوق ہیں، ہمیں اُن پر بات کرنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔