عربی ادب کی تاریخ اور تخلیقات کے پانچ ادوار

خرم سہیل  پير 5 اگست 2013
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

لفظ ’’ادب‘‘عربی زبان کا حرف ہے اوراردو کی طرح عربی میں بھی نثر اورشاعری کے حوالے سے استعمال ہوتا ہے۔عربی ادب کی تاریخ کاکینوس دورِ جاہلیت سے موجودہ دور تک بہت وسیع ہے۔عربی ادب کی ابتدا پانچویں صدی میں ہوئی ۔اس کے کُل پانچ ادوار ہیں۔جاہلی دور،اموی دور،عباسی دور،اندلسی دور (فاطمی اورترکی ادوار بھی اسی دور میں شامل ہیں) اور جدید دور۔

رائج زبانوں میں سب سے پرانی زبان عربی ہے۔یہ تقریباً ساڑھے پندرہ سو برس سے گفت وشنید کی زبان ہے۔فارسی زبان کی عمرتقریباً گیارہ سوبرس ہے۔انگریزی زبان چھ سوبرس قدیم جب کہ اردو چارسو برس پرانی زبان ہے۔ اس لحاظ سے عربی سب سے قدیم زبان ثابت ہوتی ہے۔ قرآن مجید سے نزول اورآمد ِاسلام سے پہلے کے دور میں جتنا کام شعروادب میں ہوا،اسے دورِجاہلیت کہاجاتا ہے۔

یہ پہلادورپانچویں صدی عیسوی کے وسط میں شروع ہوا اوراس کااختتام 610ء میں ہوا۔اس دور کی سب سے مشہور تخلیقات سات طویل نظمیں ہیں۔جاہلی دور کے مقبول شعرا میں امراؤ القیس،طرفہ،زہیر ابن ابی سلمی،لبید،عمروبن کلثوم، حارث بن حلّزہ،عنترہ بن شدّاد اوردیگر کے نام شامل تھے۔ اس دور کا تذکرہ ظہوراسلام سے صرف ڈیڑھ سوبرس قبل ملتا ہے۔ اس سے پہلے کوئی آثار نہیں ملتے۔

عربی ادب کی تاریخ میں دوسرا دور’’اموی‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ دور اسلام کی آمد کے ساتھ شروع ہوا اور749میں عباسی حکومت کے قیام پر اس کا اختتام ہوا۔اس دور میں غزل کی شاعری کو مقبولیت ملی۔اس کے ساتھ سیاسی اورمناسباتی شاعری نے بھی فروغ پایا۔ عربی شاعری کی قدیم اصناف جن میں مدح، فخر، ہجو، مرثیہ،وصف اوردیگر شامل تھیں،ان میں بھی بہت عمدہ شاعری ہوئی۔اس دور کے شعرا میں جنہوں نے مقام ومرتبہ حاصل کیا،ان میںجمیل،عمر بن ابی ربیعہ، اخطل، فرزدق اور جریر تھے۔

اسی زمانے میں نثری تحریروں کا رواج بھی پانے لگااسی لیے کئی کاتبوں کی عمدہ تحریریں عربی ادب کی تاریخ کا حصہ بنیں۔ عربی ادب کاتیسرادور’’عباسی دور‘ ‘ کہلاتاہے ۔ اس دور کی ابتداعباسیوں کی حکومت سے ہوئی اور اس کا اختتام 1258ء میں تاتاریوں سے شکست پر ہوا۔اس دور میں بڑے شعرا میںبشاربن بُرد،ابوالعتاہیہ،ابونواس،ابن الرومی،ابن المعتز،بحتری،متنبی،اورابوالعلاء معری شامل ہیں۔ اس دور میں عربی ادب میں نثر نے انتہائی تیز رفتاری سے ترقی کی اورادب میں اس صنف کو بہت فروغ حاصل ہوا۔نثرکی صنف میں جن لکھاریوں کونمایاں کامیابی حاصل ہوئی ،ان میں ابوالمقفع،جاحظ،ابن العمید،صاحب ابن عبّاد،خوارزمی،بدیع الزماںہمدانی،حریری اورالقاضی الفاضل کی نام سرفہرست ہیں۔

اس دور کی ایک اورخاص بات یہ ہے کہ نحو، لغت، تاریخ، حدیث، حکایات اورمقامات جیسے ادبی وشرعی علوم میں بھی کافی کام ہوا۔عربی ادب کے چوتھادور تین شاخوں میں تقسیم ہے۔یہ اندلسی،فاطمی اورترکی دور کہلاتا ہے۔اندلس میں عربوں کی موجودگی کاعرصہ سات سوبرس تھا، اس میں عربی شاعری میں ایک نیانکھار دیکھنے کو ملتاہے۔اس دور میں جن شعرا نے نام پایا،ان میں ابن عبدربہ،ابن ہانی اندلسی،ابن زیدون، ابن خفاجہ اورلسان الدین الخطیب نمایاں تھے۔

اندلسی دور کے دو سو سال بعد اوراس کے متوازی پہلے فاطمی دور آیا،پھر ایوبی آئے،ان کے بعد ممالیک اور پھر ترکوں نے اسلامی مملکت کی باگ ڈور سنبھالی۔یہ دور پانچ سو برس پر پھیلاہو ا ہے مگر اس دور میں عربی ادب میں کوئی بہتر اضافہ نہیں ہوا۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس دور میں عربی ادب زوال کاشکارہوا۔عباسی دور کے مقابلے میں یہ دور عربی شاعری میںناکام ہوا لیکن دیگر اصناف میں اچھی تصانیف تخلیق کی گئیں،ان میں تاریخ نگاری،سیرت وسوانح،لغت نویسی شامل ہیں۔

عربی ادب کا پانچواں دور 1801ء سے شروع ہوتاہے اورموجودہ عہد تک آتاہے۔اس دور میں عربی ادب نے دوبارہ اپنی مقبولیت بحال کی اور تخلیق کے نت نئے زاویے کے ساتھ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کیا۔اس دور میں کچھ نئی اصناف بھی عربی ادب کاحصہ بنیں،مثال کے طور پر افسانہ ،ڈراما اورناول پہلی بار عربی ادب میں تخلیق ہوئے۔

یہ دور بھی اب تک دوسوسال کاہوچکا ہے۔اس عرصے میں شعرا اور ادباء کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے تاہم چند ایک نام ایسے ہیں ،جن کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ان شاعروں میں،احمد شوقی،حافظ ابراہیم،خلیل مطران جب کہ ادیبوں میں،طحہٰ حسین،احمدامین،احمد حسن الزیات،عباس محمودالعقاد،محمد حسین ہیکل،توفیق الحکیم،نجیب محفوظ اورطیب صالح کے نمایاں نام ہیں۔حالیہ شعری منظر نامے پرمحمود درویش،سمیح القاسم اورنزار قبانی کے نام بہت مقبول ہیں۔مصر کے نجیب محفوظ کو1988ء میں نوبیل ادبی انعام سے بھی نوازا گیا۔یہ واحد مسلمان مصنف ہیں،جنہوں نے ادب کا نوبیل انعام حاصل کیا اور ان کی شہرت پوری دنیا میں ہے۔

اردو زبان میں عربی ادب کے حوالے سے ’’محمد کاظم‘‘کی کتابیں بہت آگاہی دیتی ہیں۔ ’’انھوں نے عربی ادب کی تاریخ ‘‘اور’’عربی ادب کے مطالعے‘‘‘کے عنوان سے دو کتابیں لکھی ہیںان کو پڑھ کر عربی ادب کی تفاصیل جاننے میں مدد ملتی ہے۔عربی ادب کی تاریخ میں دورِ جہالت شاعری کی ابتدا کے حوالے سے محمد کاظم ایک جگہ لکھتے ہیں ’’گمان کیا جاتا ہے کہ عربوں کے ہاں پہلے ’’سجع‘‘کاروان پڑا،یعنی ایسے جملے بولنا جو ہم قافیہ ہوں اور سننے والے کے کانوں کو بھلے لگیں۔سجع سے ترقی کرکے وہ ’’رَجز‘‘کہنے لگے،جو ایسا موزوں کلام ہوتا ہے،جس کے مضمون اورصوتی زیروبم سے سننے والے کے اندر جوش خروش پیداہوتاتھا اور انسان جنگ کے میدان میں بہادری کے جوہر دکھاتاتھا ۔ رجز سے آگے بڑھے،تو عربوں نے باقاعدہ قصیدہ نظم کرنا شروع کیا اوراس طرح جاہلی شاعری وجود میں آئی۔مسجع کلام کاہن اور پروہت لوگ استعمال کرتے تھے۔اس سے وہ اپنے معبودوں کے حضور دعاکرتے تھے اور اس سے اپنے سامعین پر اثر ڈالتے تھے۔اس کے بعد جب عربوں کو گنگنانے اورگانے کا شوق ہوا اورشاعری عبادت گاہوں سے نکل کر کھلے صحرا میں آئی،تو اس سے رجز اورحُدی کاکام لیاجانے لگا۔رجز لڑنے والوں کو جوش دلانے کے لیے ہوتا تھا اورحُدی سواری کے اونٹوں کو تیز چلنے پر اکساتی تھی۔‘‘

عربی ادب میں کئی طرح کے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔ ابتدائی دور میں یہ بتوں کی پرستش اورقدیم رسم ورواج کی عکاسی کرتاہے۔بعد کے ادوار میں یہ جنگی، علمی، رومانوی، سیاسی اوردیگر رنگوں سے آشنا ہوتاہے۔عربی شعروادب کے کینوس پر کہیں خوشی اورمسرت کے رنگ بھی دکھائی دیتے ہیں اورکہیں یاس اوراذیت بھی اپنا چہرہ لیے اس میں جھلکتی ہے۔ عہدِ حاضر کے دور میں فلسطین کی حالت زار سے متعلق بھی کچھ ایسا ہی دکھ ہے،جس کا اظہار بارہا عربی شاعری میں ہوتا ہے۔

اس حوالے سے ایک عالم گیر شہرت کا حامل شاعر’’محمود درویش ‘‘اس حالت زار کا عینی شاہد تھا۔یہ اپنے ہی وطن میں جنگ کے ہاتھوں مہاجر بنا۔یہ جب فلسطین میں تھا،تو اس کی رہائش جلیلی میں تھی،پھر اسرائیل میں رہنے کے بعد یہ بیروت آگیا،یہاں سے پھر پیرس چلا آیا اورآخری سانس تک یہیں رہا۔اس نے لوٹس،لینن اورنائٹ آف دی آڈرآف آرٹس اینڈ لیٹرز (فرانس کا ثقافتی اعزاز)اعزازات حاصل کیے۔ درجنوں کتابیں لکھیں ۔شاعری اورنثر میں بے حساب کام کیا۔ بحیثیت شاعر اس کو بہت شہرت ملی۔یہ ہمارے شاعر احمد فراز کا ہم عصر اوراسی مزاج کا شاعر تھا۔دونوں کی تاریخ وفات میں بھی کچھ زیادہ عرصے کا فرق بھی نہیں ہے۔

عربی ادب میں ناول نگار کے طور پر ’’نجیب محفوظ‘‘سے جدید ادبی دنیا واقف ہے،جب کہ شاعری میں ’’محمود درویش ‘‘کے مصرعوں کو سننے والے پوری دنیا میں موجود ہیں۔اس کے علاوہ طحہٰ حسین جیسے بڑے لکھنے والوں کو بھی کوئی فراموش نہیں کرسکتا اور خلیل جبران بھی عربی ادب کا ایک لکھاری تھا اور اس کو پڑھنے والے دنیا بھر میں موجود ہیں اوراس کو چاہتے بھی ہیں۔ محمود درویش اپنی ایک نظم’’شناختی کارڈ‘‘میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کرتا ہے ۔

لکھو،کہ میں ایک عرب ہوں،اورمیرے کارڈ کانمبر پچاس ہزار ہے،میرے بچے آٹھ ہیں،اورنواں،اس گرما کے بعد آنے والا ہے،کیا تمہیں یہ بات اچھی نہیں لگی۔لکھو،میں ایک عرب ہوں،پتھروں کی ایک کان میں ،اپنے جفاکش ساتھیوں کے ساتھ محنت کرتاہوں،میرے بچے آٹھ ہیں،ان کے لیے میں چٹان تلے سے روٹی کھینچتا ہوں، اور کپڑے، کتابیں اورکاپیاں،میں در پر خیرات کا وسیلہ نہیں ڈھونڈتا،نہ تمہاری سرزنش کی دہلیز پر،اپنے آپ کو چھوٹاہونے کی دعوت دیتا ہوں،کیا تم کو میری یہ بات بہت بُری لگی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔