حکومت سیلابی ریلے کی وجوہات کا پتہ نہ چلا سکی

اسٹاف رپورٹر  منگل 6 اگست 2013
مہران ٹاؤن میں سیلابی پانی اترنے کے بعدایک شخص اپنی گاڑی کا جائزہ لے رہا ہے جبکہ ایک گاڑی الٹی پڑی ہے ۔ فوٹو : ایکسپریس

مہران ٹاؤن میں سیلابی پانی اترنے کے بعدایک شخص اپنی گاڑی کا جائزہ لے رہا ہے جبکہ ایک گاڑی الٹی پڑی ہے ۔ فوٹو : ایکسپریس

کراچی:  کراچی میں حالیہ بارش کے نتیجے میں سیلابی پانی سے اسکیم 33 کی رہائشی سوسائٹیاں، آبادیاں اور گوٹھ ڈوب گئے تاہم اب تک سرکاری ادارے اور حکام اس بات کا تعین کرنے میں ناکام ہیں کہ یہ پانی کیسے اور کیوں آیا اور اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔

افسوس اور حیرت کا عالم یہ ہے کہ ابھی تک یہ بھی طے نہیں ہوسکا ہے کہ یہ پانی کس سمت سے آیا ہے تاہم ایک بڑے حلقے کی یہ رائے ہے کہ اسکیم 33 میں پیدا ہونے والے بحران کی بڑی ذمے دار این ایچ اے ہے جس نے کچھ عرصے قبل کیرتھر اور گڈاپ کے علاقوں سے آنے والے پانی سے سپرہائی وے کو بچانے کے لیے اس کے نیچے 24 انچ ، 24 انچ کے نالے بنادیے تھے جن کے باعث نہ صرف پانی کی روانی میں خلل پڑا بلکہ اس کا راستہ تبدیل ہوگیا ماضی میں یہ پانی دادو سرے سنگ، کیرتھر کے قدرتی پہاڑی علاقوں سے شروع ہوکر سپرہائی وے ، اسکیم 33 ، گلستان جوہر ، شاہ فیصل کالونی سے ہوتا ہوا ملیر بند میں گرکر سمندر میں چلا جاتا تھا تاہم اب صورتحال مختلف ہوگئی ہے جس کے باعث یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت اور شہری ادارے اب تک یہ معلوم نہ کرسکے کہ برساتی پانی کس سمت سے آیا ہے، بلدیہ عظمیٰ کراچی کا موقف ہے کہ گڈاپ میں واقع تھڈو ڈیم میں شگاف پڑنے اور کیر تھر رینج سے برساتی پانی ریلے کی شکل میں سعدی ٹاؤن اور دیگر علاقوں میں تباہی مچاتے ہوئے داخل ہوا، ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کے ترجمان نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تھڈوڈیم میں شگاف نہیں پڑا ہے، تھڈو ڈیم محکمہ آب پاشی کے زیر کنٹرول ہے تاہم متعلقہ افسران نے اس ضمن میں مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں ہرسال مون سون سیزن میں اگست تا ستمبر موسلادھار بارشیں ہوتی ہیں اور شہر کے نشیبی علاقے اور دیگر مقامات پر 8 سے 10 گھنٹے تک پانی جمع رہنے کے بعد برساتی نالوں اور سیوریج سسٹم کے ذریعے نکل جاتا ہے تاہم کراچی کے مضافات میں قائم اسکیم 33 میں جو تباہی اس بار آئی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی امروہہ سوسائٹی اور دیگر مقامات پر فضائی سروے میں تاحد نظر پانی ہی پانی نظرآرہا تھا۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بارش کو 3 دن گزر چکے ہیں، تاہم حکومت، بلدیہ عظمیٰ اور ڈسٹرکٹ کونسل کراچی میں رابطے کے فقدان کے باعث اس بات کا تعین نہیں کیا جاسکا کہ یہ برساتی پانی کس سمت سے آیا تھا،ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کے ترجمان نے کہا کہ تھڈو ڈیم میں شگاف نہیں پڑا ہے البتہ ڈیم برساتی پانی سے پورا بھر کے اوور اسپل کرگیا تاہم یہ برساتی پانی قریبی بہنے والی ملیر ندی میں گرا ہے۔

سعدی ٹاؤن اور دیگر علاقوں میں برساتی پانی کیرتھر رینج سے آیا ہے،بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اعلیٰ حکام کا موقف ہے کہ مذکورہ علاقوں میں برساتی پانی ریلے کی شکل میں آیا ہے، سیلابی ریلا تھڈو ڈیم میں شگاف پڑنے یا ڈیم اووراسپل ہونے سے نہیں آیا،کیرتھر رینج سے آنے والا برساتی پانی ان علاقوں میں تباہی کا باعث بنا ہے،اتوار کو بعض حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ حب ڈیم کی کینال میں پڑنے والے شگاف کا پانی اسکیم 33 میں آیا ہے تاہم ابھی تک سرکاری ذرائع نے اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے کہ تھڈو ڈیم میں کہاں اور کتنا بڑا شگاف پڑا ہے اور شگاف بھرنے کے کیا انتظامات کیے گئے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔