پولیس کی وردی پھر تبدیل

مزمل سہروردی  بدھ 13 مارچ 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پنجاب پولیس کی وردی ایک مرتبہ پھر تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میرے لیے یہ فیصلہ کوئی حیرانی کا باعث نہیں ہے۔ تحریک انصاف شعوری طور پر یہ کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح گزشتہ حکومت کے ہر کام کی نفی کر دی جائے۔ اس میں اچھے اور برے کام کو کوئی تفریق حاصل نہیں ہے۔

بس یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ گزشتہ دور میں سب غلط ہوا ہے۔ اسی سوچ میں اچھے کام بھی ختم کیے جا رہے ہیں۔ تاہم پنجاب پولیس میں اصلاحات تحریک انصاف کا انتخابی نعرہ رہا ہے۔ ایک امید تھی کہ یہ حکومت اور کچھ کرے یا نہ کرے لیکن پنجاب پولیس میں اصلاحات ضرور کرے گی تا ہم اس ضمن میں اب تک کی کارکردگی بہت بری ہے۔

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ پنجاب پولیس کی وردی تبدیل کرنے کی اتنی جلدی کیا ہے۔ ابھی گزشتہ سال ہی تو پنجاب پولیس کی وردی تبدیل ہوئی ہے۔ ساری پولیس کو نئی وردی فراہم کی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ حکومت سے چڑ اور مخالفت میں ہر کام کی نفی میں وردی بھی تبدیلی کی جا رہی ہے۔ اگر یہ روش چل نکلی تو ہر نئی حکومت برسراقتدار آکر پولیس کی وردی تبدیل کر دے گی۔ یوں پولیس کی وردی ایک مذاق بن کررہ جائے گی۔ آج نیلے رنگ کی وردی لانے کی بات کی جارہی ہے۔کل نئی حکومت آئے گی تو وہ نیلے رنگ کی جگہ کوئی اور رنگ پسند کرسکتی ہے۔ تو کیا پولیس کی وردی پھر تبدیل ہوگی۔ اس طرح پولیس کی وردی حکمرانوں کی ذاتی مرضی کی محتاج بن کر رہ جائے گی۔

وردی کی تبدیلی کا ایک پہلو مالیاتی بھی ہے۔  ظاہر سی بات ہے ، اب نئی وردی کے کپڑے سے لے کر سلائی تک پیسے خرچ ہوں اور یہ سارا خرچ سرکاری خزانے سے ہوگا۔یہ سب ہم ٹیکس دینے والوں کی جیب سے جائے گا۔ اس وقت حکومت جس طرح بچت اور خرچے کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے میں بھاری رقم صرف پولیس کی وردی کی تبدیلی پر خرچ کر دینا کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں یقینا حقائق کو سامنے نہیں رکھا گیا ہے۔کیا تحریک انصاف کی حکومت جس نے برسراقتدار آکر سادگی کی مہم چلائی اور اس مہم کے تحت وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں تک بیچ دی گئیں وہاں پنجاب پولیس وردی کی تبدیلی پر بھاری اخراجات کیوں کیے جارہے ہیں۔

کیا پولیس کا نظام صرف وردی کی تبدیلی سے ٹھیک ہوجائے گا۔ اگر ایسا ہوتا تو شہباز شریف نے جو وردی تبدیل کی تھی تو ہماری پولیس ٹھیک ہوچکی ہوتی ۔ پولیس کو ٹھیک کرنے کے لیے حقیقی پولیس اصلاحات  لانی ہوں گی۔ اچھی تھی یا بری پولیس میں آئی ٹی شعبہ کی اصلاحات بھی گزشتہ حکومت میں ہو گئی تھیں۔  سوال ان اصلاحات کا ہے جن کا تحریک انصاف کی حکومت نے وعدہ کیا تھا۔ وہ کہاں ہیں؟

پولیس کو غیر سیاسی کرنے کے وعدہ وزیراعظم عمران خان نے کیا تھا، سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس کا کیا بنا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اس دور حکومت  میں سب سے زیادہ سیاسی تبادلے کیے گئے ہیں۔  جھوٹے مقدمات کی روک تھام کے لیے اصلاحات لانا انتہائی ضروری ہے ۔ لیکن افسوس ایسی اصلاحات کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں ہے۔ پولیس نظام ایسا ہونا چاہیے جس میں بے گناہ لوگوں کی گرفتاری روکی جا سکے۔ ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ پہلے جھوٹے مقدمات درج کروائے جا تے ہیں پھر ان جھوٹے مقدمات میںبے گناہوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔

جھوٹے مقدمات کی روک تھام کے لیے قانون میں تبدیلی درکار ہے۔ تا ہم بے گناہوں کی گرفتاریوں کو روکنے کے لیے تو قانون میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ قانون میں پہلے ہی لکھا ہوا ہے کہ جب تک تفتیشی افسر کے پاس کسی کے خلاف ٹھوس ثبوت نہ ہوں تب تک اسے گرفتار نہ کیا جائے۔ لیکن پولیس میں ایک کلچر ہے کہ بس پرچہ درج ہو گیا ہے تو فوری گرفتار کیا جائے۔ اگر پولیس کے افسران اپنے ماتحت تفتیشی افسران پر واضح کر دیں کہ اگر بغیر ثبوت کسی کو گرفتار نہیں کیا جائے گا، تو یقین مانیں پولیس ہی تبدیل ہو جائے گی۔

عدالتوں پر سے ضمانتوں کا غیر ضروری بوجھ ختم ہو جائے گا۔ ابھی تو صورتحال یہ ہے کہ جب تک کوئی ضمانت نہ کرا لے پولیس اس کو شامل تفتیش بھی نہیں کرتی۔ حالانکہ قانون پولیس کو بغیر ضمانت کے ملزم کو شامل تفتیش کرنے کا اختیا ر دیتی ہے۔ تمام مہذب ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہاں ملزمان کو پولیس افسران عدالت سے ضمانت کے بغیر ہی شامل تفتیش کرتے ہیں۔گرفتاری کے لامحدود اختیارات پر قد غن لگانے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح ناقص تفتیش کو روکنے کے لیے کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔ پولیس کو اپنے اندر احتساب کے عمل کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ روزانہ ہزاروں مقدمات میں ناقص تفتیش کے معاملات افسران کے سامنے آتے ہیں۔ لیکن ان پر کوئی ایکشن نہیں لیاجاتا۔ اگر ناقص تفتیش پر خلاف قانونی کارورائی کا رواج شروع ہوجائے تو حالات بہت بہتر ہوجائیں گے۔

پولیس کو دیوانی معاملات سے دور رکھنے کے لیے بھی کسی قانون سازی کی ضروت نہیں ہے۔ تمام قوانین موجود ہیں۔ صرف ان پر عمل کی ضرورت ہے۔ روزانہ تھانوں میں طاقتوروں کی سفارش پر دیوانی معاملات کو فوجداری بنایا جاتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے  وردی کی تبدیلی کی ضرورت اور نہ ہی قانون سازی کی۔ اس کے لیے مضبوط ارادے کی ضرورت ہے۔ یہی تحریک انصاف کے وعدے تھے جن پر عمل نہیں کیا جا رہا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔