آئینہ چینی اور خاتون چینی

سعد اللہ جان برق  بدھ 13 مارچ 2019
barq@email.com

[email protected]

یہ اہل چین بھی عجیب سی بے چین قوم ہے۔ نام ہے چینی اور کام ہے ’’بے چینی‘‘ کہ کبھی نچلے تو بیٹھ نہیں  سکتے، کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں بلکہ ’’بناتے‘‘ رہتے ہیں۔ یہ جو دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا، سب سے بڑا منافق، سب سے بڑا چغل خور ’’آئینہ‘‘ ہے یہ بھی ان ہی بے ’’چینیوں‘‘ کی ایجاد ہے جو جھوٹ بولنے میں کسی سیاسی لیڈر بلکہ اس کے ’’چمچوں‘‘ سے بھی زیادہ تیز ہے۔

اور مزے کی بات یہ ہے کہ اتنا ہی سچا ہے بھی ہے جتنا جھوٹاہے۔ وہی بات ہے نہ کہ کوئی اگر اس سے جھوٹ چاہے تو اسے جھوٹ بولتاہے اور اگر سچ سننا چاہے  جو کوئی بھی سننا نہیں چاہتاہے۔اس لیے سچ کی جگہ بھی جھوٹ ہی بول دیتاہے۔ رحمان بابا نے تو کہاہے کہ:

وہرچاتہ پہ خپل شکل سرگندیگم

آئینے غوندے بے رویا بے ریا یم

یعنی میں آئینے کی طرح’’بے رو اور بے ریا‘‘ ہوں اور ہرکسی کو اپنی اپنی شکل دکھاتاہوں۔ بات گھوم گھام پر وہیں آتی ہے کہ آئینہ وہی دکھاتاہے جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں اگر آئینہ ’’ٹو ان ون‘‘ یعنی بیک وقت ’’جھوٹا اور سچا‘‘ نہ ہوتا تو دنیا میں کم سے کم اسی فیصد لوگ آئینہ کبھی نہ دیکھتے بلکہ اپنی شکل دیکھ کر آئینے ہی توڑ ڈالتے کہ کتنی منحوس شکل ہے اس کی۔

وہ قصہ تو آپ نے سنا ہو گا کہ ایک بچے نے گھر کے مٹکے میں جب اپنی شکل دیکھی تو باپ سے کہا، مٹکے میں کوئی ہے؟ باپ نے جا کر دیکھا تو ایک بالوں بھرا کھردرا ڈروانا اور منخوس شکل دیکھ کر غصے میں آیا کہ شرم نہیں آتی، تجھے بچوں کو ڈراتے ہوئے۔ جواباً ’’بلا‘‘ نے غصہ دکھایا تو اس نے ایک بڑا سا پتھر اٹھا کر مٹکے کو بلا سمیت ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔

ایک روایت کے مطابق  ہندوستان کے ایک مسلم بادشاہ کی مظلوم اور جوان بیٹی  کی ایک کنیز کے ہاتھ سے جب آئینہ ٹوٹ گیا تو اس نے شہزادی  سے کہا کہ

ازخطاآئینہ چینی شکست

بچاری شہزادی جو اپنے باپ کے ہاتھوں اپنی رائیگاں جوانی اور شائیگاں خوبصورتی کا نوحہ خوان تھی نے کہا

خوب شد اسباب ’’خودبینی‘‘ شکست

یعنی اسے افسوس کے بجائے خوشی ہوئی کہ چلو ہر وقت اپنا حسن وشباب دکھانے والا اور خون کے آنسو رلانے والا ’’ٹوٹ‘‘ گیا ۔اب نہ ہوگا آئینہ اور نہ مجھے روز روز خود کو دیکھ کر اپنی مظلوم ومجبور جوانی کے جانے کا ماتم کرنا ہوگا۔

ایک روایت جو عالم گیری پسند مورخین بلکہ مصنفین کے مطابق غیر ثقہ اور ضعیف ہے لیکن روایت یونہی تو نہیں بنتی کچھ نہ کچھ بنیاد تو اس کی ہوتی ہے چنانچہ اس روایت کے مطابق اس شہزادی کا بھی ایک محبوب تھا۔ ایک روز وہ شہزادی سے ملنے آیاتھا کہ اوپر سے اچانک بلکہ ’’شک‘‘ کا علمبردار بادشاہ آگیا ۔ شہزادی کا محبوب بھاگ کر ایک دیگ میں چھپ گیا۔لیکن بادشاہ کی چھٹی حس بھانپ گئی۔ تب اس نے دیگ کے نیچے آگ جلوائی۔ اس محبوب نے اندر ہی اندر جان دی لیکن عشق کو کم ازکم اپنے ہاتھوں رسوا نہ ہونے دیا۔ اس حادثے کے بعد شہزادی نیم دیوانی اور شاعرہ بن گئی۔

ارے ہاں یہ تو بیچ میں چنیوں کی ایک پرانی ایجاد نے دمُ ہلائی۔ اصل بات ہم چینیوں کی ایک تازہ ترین ’’ایجاد‘‘ کی کرنا چاہتے ہیں جو ایک عورت ہے۔جی ہاں عورت بھی ہے اور ایجاد بھی۔خبر کے مطابق چین میں ایک ایسی عورت ہے جو صرف خواتین کی آواز سنتی ہے اور مردوں کی آواز بالکل نہیں سنتی۔ خبر کے مطابق تو یہ اوریجنل عورت ہے۔

کوئی روبوٹ نہیں ہے اور عام انسانی طریقے پرپیدا ہوئی ہے لیکن ایسا کیسے ہوسکتاہے کیونکہ انسانی تاریخ میں اس قسم کی کوئی مثال نہ کبھی کسی ملک میں ملتی ہے اور نہ کسی زمانے میں۔اور ملتی ہے تو اس زمانے میں جب چینی ٹیکنالوجی اور سائنس عروج پر ہیں اور وہ عورت بھی صرف چین میں پیدا ہوتی ہے یقیناً اس زرد دال میں کچھ نہ کچھ ’’کالا‘‘ تو ضرور ہے ۔کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ ہمیں گمان ہے اور یہ گمان یقین سے کسی طرح کم نہیں ہے کہ اس میں یقیناً کوئی’’ شائبہ خوبی تدبیر‘‘ بھی ہے ، شاید چینیوں نے کچھ ایسا کیا ہو کہ اس عورت کے دماغ میں ہی کوئی تبدیلی کردی گئی ہو اور اس کی فریکونسی ہی تبدیل کردی گئی ہو۔

یہ تو ایک سائنسی حقیقت ہے کہ ہر مخلوق کی سماعت میں الگ الگ فریکونسی ہوتی ہے۔ ایک چیونٹی دوسری چیونٹی کی آواز سو میل کے فاصلے پر بھی سن لیتی ہے لیکن انسان پاس ہوتے ہوئے بھی یہ آواز نہیں سنتا کیونکہ اس کے آلات سماعت میں چیونٹی کی آواز سننے کی فریکونسی ہی نہیں جس طرح ریڈیو ٹی وی اور موبائل کی آوازیں ساری فضاء میں ہر جگہ موجود ہوتی ہیں لیکن اس کو صرف وہی آلات اسی فریکونسی سے پکڑلیتی ہے جو اس کے لیے بنی ہو اور باقیوں کو اس کا پتہ بھی نہیں چلتا۔

لیکن ایک بات سے ہمیں بڑی خوشی ہوئی اور ہم پاکستانیوں کے سر کے اندر آپ تو جانتے ہیں کہ ’’اپنانشہ‘‘ پہلے ہی سے موجود ہوتاہے جو صرف دوچار پیسے کی افیون سے بھی مکمل ہوجاتاہے۔یہ چینی لوگ جو بھی چیزیں بناتے ہیں مارکیٹ کی ڈیمانڈکے مطابق بناتے ہیں اور ان کی سب سے بڑی مارکیٹ تو پاکستان ہے ہی۔ان کا خیال ہوگا کہ اگر یہ بات مارکیٹ میں چل جائے کہ ایسا کوئی آلہ یا دوا چین والوں نے ایجاد یا دریافت کرلیاہے جو خواتین کے دماغ اور سماعت کی فریکونسی میں تبدیلی لاکر مرد بلکہ شوہر کی آواز سننے سے چھٹکارا دلاسکتی ہے تو بعض چینی دواوں کی طرح لوگ اس پر بھی ٹوٹ پڑیں گے۔

لیکن شاید بلکہ یقیناً اس مرتبہ اس ایجاد میں چینی ہم سے مات گئے ہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمارے ہاں پہلے ہی سے شاید قدرتی طور پر خواتین میں اس قسم کا کوئی’’جین‘‘ موجود ہے جو ’’چین‘‘ کی کسی ایجاد کی محتاج نہیں ہے۔ خواتین پہلے ہی سے مرد بلکہ شوہر کی آواز کو  اپنی فریکونسی سے نکال چکی ہیں۔

وہ ایک ہندی فلم کا ایک ڈائیلاگ تو ہم نے آپ کو سنایا بھی تھا کہ ایک خاتون اپنے شوہر کو ہدایات بلکہ چارٹر آف مطالبات پیش کررہی تھی۔ درمیان میں شوہر کو کچھ سوجھا،تو اس نے بیوی سے کہا۔میری بات سنو۔

اس پر بیوی ایک دم تن کر ایکشن میں آتے ہوئے بولی۔تم میری بات سنو۔شوہر نے اپنے اصل مقام پر آتے ہوئے کہا۔ٹھیک ہے کہو۔عورت نے اپنی شہادت کی انگلی سیدھی کرتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے کہا۔تیری بات آج تک میں نے کبھی سنی ہے؟ شوہر نے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔نہیں۔اس پر بیوی بولی۔تو پھر آج کیوں سنوں گی خواہ مخواہ اپنی زبان کو تکلیف کیوں دیتے ہو۔

ہماری ایجاد چینیوں کی ایجاد سے اچھی خاصی اپ ڈیٹ بھی ہے، وہ چینی خاتون تو سرے سے مرد کی آواز ہی نہیں سنتی۔ چاہے بری ہو یا اچھی۔اس مستقل بہرے پن کا نقصان یہ ہے کہ ہوسکتاہے کہ کوئی بات اس کے سننے یعنی فائدے کی ہو۔لیکن ہماری ایجاد میں یہ خوبی ہے کہ خاتون اپنی پسند کی  بات مثلاً حسن کی تعریف وغیرہ تو سن لیتی ہے۔ مرد کچھ لایاہو یا دینا چاہتاہو وہ بھی سن لیتی ہے لیکن جہاں کہیں اس کے فائدے کے خلاف مرد کے منہ سے چوں بھی نکلی۔۔بٹن آف۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔