کوچۂ سخن

عارف عزیز  بدھ 13 مارچ 2019
 کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

غزل


سیم و زر کی کوئی تنویر نہیں چاہتی میں
کسی شہزادی سی تقدیر نہیں چاہتی میں
مکتبِ عشق سے وابستہ ہوں کافی ہے مجھے
دادِ غالب، سندِ میر نہیں چاہتی میں
فیض یابی تری صحبت ہی سے ملتی ہے مجھے
کب ترے عشق کی تاثیر نہیں چاہتی میں
قید اب وصل کے زنداں میں تُو کر لے مجھ کو
یہ ترے ہجر کی زنجیر نہیں چاہتی میں
مجھ کو اتنی بھی نہ سکھلا تُو نشانہ بازی
تجھ پہ چل جائے مرا تیر نہیں چاہتی میں
اب تو آتا نہیں عنبرؔ وہ کبھی سپنے میں
اب کسی خواب کی تعبیر نہیں چاہتی میں
(نادیہ عنبر لودھی، اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


کبھی جو تیری حسین یادوں سے احتیاطا بھی کٹ گئے ہیں
ہم اپنے اندر سے اٹھنے والی اداسیوں سے لپٹ گئے ہیں
کوئی سبب ہے کہ رابطہ ہی نہیں کیا اس نے سال بیتے
وگرنہ دنیا ہے عالمی گاؤں، فاصلے تو سمٹ گئے ہیں
مرے قبیلے کے لوگ ہوتے تو آ کے پہلی صفوں میں لڑتے
یہ کون ہیں جو بس ایک آہٹ پہ الٹے قدموں پلٹ گئے ہیں
تم آزمالو کہ سوچ کر ہی وفا نبھانے کی بات کی ہے
ہم اتنے قابل نہیں ہیں پھر بھی جو کہہ دیا ہے تو ڈٹ گئے ہیں
میں جانتا ہوں یہ جن کے چہرے نمائشی مسکرا رہے ہیں
یہ اپنا مقصد بھلا چکے ہیں یہ اپنے خوابوں سے ہٹ گئے ہیں
(عرباض اطہر، تاندیانوالہ فیصل آباد)

۔۔۔
’’خوش فہمی‘‘
ہر بار بکھرتا ہے
مشکل سے سمٹتا ہے
پھر بھی یہ پاگل دل
ہر بار بکھرنے کو
مشکل میں پڑنے کو
تیار ہی رہتا ہے
اور اس پر ستم یہ کہ
پامالیِ ہستی کو
’’عشق‘‘ یہ کہتا ہے!!
(عنبرین احمد، ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل


مرے ہم نفس تری یاد کا رہا سلسلہ بڑی دیر تک
وہ جو آفتابِ فراق تھا وہ نہ ڈھل سکا بڑی دیر تک
کوئی خواب تھا کہ سراب تھا، ترے ہاتھ میں مرا ہاتھ تھا
ترے لطفِ خاص کا سلسلہ نہیں چل سکا بڑی دیر تک
وہ عجیب لمحہ فراق کا دیئے یادِ وصل گزر گیا
جسے جانا تھا وہ چلا گیا، میں کھڑا رہا بڑی دیر تک
جو نہ چاہتا تھا وہی ہوا، مرا رازِ دل بھی عیاں ہوا
شبِ غم میں دل تھا غزل سرا، میں سنا کیا بڑی دیر تک
مرے دوستوں کو خبر کرو کہ نہ تیر و سنگ و تفنگ دے
جو لگا ہو گھاؤ زبان کا کہاں بھر سکا بڑی دیر تک
ابھی اور لمحے ہیں عیش کے، کئی دور باقی ہیں جام کے
میں اسی فریبِ خیال میں رہا مبتلا بڑی دیر تک
(محبوب خان، شکاگو)

۔۔۔
غزل


ردھم کی تان جب دیپک بنے گی
تو میری سانس بھی چلنے لگے گی
کسی کی آنکھ روئے گی لہو اور
کسی کے ہاتھ پر مہندی لگے گی
مرے گھر سے اٹھے گی میری میت
محبت پھول برساتی رہے گی
سبھی لوگوں کے دامن تو ہیں خالی
ندی کس کس کے دامن کو بھرے گی
جو مجھ سے بات تک کرتی نہیں ہے
وہ میرے شعر لوگوں سے سنے گی
تجھے میں خواب میں ملتا رہوں گا
مجھے تُو دیکھ کر ہنستی رہے گی
خدا سے مانگتا رہتا ہوں بارش
اسی صورت تری کھڑکی کُھلے گی
(عاجز کمال، خوشاب)

۔۔۔
غزل


لگا کے نقب کسی روز مار سکتے ہیں
پرانے دوست نیا روپ دھار سکتے ہیں
ہم اپنے لفظوں میں صورت گری کے ماہر ہیں
کسی بھی ذہن میں منظر اتار سکتے ہیں
بضد نہ ہو کہ تری پیروی ضروری ہے
ہم اپنے آپ کو بہتر سدھار سکتے ہیں
وہ ایک لمحہ کہ جس میں ملے تھے ہم دونوں
اس ایک لمحے میں صدیاں گزار سکتے ہیں
ہماری آنکھ میں جادو بھرا سمندر ہے
ہم اس کا عکس نظر سے نتھار سکتے ہیں
(بلقیس خان، میانوالی)

۔۔۔
غزل


ہمارے دل کو بس ایک کھٹکا لگا ہوا ہے
یہاں شجر تھا جہاں پہ کھمبا لگا ہوا ہے
تمام خوش ہیں کہ مل کے بیٹھے ہیں آج سارے
ہمارے دل میں دکھوں کا میلہ لگا ہوا ہے
میں کیا کسی کو منع کروں کہ شجر نہ کاٹو
شجر کے پیچھے تو خود پرندہ لگا ہوا ہے
جو تو نے بھیجی ہے مجھ کو، اس کو میں کیا پڑھوں اب
’’دعا‘‘ کے اوپر تو ایک ’’نقطہ‘‘ لگا ہوا ہے
کوئی بتائے کہ ایسے سپنے کا کیا ہے مطلب
’’حسین چڑیا کے پیچھے کوّا لگا ہوا ہے‘‘
مجھے پتا ہے یہ اب کسی کی نہیں سنے گی
مری اداسی کو سخت صدمہ لگا ہوا ہے
میں آپ اپنے پہ خود ہی نظریں رکھے ہوں ویسیؔ
مرے تعاقب میں میرا ’’سایہ‘‘ لگا ہوا ہے
(اویس ویسی، زیارت معصوم، ایبٹ آباد)

۔۔۔
غزل
جدائی میں بھی ان یادوں کا مجھ کو آسرا ہے
مجھے تو بس ترا ہونے سے کتنا سکھ ملا ہے
مجھے معلوم ہے اس کو محبت ہی نہیں ہے
مگر یہ دل، مگر یہ دل جو یوں ضد پر اڑا ہے
زمانے کے دکھوں سے دل شکستہ لوگ ہیں ہم
ہمارے واسطے لمبی عمر اک بد دعا ہے
کہ جب تک آنکھ روشن ہے دیا جلتا رہے گا
کبھی لوٹو تو آ جانا ہمارا در کھلا ہے
ملن کیا ہے عمر کی رہ گزر کا اک پڑاؤ
جدائی بھی محبت کے سفر کا مرحلہ ہے
یہ کوئی درد ہے زخم جدائی سے مزین
مری چپ میں یہی آواز بن کر بولتا ہے
(بشریٰ شہزادی، ڈی جی خان)

۔۔۔
غزل


اس نے آنا ہے تو آ جائے بلاوا کیسا
دل کے رشتوں میں مری جان دکھاوا کیسا
نیند کا بوجھ ہے آنکھوں میں تو سو جاؤ میاں
کوئی کاندھا ہو میسر یہ تقاضا کیسا
ہم نے ہتھیار اٹھائے ہیں حفاظت کے لیے
اب بھلے صلح، بھلے جنگ ہو خطرہ کیسا
اس سے کہنا کہ عیادت کا تکلف نہ کرے
جب ڈبویا ہے تو تنکے کا سہارا کیسا
اور معیار نہیں یار کی آنکھوں کے سِوا
اس کے آگے سے گزر جائے تو کھوٹا کیسا
ایک فٹ پاتھ پہ بیٹھے ہوئے بچے نے کہا
جیل خانے میں دیا جاتا ہے کھانا کیسا
(اکرام افضل،مٹھیال، اٹک)

۔۔۔
غزل
میں بلاؤں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
بد دعاؤں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
کاٹ نہ دیں مجھے کہیں یہ شجر
ان کی چھاؤں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
کہیں رہ میں کچل نہ دوں خود کو
اپنے پاؤں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
مجھ سے کوئی خطا نہ ہو جائے
ان خطاؤں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
اک سمندر ہوں میں بھلے، پھر بھی
میں ہواؤں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
پہلے چلّا رہا تھا میں ڈر سے
اب صدائوں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
طائرؔ اس طرح کا ہوں نجم کہ میں
کہکشاؤں سے چھپ کے بیٹھا ہوں
(اویس طائر، کراچی)

۔۔۔
غزل


میں سانس لیتا رہوں اور سمے بسر ہی نہ ہو
ترے بغیر تو جیون کا پیر سَر ہی نہ ہو
میں چاہتا ہوں کہ ہر دل میں ہو سرور کی لہر
محبتوں میں سراسیمگی کا ڈر ہی نہ ہو
خضر کو چاہیے تقسیم کر لے عمر پہ وقت
کہیں حیاتِ مسلسل بھی مختصر ہی نہ ہو
لبوں پہ آ نہ سکے جذبِ عشق کا مفہوم
کسک ہو دل میں مگر بات کا ہنر ہی نہ ہو
اڑائے رکھتا ہے یہ خوف میری نیندوں کو
میں رہ رہا ہوں جہاں یہ کسی کا گھر ہی نہ ہو
مری عبادتیں سب رائیگاں نہ ہو جائیں
جدھر میں جا نہیں سکتا خدا ادھر ہی نہ ہو
بدل نہ جائے ہوائے زمانہ سیف ریاض
دلِ تباہ کہیں پھر سے معتبر ہی نہ ہو
(سیف ریاض، کراچی)

۔۔۔
’’انتظارِ دید‘‘


شریر و شوخ اور چنچل ہوا کی معرفت اس نے
کسی بادل کے آنچل پر، ابھی پیغام بھیجا ہے
مجھے پھر انتظارِ دید کا مژدہ سنایا ہے
بیاضِ دل کا ہر نغمہ!
(جواباً) مسکراتا، گنگناتا ہے
دھنک کے رنگ والی شوخیاں اس کی
تصور کے حسیں آنگن میں خوشبو بن کے اتری ہیں
میری امید کی یہ ادھ کھلی کلیاں
کلابی سردیوں کے نرم بستر پر
بڑے ارمان سے چپ چاپ سوتی ہیں
کبھی ہولے سے پھر وہ مسکراتی ہیں، مہکتی ہیں
مجھے معلوم ہے سب۔۔۔انتظارِ دید کی لذت
نہیں اس کے مقابل کچھ، وصالِ یار کی حدّت
(انور ندیمؔ علوی ایڈووکیٹ، نواب شاہ)

۔۔۔
غزل


حق تب ہے کہ موہوم سے موہوم سمجھ لے
وہ علم بھی کیا علم جو معلوم سمجھ لے
عاجز کا تدبر ہے درِ عشق پہ جھکنا
مغرور کو ادراک سے محروم سمجھ لے
تشبیہ، اشارہ، نہ کنایہ، نہ کوئی لفظ
میں کچھ نہ کہوں اور وہ مفہوم سمجھ لے
الزام تراشی میں تو فن کار ہے دنیا
اس بار بھی لیلیٰ کو نہ معصوم سمجھ لے
کچھ فرق نہیں دونوں میں ہو عشق کہ وحشت
تُو چاہے تو جس نام سے موسوم سمجھ لے
ہم نے تو رمیض اس کے سوا کچھ نہیں سیکھا
’’بیٹا! جو ہتھیلی پہ ہے مقسوم سمجھ لے‘‘
(رمیض نقوی، خوشاب)

۔۔۔
غزل


اک نئی دنیا بسائی خاک پر
پھر نئی شمع جلائی خاک پر
ذہن میں کیا کیا خیال آتے رہے
ہم نے اک صورت بنائی خاک پر
سامنا مجھ کو تو ناکامی کا تھا
راہ یہ کس نے دکھائی خاک پر
گلستاں کیوں صورتِ صحرا ہوئے
کب تھی ایسی بدنمائی خاک پر
زاویے سوچوں کے بدلے ہیں سروشؔ
کس کی ہے جلوہ نمائی خاک پر
(نوید سروش، میرپور خاص)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔