ملاکھڑا اور کرکٹ

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 14 مارچ 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

طاقت کے مراکزکا جو تصور ہمارے ملک میں ہے ، وہ غیر حقیقی اور غیر منطقی ہے جبتک طاقت کے اصل اور حقیقی مراکز کو تسلیم نہیں کیا جائے گا ، ہم ایک مصنوعی ملک ، ایک مصنوعی معاشرے میں زندگی گزارتے رہیں گے اور عوام کی اکثریت تباہ حال اور اقلیت خوشحال رہے گی ۔ سب سے پہلے دنیا میں انسانوں کی درجہ بندی کا جو نظام ہے وہ اس قدر مصنوعی اور غیر حقیقی ہے کہ اس کو بدلے بغیر دنیا میں ایک حقیقی اور منطقی معاشروں کا قیام خیال است و محال است و جنوں کے علاوہ کچھ نہیں۔

یہ بڑی حیرت انگیز بات ہے کہ عوام کی دی ہوئی تنخواہوں پر پلنے والے عوام کے آقا بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے فراڈ جمہوری نظام میں جو ایلیٹ عوام کے ووٹوں سے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوکر حکومت کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر عوام کے ملازم ہیں کیونکہ عوام کی ہی دولت سے وہ تنخواہیں لیتے ہیں اور جو عوام کی کمائی ہوئی دولت سے تنخواہیں لیتا ہے خواہ اس کا اسٹیٹس کتنا ہی بڑا ہو خواہ وہ ملک کے کسی بڑے سے بڑے عہدے پر فائز ہو اصولاً عوام کا ملازم اور خدمت گزار ہوتا ہے۔

چونکہ بادشاہتوں کے دور سے عوام جس جی حضوری نظام کے عادی ہوگئے تھے، جمہوری نظام میں بھی جس میں عوام اقتدار کے مالک ہوتے ہیں غلام ہی بنے رہے اور اپنے اپنے طور پر طاقت کے مراکزکے دعویدار ہوگئے۔ یہ صورت حال کم و بیش دنیا کے ہر ملک میں ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں عملاً عوام اور خواص آقا اور غلام میں بٹے ہوئے ہیں اور غلاموں کی زندگی گزار رہے ہیں جس کا کوئی جواز نہیں جو غیر حقیقی زندگی ہے۔

یہ بات باعث حیرت ہے کہ طبقاتی نظر بندی کے اس ظالمانہ نظام کے خلاف عوام صدیوں سے چپ کا روزہ کیوں رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ عوام سیاسی حوالے سے بد ترین تقسیم کا شکار ہیں اس نظام کے بانیوں نے ابتدا ہی میں یہ کھیل کھیلا کہ لامحدود سیاسی پارٹیاں بنانے کی آزادی دے دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹیوں کا جمعہ بازار لگ گیا۔ ہمارے ملک میں بھی لگ بھگ سو سیاسی پارٹیاں موجود ہیں لیکن ان میں سے زیادہ ترپارٹیاں غریب لوگوں نے بنا رکھی ہیں یا وہ لوگ جماعتیں بناتے ہیں جو الیکشن کے موقعے پر بلیک میلنگ کرکے کچھ مال کما لیتے ہیں۔

اصل میں انتخابات کا فراڈ کھیل کھیلنے والی پارٹیاں ہاتھ کی انگلیوں پرگنی جاسکتی ہیں مغرب میں تو عموماً دو پارٹی سسٹم موجود ہے ایک پارٹی حکومت میں رہتی ہے دوسری پارٹی یا پارٹیاں اپوزیشن میں رہتی ہیں اب یہ سسٹم عملاً پاکستان میں بھی جاری ہو رہا ہے لیکن مغرب کی طرح اس میں ابھی پختگی نہیں آئی لیکن لگتا ہے کہ کچھ عرصے میں یہاں بھی دو پارٹی سسٹم آجائے گا۔

پاکستان میں ویسے تو درجن بھر سے زیادہ پارٹیاں فعال ہیں اور انتخابات میں برابر حصہ لیتی ہیں لیکن یہ تماشا چل نہیں رہا۔ اصل میں ہمارے ملک میں جو دو پارٹیاں ہیں دونوں ایلیٹ پر مشتمل ہیں۔ ایک پارٹی جس پر صنعتکاروں کا قبضہ ہے، دوسری پارٹی وہ ہے جس میں جاگیردار، وڈیرے شامل ہیں ان پارٹیوں میں مفادات کے مطابق آنا جانا لگا رہتا ہے وہ لوگ جن کی سیاست سیاسی مفادات کی ہواؤں پر چلتی ہے وہ ہوا کا رخ دیکھ کر پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔اس قسم کے لوگ عموماً سیاست میں موسمی پرندوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آزاد امیدواروں کا ایک ٹولہ بھی ہوتا ہے جو سورج کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ سیاست کا وہ کھیل ہے جو جمہوریت کو مذاق بنا کر رکھتا ہے۔ ہر طرف مفادات کا ایک نہ ختم ہونے والا کھیل ہے جو جمہوریت کے نام پر کھیلا جا رہا ہے۔

پسماندہ ملکوں میں جمہوری کھیل اس بھدے انداز میں کھیلا جا رہا ہے کہ کھلی لوٹ مار میں بدل گیا ہے ذرا چاروں طرف نظر ڈالیے اربوں کھربوں کی لوٹ مار کی کہانیاں گردش کرتی نظر آئیں گی اور کہانیاں اب احتساب کی شکل میں عدالتوں میں گھومتی نظر آرہی ہیں۔ شاید ہمارا ملک اس حوالے سے صف اول میں ہے کہ یہاں ملزموں، مجرموں کے فرمائشی پروگرام چلتے ہیں۔ عام عدالتوں میں خواہ وہاں ہزاروں قیدی کیوں نہ ہوں ، بیماروں کے لیے ایک ڈسپنسری ہوتی ہے، ہر بیماری کا علاج اسی ڈسپنسری نما اسپتال ہی میں کیا جاتا ہے ، بڑی بڑی بوتلوں میں لال پیلے رنگ کا پانی بھرا رہتا ہے جسے دوا کہا جاتا ہے جو بندہ یہ رنگا رنگ پانی ایک ریڑھے پر بڑی بڑی بوتلوں میں بھر کر وارڈوں میں لے جاتا ہے وہ دواؤں کے رنگ سے مریضوں میں دوائیں تقسیم کرتا ہے۔ یہ رنگین دوا مریضوں کی عموماً نفسیاتی تشفی کے لیے جیلوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔

ہمارے ملک میں ایلیٹ کا تیارکردہ دو پارٹی سسٹم جڑیں پکڑ رہا ہے لیکن برا ہو لالچ کا کہ اربوں کی کرپشن نے اس دو پارٹی سسٹم کو خطرے میں ڈال دیا ہے اب یہ گرفتار بلا نظام کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا پتا سال دو سال میں چل جائے گا۔ فی الوقت جو مڈل کلاسی سسٹم چل رہا ہے، اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کرپشن سے پاک نظر آتا ہے کم ازکم اس اندھی کرپشن سے بہرحال بچا ہوا ہے جو ماضی کی یادگار ہے۔ یہ شرمناک کھیل اس لیے جاری ہے کہ اقتدار پر اسی کرپٹ ایلیٹ کا قبضہ رہا ہے اب جو نیا سیٹ اپ آیا ہے اس میں نااہلی کے امکانات تو ہیں لیکن کرپشن کا گزر اس نئے مڈل کلاس سیٹ اپ میں مشکل نظر آتا ہے سابقہ حکومتوں نے دیوالیے کا جو اہتمام کیا تھا عمران خان کی ہوشیاری سے دیوالیہ گزر گیا اب دیوالی آتی نظر آرہی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ جو اشرافیہ دولت کے نشے میں دھت تھی اس کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اس پر ایسا وقت بھی آسکتا ہے۔ اب جب ایسا وقت آ ہی گیا ہے تو اسے جھیلنے کی کوشش کر رہی ہے کرپٹ عناصر کہاں نہیں ہوتے سو تحریک انصاف یعنی حکمران پارٹی میں بھی اس قسم کا ایلیمنٹ سر اٹھا رہا تھا کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے والا معاملہ ہوگیا۔ عمران خان اپنی سی کوشش کر رہے ہیں کہ پارٹی کرپشن سے بچی رہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس حوالے سے ماضی میں سیاسی کھلاڑیوں کے چاروں ہاتھ کڑھائی میں رہے ہیں سو اب بے چاروں کو خاص طور پر ان کھلاڑیوں کو جو کھل کر کھیلنے آئے تھے بڑی مشکلات بلکہ مایوسیوں کا سامنا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام پانی کا ریلا ہے جو کسی نہ کسی طرح اپنا راستہ نکال لیتا ہے۔

حکومت سو جتن کر رہی ہے کہ ملک کرپشن کی خطرناک بیماری سے بچا رہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت خواہ کتنی ہی ایمانداری اور جانفشانی سے کرپشن روکنے کی کوشش کرے بے چارے منتخب نمایندوں کا حال زار دیکھا نہیں جاتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کا چور چوری سے تو جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں جاتا۔ عوام کے نمایندوں نے الیکشن لڑا ہے الیکشن سندھی بھائیوں کا ملاکھڑا نہیں بلکہ اربوں کا ہیر پھیر ہوتا ہے ویسے اب ملاکھڑا بھی اربوں میں کھیل رہا ہے اور اب وہ کشتی کے طور طریقوں سے بھی واقف ہو رہا ہے دیکھیں ملاکھڑا سندھ میں کون سی پاٹھ مارتا ہے امید ہے کہ ملاکھڑا اور کرکٹ کا یہ کھیل بڑا دلچسپ ہوگا۔ ہمارا کرکٹر بھی بڑا ہشیار ہے دیکھیں چوکے چھکے لگائے جاتے ہیں یا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔