ذکر ایک ناک اور ناکوں کا

سعد اللہ جان برق  جمعرات 14 مارچ 2019
barq@email.com

[email protected]

یہ تحقیقی پراجیکٹ بلکہ ’’جے آئی ٹی‘‘ ایک مدت سے ہم نے بنائی ہوئی تھی تقریباً اس زمانے سے جب سے ہم نے سیدمحمدجعفری کا یہ مصرعہ سنا تھاکہ

ناک وہ ناک خطرناک جسے کہتے ہیں

اس نظم میں اور بھی بہت سارے تحقیقی پراجیکٹ تھے جن میں سے اکثر ہم نے مکمل کرکے عوام کی ’’جے آئی ٹی‘‘ کو بذریعہ کالم پیش کیا تھا جسے وہ تپائی جس پر ’’گھڑا‘‘ رکھا تھا یا وہ’’گھڑا‘‘ جو تپائی پر رکھا ہے یا وہ عورت جسے شاعر نے انناس سمجھاتھا اور وہ’’می ٹو‘‘ نکلی تھی لیکن یہ مسئلہ ابھی تک زیرالتوا رکھاتھا کہ’’ناک وہ ناک خطرناک جسے کہتے ہیں‘‘ دراصل یہ’’ناک‘‘ والا معاملہ ہمیں’’خطرناک‘‘ لگا تھا اس لیے اسے بھاری پتھر سمجھ کر چھوڑ دیا۔لیکن خدا کی شان دیکھیے کہ اچانک نہ صرف مسئلہ ہماری سمجھ میںآگیا بلکہ وہ’’ناک‘‘ بھی۔جو خطرناک تھی بلکہ ہوتی ہے۔

نہ جہاں میں کہیں’’اماں‘‘ ملی جو ’’اماں‘‘ملی تو کہاں ملی

میرے جرم ناک شناسی کو ترے چہرہ ناک دراز میں

دراصل یہ ساری تحقیق اور جے آئی ٹی کا سہرا اس مشہور ومعروف اور بے مثل’’ناک‘‘ کوجاتاہے جس کی آج کل پاکستان میں بلکہ موم بائی گالی وڈ میں چرچے ہیں، اس’’ناک حیرتناک‘‘ کی طرف ہمارا خیال ہی نہ جاتا اگر پڑوسی ملک کے میڈیا میں اس ناک اور ڈزنی ناک نہ قراردیاجاتا۔اور یہ برحق بھی ہے کیونکہ والٹ ڈزنی کے جتنے بھی کارٹونی کردار مشہور ہیں ان سب کی ’’ناکیں‘‘ ہی سب کچھ ہیں خاص طورپر۔

صرف دوپیسے کی افیون ہی ہماری تحقیق کے لیے کافی تھی باقی تحقیق کا نشہ ہماری جے آئی ٹی میں بہت تھا اور جب ہم نے آج کل اپنے ملک کی اس مشہور شوبز ناک کو بنیاد بناکر تحقیق کی تو ایک سے بڑھ کر ایک ’’حیرتناک‘‘ اور شہرت ناک،ناک سامنے آتی چلی گئی اور ہماری جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ سارے واقعات حادثات اور حرکات وسکنات کے پیچھے صرف’’ناک‘‘ ہی کارفرما ہوتی ہے آپ کسی بھی علمی، فلمی، تاریخی، تحقیقی، ارضیاتی، طبعیاتی اور کائناتی مسئلے کو پکڑیے، چلتے چلتے آپ اس تحقیقی زنجیر کا آخری کھونٹا ناک ہی کو پائیں گے۔

آپ نے غورکیاہوگا کہ نہ صرف ہر ’’ناکناک‘‘ کے پیچھے کوئی نہ کوئی ایسا لفظ ہوگا جو ناک پرختم ہوتاہے وہ سارے الفاظ تو ہم بتا نہیں پائیں گے کیونکہ ہمارے کالم کا دامن ’’ناک‘‘ کے معاملے میں ویسا ہی ہے کہ

دامان نگہہ تنگ وگل حسن تو بسیار

لیکن ذرا سوچیے کہ لغت سے اگرناک والے الفاظ نکال لیے جائیں تو بالکل ویسے ہی چیز بچے گی جیسا کہ بغیرناک کا چہرہ ہوتاہے اس لیے تو پرانے زمانے کے بزرگ مرد کا ’’سر‘‘ اور عورت کی ناک کاٹنے کو ترجیح دیتے تھے۔کہ باقی کچھ بچا تو رسوائی مارگئی۔اندازہ ناک کی اہمیت کا اس سے لگائیں کہ ہم جب ناک نقشہ کہتے ہیں تو ناک تو ناک’’نقشے‘‘ میں نق یا نک شامل ہوتاہے ’’ناک نق شہ‘‘ اسی طرح ہر ’’نقش‘‘ میں بھی صرف ناک یا’’نق‘‘ بھی ہوتی ہے جس میں ’’نتھ‘‘ بھی ہوتی ہے۔مطلب یہ ہے کہ اگر ہم یہ کہیں کہ۔ناک کے سوا دنیا میں رکھا کیاہے۔

اب ذرا دل ہی دل میں حسیناں جہاں کا تصور دل میں قائم کیجیے تو ناک ہی ناک دکھائی دے گی صرف ہماری ہی مشہور ہونے والی ’’ناک‘‘ پر فوکس کیجیے اردگرد جو کچھ بھی واقع ہے وہ ہر عورت کے چہرے میں ہوتاہے لیکن معاملہ جب ناک تک پہنچتا ہے تو خطرناک حدتک پہنچ جاتاہے۔ہماری جے آئی ٹی جو کچھ بھی کہے، نے تمام حالات ،واقعات دلائل وشواہد اور وکیلوں کی بحث سے متفقہ طور پر یہ نتیجہ نکالا کہ دنیا میں سارے فسادات، تضادات اور واقعات وحادثات کی ذمے دار ناک اور صرف ناک ہی ہے جس پاکستانی ناک کا ہم اس وقت ذکر کررہے ہیں اور جسے پاکستانی میڈیا کے مطابق دنیا کا ہر اعزاز ملاہے جو شاید انجلیناجولی، لیڈی گا گا، میڈونا اور مائیکل جیکسن کی ناکوں سے بھی بازی لے گئی ہے نہ جانے کس کس کی سفیر ہے اور کس کس کی شہیر اور ناگزیر۔

فرصت ہوتو آپ بھی ذرا غور سے اس ناک کا مطالعہ کیجیے واہ جی کیاناک ہے اپنی گولائی میں، پھیلائی میں، موٹائی میں اور پیمائی میں مکمل طور پر پرفیکٹ ناک۔اور ناک جب ایسی حیرت ناک ہوتی ہے تو وہ نہ صرف  چہرے کے لیے، شوبز کے لیے، کرکٹ کے لیے، ہاکی کے لیے، فٹ بال کے لیے اور ٹینس کے لیے یہاں تک میڈیا اور ملک کے لیے بھی عالم میں انتخاب ہوجاتی ہے۔

اسے ہماری ایک طرح سے نالائقی یا بھلکڑپن کہیے کہ بہت زمانہ پہلے ہمیں ناک کے سلسلے میں ایک اشارہ ملاتھا لیکن ہم نے اسے اہمیت نہ دے کر بہت بڑی بھول کی تھی۔لیکن اب جب اس موجودہ پاکستانی شہرت ناک،ناک پر ہم نے غور کیاتو پتہ چلا کہ واقعی اس شخص کا تجزیہ کتنا حقیقی تھا،جس نے اپنے وقت کی ایک مشہور ناک کے بارے میں تبصرہ کیاتھا یا ارادے کا اظہارکیاتھا۔وہ ایک براڈ کاسٹنگ ادارے میں آنے والی ایک نئی حسینہ مغنیہ تھی۔ہمارے اس خوشنویس یا کاپیسٹ دوست نے اسے دیکھا تو بولا۔جی تو چاہتا ہے کہ جھپٹ کر اس کی ناک کو چبا ڈالوں۔پھر مزید بولا۔کاش خدا مجھے اس ناک کے ساتھ رسوا کرے لیکن پھر دھیرے سے بولا۔لیکن ہمارے اتنے نصیب کہاں۔کہ اتنی اونچی ناک تک پہنچیں۔

اب یہ واقعہ ہمیں یاد آتاہے تو پچھتاتے ہیں کہ اس دانائے راز بلکہ دانائے ناک شخص کی بات پر ہم نے توجہ نہیں دی اور اب دے رہے ہیں تو کیافائدہ کہ۔وقت کی چڑیاں دانہ چگ چکی ہیں۔

اور یہ ہم کوئی ہوا میں تیر نہیں چلارہے ہیں موجودہ مارکیٹ میں ساری بیسٹ سیلر ناکوں کا تجزیہ کیجیے تو آپ بھی مان لیں گے کہ ناک ہی سب کچھ ہے۔یہ جو پریانکائیں، دیپکائیں کرسینائیں اور کترنیائیں ہیں ان سب کے بارے میں وثوق سے پتہ چلاہے کہ ان کی موجودہ آن ڈیوٹی ناکیں ان کی اپنی نہیں بلکہ پلاسٹک سرجری کی دین ہے نہ صرف ناکیں بلکہ ناک کو اس ’’آسن‘‘ پر بٹھا رکھاہے کہ ساتھ ہی ہونٹ سنگت دینے لگے ہیں سب سے زیادہ کمال پریانکا چوپڑاکے سرجن نے کیاہے کہ اس نے ناک کو کچھ اس طرح سے بٹھارکھاہے کہ اس نے اوپری ہونٹ بھی اپنی صحبت سے فیض یاب کیاہواہے۔

کرینہ کپور کا چہرہ باقاعدہ مردانہ لک دیتاتھا لیکن ناک کے ذریعے کھینچ کھانچ کر نہ صرف زنانہ کردیاگیاہے بلکہ ’’خانانہ‘‘ بھی کردیا۔لیکن یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے خدا جب ناک دیتاہے تو ’’خانی‘‘ آہی جاتی ہے بلکہ خانانہ ’’مہارت‘‘بھی حاصل ہوجاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔