جنگل میں رہنے والی لڑکی

صدام طفیل ہاشمی  جمعرات 14 مارچ 2019

’’ تم جنگل میں رہتی ہو؟ ‘‘ میں نے حیرت سے سوال کیا، جس کے جواب میں اس سفید فام لڑکی نے اپنی چمکدار نگاہوں سے میری جانب دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا ۔ میں حیرت کے سمندر میں غوطہ زن اس کی جانب دیکھتا رہا ۔ فیلیسٹی سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور ملاقات بھی عجب انداز میں ہوئی ۔

میں نیو یارک میں تھا جب بچپن کے دوست ذیشان سنور جارج نے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کیا ۔ زمانہ طالب علمی میں میرا ہم جماعت اورگھر کے قریب رہائش ہونے کے باعث اچھا تعلق رہا ۔امریکی شہریت کے حامل ذیشان نے بے تکلفی سے گلہ کیا کہ بھائی پچھلی مرتبہ بھی امریکا یاترا کے باوجود حاضری نہ بھری تھی تو اس مرتبہ معافی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دوست کی بات میں وزن تھا کیونکہ امریکی شہر انڈینایپولس میں مقیم موصوف سے آخری ملاقات کو تین سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا تھا ۔ فرارکا کوئی راستہ نہ پاکر اگلے ہی روز بس اسٹیشن جا پہنچے۔

ماضی میں امریکا میں گھومنے کے دوران عام طور پر ہوائی جہاز کا سہارا لیا کرتا تھا پر اس مرتبہ طے کیا کہ زیادہ سے زیادہ سفر بذریعہ سڑک کیا جائے۔امریکا میں بس اور ہوائی سفرکے کرایوں میں خاص فرق نہیں یعنی اگر چند روز بیشتر ٹکٹ لیا جائے تو سستا مل جاتا ہے جب کہ روانگی کے وقت فوری ٹکٹ مہنگا رہتا ہے ۔ اپنی بے چین فطرت کے باعث ہمیں اکثر بذریعہ بس سفر مہنگا رہا لیکن فیصلہ کیا تھا تو نبھانا تھا ۔ بس کے سفرکا فائدہ یہ تھا کہ جن ریاستوں میں جانا نہیں ہوتا وہ دیکھنے کا موقع مل گیا ۔ ایک دوست عرفان نے اسٹیشن تک پہنچایا اور چند ہی گھنٹوں میں بس روانہ ہوچکی تھی ۔

نیویارک سے نیو جرسی نزدیک ہے توکچھ ہی دیر میں بس نیو جرسی کے اسٹاپ پر رک چکی تھی ۔ چند مسافر اپنا سامان اٹھائے اترنے لگے ۔ بس میں دونوں جانب دو ، دو سیٹیں تھیں اور درمیان میں پتلی راہداری، کھڑکی کی جانب ایک نوجوان بیٹھا اونگھ رہا تھا اور ہمیں اس کے دائیں جانب واقع سیٹ میسر تھی۔ دائیں جانب راہداری کے بعد موجود سیٹ کا مسافر بھی اتر چکا تھا۔ اب نیو جرسی سے مسافروں کے سوار ہونے کا عمل شروع ہوا ہی تھا کہ ہماری آنکھوں نے ایک خوفناک منظر دیکھا۔ ایک سفید فام حسینہ خوفناک کتے کی چین تھامے بس میں سوار ہوئیں۔ شومئی قسمت کے محترمہ کو ہماری کیفیت پر ذرا ترس نہ آیا اور ہمارے دائیں جانب سیٹ خالی پاکر آبیٹھیں ۔ کتا راہداری میں بالکل ہمارے ساتھ آن رکا اور ہمیں سونگھنے لگا۔

بس روانہ ہو چکی تھی اور کتا جگہ کی کمی کے باعث ہم سے چپکنے پر مجبور تھا۔ کتے سے بچنے کے لیے ہماری کوششوں کو دیکھ کر محترمہ کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھرے اور انھوں نے کتے کو ڈانٹ کر ہم سے چھیڑ چھاڑ کوکسی حد تک روکا۔ ہم سوچنے پر مجبور تھے کہ اٹھارہ گھنٹے اس صورتحال کو کیسے برداشت کریں گے۔ اس پر طرہ یہ کہ کتے کی مالکن بھی شاید ہم سے ناراض سی ہوگئی تھیں۔ہمیں اچانک خیال آیا کہ مالکن کی ناراضگی مزید خطرہ پیدا کر سکتی ہے اور اگر اس کتے سے محفوظ رہنا ہے تو مالکن سے اچھے تعلقات استوارکرنا مجبوری ہے۔ہم چہرے پر دوستانہ مسکراہٹ سجائے مالکن سے گویا ہوئے اور کہا ’’جی آپ کا کتا تو بہت پیارا ہے نام کیا ہے اس کا؟‘‘ محترمہ کو کتے کی تعریف پسند آئی اور انھوں نے فخریہ انداز میں بتایا کہ ’’ ویلوسٹی ‘‘ اورآپ کا نام کیا ہے ہم نے پوچھا ۔’’میں فیلیسٹی ہوں‘‘ اس نے جواب دیا۔ نام سے اندازہ ہوا کہ کتا فیمیل ہے۔

ہم نے ناموں کی تعریف کرتے ہوئے اسے بتا دیا کہ کتے تو ہمیں بہت پسند ہیں پر کیونکہ کبھی پالے نہیں تو اس باعث ذرہ بے چین ہیں۔ ہماری بات کا اثر ہوا اور فیلیسٹی نے اسے ہم سے اس حد تک دور کیا کہ کم ازکم وہ ہم سے اب مستقل چپکہ ہوا نہ تھا۔ گفتگو کا سلسلہ دراز ہونے لگا ۔ فیلیسٹی نے بتایا کہ وہ ایک کسان لڑکی ہے اور جڑی بوٹیاں اگاتی ہے۔ اس کی آنکھوں کی چمک اور چہرے پر مسکراہٹ اس بات کی غمازی کر رہی تھی کہ وہ ایک ذہین لڑکی ہے۔اس کے پیشے کی بابت جاننے کے بعد مجھے دلچسپی محسوس ہوئی اور میں نے سوال کیا کہ میں نے سنا ہے کہ جڑی بوٹیوں میں ہر بیماری کی شفا ہے۔ فیلیسٹی کے مطابق یہ بات بالکل درست تھی۔

میرے پیشے کے بارے میں جان کر فیلیسٹی بہت متاثر تھی کیونکہ وہ مستقبل میں شعبہ صحافت میں قدم رکھنا چاہتی تھی۔اس کا رخ کیلیفورنیا کی جانب تھا جو کہ نیو جرسی سے بس کے ذریعے تین دن کی مسافت پر ہے۔ کیلیفورنیا میں کس جگہ رہائش ہے میرے سوال کے جواب میں اس نے بتایا کہ ’’وہ کیلیفورنیا کے جنگل میں رہتی ہے اور حالیہ لگنے والی آگ کے باعث وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئی اور اب کیونکہ آگ پر قابو پا لیا گیا ہے تو وہ واپس جا رہی ہے‘‘ ۔ ’’تم جنگل میں رہتی ہو‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا جس کے جواب میں اس نے اثبات میں جواب دیا ۔ رات ہو چلی تھی اور میرے ذہن میں کئی سوالات تھے پر ان کو اگلی گپ شپ پر موخر کرتے ہم خواب خرگوش کے مزے لینے لگے۔

بس مختلف شہروں میں مختصر اسٹاپ کرتی رہی اور مسافر اترتے چڑھتے رہے کہ اچانک ایک افتاد آن پڑی۔ ایک قوی الجثہ سیاہ فام خاتون جس کی عمر ساٹھ کے لگ بھگ ہوگی ہمارے برابر خالی سیٹ دیکھ کر براجمان ہو گئی۔ہم کھڑکی کی جانب تھے اور بیچ کا ھینڈل بھی اٹھا ہوا تھا ۔اپنی جسامت کے باعث وہ آدھی ہمارے اوپر تھیں۔

اس پر مزید طرہ کہ خاتون نے ہماری جانب موجود سوئچ میں اپنا چارجر لگا ڈالا اور اب ہم چاروں جانب سے ان کی قید میں تھا۔ چاروناچار کچھ دیر بعد ہم نے دونوں سیٹوں کے درمیان موجود بازو نیچے کر ہی ڈالا۔ موصوفہ کو ان کی حد میں رکھنے کا یہ عمل ان کی طبیعت پر گراں گزرا اور انھوں نے ناگواری کا اظہار کر ڈالا۔ ان سے بحث کے بجائے ہم نے خاموشی میں عافیت جانی۔ صبح ہو چلی تھی اور اب اس سفر کا سب سے لمبا اسٹاپ آچکا تھا جہاں بس نے چار گھنٹے رکنا تھا۔ ہم بھی نیچے اتر آئے تھے اور سوچ رہے تھے کہ چار گھنٹے وقت کیسے گزارا جائے کہ فیلیسٹی بھی نیچے اتر آئی۔

میں ویلوسٹی کوگھمانے قریبی پارک لے جا رہی ہوں آپ چلنا پسند کریں گے؟ ان کی دعوت قبول کرتے ہم ساتھ ہولیے۔ میرا سفر کافی پریشانی میں گزرا میں نے فیلیسٹی کو بتایا۔ ہاں میں دیکھ رہی تھی کہ وہ تمہیں پریشان کر رہی ہے اور وہ اس اسٹاپ پر اتری نہیں ہے، فیلیسٹی نے انتباہ کیا۔ یہ انفارمیشن میرے کام آئی تھی اور بعد ازاں اس اسٹاپ سے میں نے بس میں پہلے سوار ہو کر جگہ تبدیل کرلی تھی۔ بہرحال اس وقت ہم گپ شپ کرتے پارک کی جانب جا رہے تھے۔

مختلف جگہوں سے گزرتے وہ مختلف نباتات کے بارے میں آگاہی دے رہی تھی۔ فیلیسٹی نے اپنی عمر انتیس سال بتائی ۔’’تمہیں جنگل میں خوف محسوس نہیں ہوتا ‘‘ میرے اس سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ ’’صدام ڈر تو یہاں انسانوں میں لگتا ہے۔ جنگل میں تو میں محفوظ ہوں۔ جانتے ہو یہ پارک انسانی ہاتھوں نے تراشا ہے جب کہ جنگل کو اللہ نے بنایا ہے میں جنگل میں اپنے آپ کو خدا کے نزدیک تصور کرتی ہوں۔‘‘ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ جنگل کے ٹھنڈے میٹھے جھرنوں کا پانی صحت بخش ہے اور اپنے کھانے کے لیے سبزیاں تازہ اگالیتی ہے اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیا کی خریدکے لیے اگائی گئی سبزیاں شہر میں فروخت کر دیتی ہے۔

کبھی جنگل میں رستہ نہیں بھٹکتی؟ ہاں اندھیری راتوں میں ایسا ہوتا ہے پر ویلوسٹی مجھے راستہ دکھاتی ہے۔آخر پھر بھی جنگل میں اکیلے رہنے کی نوبت آئی کیوں؟ میرے سوال پر اس نے بتایا کہ وہ جس علاقے میں پلی بڑھی وہاں ڈرگ مافیا بہت طاقتور تھی۔ زیادہ تر لوگ ڈرگ بیچتے و استعمال کرتے یا مارے گئے یا جیل میں ہیں ۔ اس ماحول میں وہ کسی سے گھلتی ملتی نہ تھی ۔ اس کا مشغلہ گھر کے پیچھے واقع جگہ پر کاشت کاری رہا ۔ صدام میں اس برے ماحول کا حصہ بننا نہیں چاہتی تھی ، اسی لیے جنگل کا رخ کیا۔ صوفی فطرت فیلیسٹی اور میں بس میں آبیٹھے تھے۔بس روانہ ہو چکی تھی۔

انڈین ایپولس کے اسٹیشن پر ذیشان منتظر تھا ۔ فیلیسٹی و ویلوسٹی کو بائے کہہ کر میں دوست کی گاڑی میں آبیٹھا ۔ میں سوچ رہا تھا کہ درحقیقت فیلیسٹی دنیا سے ناراض ہوکر الگ ہوئی ہے، لیکن ہم شہری لوگوں سے زیادہ خوش وخرم زندگی گزار رہی ہے، کیونکہ وہ اپنے آپ کو جنگل میں خدا کے نزدیک تصورکرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔