پنجاب میں جنگلی حیات کی بقا، امید افزاء اقدامات

آصف محمود  جمعرات 14 مارچ 2019
پنجاب میں جنگلی جانوروں کے تحفظ کیلئے مزید چار نیشنل پارکس بھی بنائے جائیں گے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

پنجاب میں جنگلی جانوروں کے تحفظ کیلئے مزید چار نیشنل پارکس بھی بنائے جائیں گے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

جنگلی حیات کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتی ہے اور اس کے تحفظ کےلیے کام کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ دنیا میں جنگلی حیات کم ہوتی جارہی ہے جسے بچانے کا کام کرنے والی این جی اوز بھی سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے دیکھا جائے تو زیادہ تر چرند پرند موسم سرما میں ایک سے دوسری جگہ کا سفر کرتے ہیں۔ نارووال اور شکر گڑھ کے سرحدی علاقوں میں ہرن اور نیل گائے کی زیادہ آمد سرد موسم ہی میں ہوتی ہے۔ اسی طرح سائبیریا سے اڑنے والے پرندے بھی گرم علاقوں یا نسبتاً کم سرد جگہوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہی موقع ہوتا ہے جب ان پرندوں اور جانوروں کے شکاری بھی انہیں پکڑنے پر کمربستہ ہوجاتے ہیں۔

نایاب جانوروں کے شکار پر پابندی ہے اور انہیں شکاریوں سے بچانے کےلیے حکومتی ادارے وقتاً فوقتاً اقدامات بھی کرتے ہیں؛ مگر اس کے برعکس نایاب پرندوں اور جانوروں کی تعداد بتدریج کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ ان نایاب پرندوں کا شکار کرنا ظلم ہے۔ ان کی نسل بچانے کےلیے ان کی حفاظت ضروری ہے مگر جنگلی حیات پر عرصہ حیات تنگ ہی ہوتا چلا گیا ہے؛ اور آج جتنا ان نایاب پرندوں اور جانوروں کو بچانے کی ضرورت ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ جنگلی جانور نہ صرف ماحول کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ ان سے ماحول اور بھی زیادہ خوبصورت ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے جنگلی جانوروں کے شکار پر پابندی لگائی جاتی ہے تاکہ ان کی نسل کو ختم ہونے سے بچایا جاسکے۔ اس کے باوجود غیر قانونی شکار کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر سال سیکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں جنگلی جانوروں کا گوشت کھالیا جاتا ہے۔

جن جنگلی جانوروں کا زیادہ غیر قانونی طور پر شکار کیا جاتا ہے ان میں کالا اور سرمئی بڑا تیتر، نیل گائے، پاڑ اور دلدلی ہرن کے نام قابل ذکر ہیں۔ گرین پاکستان پروگرام کے تحت جہاں پنجاب میں لاکھوں درخت لگائے جارہے ہیں وہیں جنگلی حیات کی بقا اور افزائش کےلیے بھی خاطرخواہ اقدامات کیے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت جہاں مختلف شعبوں میں تبدیلی کےلیے اقدامات کر رہی ہے وہیں پہلی بار جنگلی حیات کی بقا اورافزائش کےلیے عملی اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان منصوبوں کا جائزہ لیں تو ان میں سب سے بڑا منصوبہ پنجاب میں چار نئے نیشنل پارک بنانے کا پروگرام ہے۔ اسی طرح نایاب جانوروں اور پرندوں کی ای ٹیگنگ، جنگلی ماحول میں جانوروں اور پرندوں کے شکار پر پابندی، اور سالٹ رینج میں چنکارہ ہرنوں کی افزائش قابل ذکر اقدامات ہیں۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب نے سالٹ رینج میں بڑی تعداد میں چنکارہ ہرن چھوڑنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ پنجاب کے سرکاری چڑیا گھروں اور پارکوں میں موجود اضافی جانور اور پرندے نیلامی کے ذریعے فروخت ہوں گے۔ صوبے بھر میں جال کی مدد سے کسی بھی قسم کے جانوروں اور پرندوں کو پکڑنے پر بھی پابندی لگائی جارہی ہے۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب کے اعزازی گیم وارڈن بدر منیر چوہدری نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کے وژن کے مطابق صوبے میں جنگلی حیات کی افزائش اور اضافے پر خصوصی توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ جنگلی حیات کی وہ اقسام جن کی نسل ختم ہوچکی ہے یاختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے، ایسے جانوروں اور پرندوں کی بریڈنگ سینٹرز (نسل افزائی مراکز) میں افزائش کے بعد جنگلوں میں چھوڑا جائے گا۔ چولستان کے بعد اب سالٹ رینج میں بھی چنکارہ ہرن آزاد کیے جائیں گے تاکہ وہ کھلے ماحول میں پروان چڑھ سکیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پنجاب میں جال کی مدد سے کسی بھی قسم کے جانور اور پرندے پکڑنے پر مستقل پابندی لگائی جارہی ہے۔ بالخصوص کوئل، بٹیر، تیتر، مرغابی، سی سی، چکور اور کونج وغیرہ کو جال کی مدد سے پکڑا جاتا ہے۔ پنجاب بھرمیں جنگلی جانوروں اور پرندوں کی فروخت پر بھی پابندی لگادی گئی ہے اور اس پر سختی سے عملدرآمد بھی کروایا جائے گا۔ مارکیٹ میں صرف ایسے جانور اور پرندے فروخت کرنے کی اجازت ہوگی جو کسی بریڈنگ سینٹر سے خریدے گئے ہوں گے، جبکہ بریڈنگ سینٹرزکا ریکارڈ بھی چیک کیا جائے گا کہ انہوں نے جنگلی جانوروں اور پرندوں کی افزائش مقامی سطح پر کروائی ہے یا کہیں سے خریدے تھے۔

جنگلی حیات کے تحفظ، بقا اور افزائش کےلیے آن لائن جنگلی جانوروں اور پرندوں کی خرید و فروخت، ان کے شکارکی تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کرنے والوں کے خلاف بھی سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اعزازی گیم وارڈن بدر منیر چوہدری نے بتایا کہ جب شکاری، شکار کیے گئے جانوروں اور پرندوں کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئرکرتے ہیں تو اس سے نہ صرف بین الاقومی سطح پرپاکستانی کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ دیگر شکاری مقابلے کے طور پر زیادہ جانور اور پرندے شکار کرکے ان کی تصاویر شئیرکرتے ہیں۔ یہ اقدام جنگلی حیات کےلیے انتہائی خطرناک ہے۔

پنجاب میں جنگلی جانوروں کی بقا کےلیے ایک دستخطی مہم بھی شروع کی گئی ہے جس پر گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور، صوبائی وزیر جنگلات سبطین خان، ڈی جی وائلڈ لائف پنجاب، ڈبلیو ڈبلیو ایف کے کنٹری ڈائریکٹر حامد نقی اور اعزازی گیم وارڈن بدر منیر چوہدری سمیت تین سوسے زائد اہم شخصیات نے دستخط کرکے اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ جنگلی حیات سے پیارکرتے ہیں اور اس کے غیرقانونی شکار اور خرید و فروخت کو روکنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

اسی طرح گرین پاکستان پروگرام کے تحت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں چار بڑے نیشنل پارک بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ منصوبے پر 5 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ بڑی تعداد میں کالے ہرن بھی چولستان کے علاقے میں چھوڑے جائیں گے تاکہ یہ نایاب نسل کا ہرن قدرتی ماحول میں پرورش پاسکے۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب اور وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کے اشتراک سے گرین پاکستان پروگرام کے تحت پنجاب میں جنگلات اور جنگلی حیات کی بحالی کے حوالے سے کام تیزی سے جاری ہے۔ پنجاب میں اس وقت چار بڑے نیشنل پارک ہیں جبکہ اس صوبے میں مزید چار نیشنل پارک بنانے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔

پنجاب میں اب جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جنگلی جانوروں اور پرندوں کی ٹریکنگ، ان کی آماجگاہوں کی میپنگ اور جی پی ایس کے ذریعے ان کی لوکیشن کا حصول بھی ممکن ہوگا۔ صوبے بھر کے تمام ریجنل دفاتر میں جی آئی ایس کے 8 ریجنل نوڈز قائم کیے جا رہے ہیں جو ہیڈ کوارٹرز میں ایک مرکزی جی آئی ایس لیب کے ساتھ منسلک ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تربیت حاصل کرنے والے تمام افسران اپنے اضلاع میں موجود جنگلی حیات کا ڈیٹا اپنے متعلقہ ریجنل دفتر کی جی آئی ایس لیب کو فراہم کریں گے جو اسے جدید سائنٹفک سافٹ ویئر کی مدد سے میپ میں تبدیل کرکے ہیڈ آفس کی مرکزی لیب کو فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس جدید سافٹ ویئر کے ذریعے یہ جاننے میں آسانی ہوگی کہ جنگلی حیات کا کونسا قدرتی مسکن (habitat) تباہی یا بہتری کی طرف گامزن ہے اور کس علاقے میں کس جنگلی حیات کی تعداد کتنی ہے تاکہ اس سلسلے میں بروقت حکمت عملی تیار کی جاسکے۔

پروجیکٹ ڈائریکٹر گرین پاکستان پروگرام میاں حفیظ احمد نے کہا کہ جنگلی حیات کے محفوظ اور زیادہ آبادی والے علاقوں اور یہاں پائے جانے والے جانوروں اور پرندوں کی آبادی کی تعداد سے متعلق ڈیٹا جمع کرکے بھی ایک میپ تشکیل دیا جائے گا۔ اس جدید سافٹ ویئر کے ذریعے صوبے بھر کے وائلڈ لائف پارکس، چڑیا گھروں اور بریڈنگ سینٹرز میں موجود جانوروں اور پرندوں کی صحت اور انہیں فراہم کی جانے والی غذا و دیگر سہولیات کی مانیٹرنگ کرنا بھی ممکن ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں وائلڈ لائف کے منصوبوں کے مینجمنٹ پلان کو بھی جی آئی ایس سسٹم سے منسلک کیا جائے گا۔

گرین پاکستان پروگرام پنجاب کے انچارج میاں حفیظ نے پنجاب میں نئے نیشنل پارک بنائے جانے کے منصوبے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ہمارے پاس نیشنل پارک لال سوہانرا، نیشنل پارک چینجی، اٹک اور روہتاس میں نیشنل پارک اور ریزرو ایریا ہے۔ تاہم اب مزید چار نئے نیشنل پارک بنائے جارہے ہیں جن میں چکوال کے علاقے آڑہ بشارت میں 35 ہزار ایکڑ رقبے پر نیشنل پارک بنایا جائے گا۔ دوسرا نیشنل پارک مری کہوٹہ کے علاقے کوٹلی ستیاں میں 62 ہزار ایکڑ رقبے پر بنایا جائے گا، جس میں تمام علاقہ بلند و بالا پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ تیسرا نیشنل پارک گجرات کے قریب پبی کے علاقے میں 26 ہزار ایکڑ پر بنایا جائے گا اور چوتھا نیشنل پارک اٹک کے علاقے کھیری مورت میں بنایا جائے گا۔

کوٹلی ستیاں میں چار جنگل ہیں۔ یہاں نایاب نسل کے فیزنٹ اور سب سے چھوٹے سائز کے ہرنوں کی، جنہیں بارکنگ ڈیئر بھی کہا جاتا ہے، افزائش ان ہی جنگلوں کے قدرتی ماحول میں کی جائے گی؛ جبکہ اس نیشنل پارک کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار کیا جائے گا۔ اسی طرح چولستان کے علاقے میں (جہاں اس وقت سیکڑوں چنکارہ ہرن نظرآتے ہیں) اب نایاب نسل کے کالے ہرن بھی چولستان میں چھوڑے جائیں گے تاکہ یہ یہاں کے قدرتی ماحول میں پرورش پاسکیں اور ان کی آبادی میں اضافہ ہو۔ کالا ہرن اس وقت پنجاب کے مختلف چڑیا گھروں اور بریڈنگ سینٹرزمیں موجود ہے تاہم جنگل میں کالا ہرن ختم ہوچکا ہے۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب نے چولستان کے علاقے میں جنگلی حیات خصوصا کالے ہرن اور چنکارا ہرن کے تحفظ کےلیے ہیلی کاپٹر کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے۔ سائبر کرائم کے وائلڈ لائف ایکٹ میں بھی ترمیم کی جائے گی۔ اس حوالے سے تیار کی گئی سفارشات کے مطابق، گیم ریزرو میں شکار کے اسپیشل پرمٹ کے حصول کےلیے واضح پالیسی مرتب کی جائے گی۔ بٹیر کی کم ہوتی آبادی کے تحفظ کےلیے فوری اقدامات کیے جائیں گے تاکہ اس کی نسل بچائی جاسکے۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ سائبر کرائم وائلڈ لائف ایکٹ میں ترمیم کی جائے گی تاکہ وائلڈ لائف سائبر کرائم کو روکا جا سکے۔ سرکاری چڑیا گھروں اور بریڈنگ سینٹرزمیں سرپلس جانوروں کی فروخت کے حوالے سے بھی واضح پالیسی تیار کی جائے گی۔ جانوروں اور پرندوں کی قدرتی آماجگاہوں کی بحالی اور تحفظ کےلیے بھی اقدامات کیے جائیں گے جبکہ غیرقانونی شکار اور اسمگلنگ کی روک تھام میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے ملازمین کو انعامات بھی دیئے جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف محمود

آصف محمود

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 2000 سے شعبہ صحافت جبکہ 2009 سے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاک بھارت تعلقات، بین المذاہب ہم آہنگی اورسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں۔ بلاگر سے اِس ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔