عمران خان خوف سے نجات پائیں

نصرت جاوید  منگل 6 اگست 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

عمران خان اور ان کے متوالے ابھی تک یہ بات پوری طرح سمجھنے کو تیار نہیں ہو رہے کہ ان کی جماعت نے مئی 2013 کے انتخابات میں کئی شاندار چیزیں حاصل کی ہیں۔ تحریک انصاف کو یقیناً وہ کامیابی نصیب نہ ہوئی جسے وہ اپنا مقدر سمجھ بیٹھی تھی اور عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم نہ بن پائے۔ مگر کسی اور جماعت کا نام بھی تو بتا دیجیے جس کے امیدوار بیک وقت پشاور اور کراچی کے حلقوں سے منتخب ہو کر قومی اسمبلی تک پہنچے۔ پاکستان کے پہلے بڑے شہر سے آخری میگا سٹی تک اپنے سیاسی پیغام کی اتنی پذیرائی کسی اور جماعت کو نہیں ملی۔

اس پذیرائی کا اصل سبب ہماری سیاست میں ایک نئے Narrative  کی پیدائش تھا جس نے ہمارے تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں طاقتور اور توانا ہوتے نچلے متوسط طبقات کو یہ اُمید دلائی ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو نسلی، لسانی اور روایتی دھڑے بندیوں سے بالاتر ہو کر بھی ووٹ دیا جا سکتا ہے۔ اس توقع کے ساتھ کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ایک ایسے نظام ِحکومت کو متعارف کرائے گی جہاں اس ملک کے شہری اپنی قسمتوں کے فیصلے خود کریں گے۔ حکومتی سرپرستی میں اپنے کاروبار بڑھانے اور پھیلانے کے بجائے صرف اور صرف اپنی صلاحیتوں اور محنت کے ذریعے معاشرے میں باعزت مقام حاصل کرنے کی کوششیں کریں گے۔

اپنی صحت یابی کے بعد عمران خان کو اپنے Narrative کی اس پذیرائی کا بھرپور ادراک کرنے کے بعد نئی منزلوں کی سمت بڑھنے کی تیاریاں شروع کردینا چاہیے تھیں۔ ان کی سوئی مگر انتخابات میں ’’دھاندلی‘‘ کے موضوع پر اٹک کر رہ گئی ہے۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’دھاندلی‘‘ پر توجہ مرکوز رکھنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ چند حلقوں کے انتخابی نتائج کی بھرپور چھان پھٹک کے ذریعے یہ پتہ چلایا جا سکے کہ کسی امیدوار کو ووٹوں کی برتری حاصل کرنے کے باوجود ’’ناکام‘‘ کس طریقہ واردات کے ذریعے ٹھہرایا جاتا ہے۔ ان طریقوں کا توڑ نکل آئے تو لوگ آیندہ ہونے والے انتخابات میں بھرپور حصہ لیں گے۔ ورنہ یہ سوچ کر گھر بیٹھے رہیں گے کہ ان کا ووٹ ڈالنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ نتائج تو وہی آئیں گے جو پہلے سے طے کر دیے گئے ہیں۔

ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیے تو عمران خان کا چند مخصوص حلقوں کے انتخابی نتائج کا تفصیلی تجزیہ کرنے والا یہ مطالبہ کوئی اتنا بے جا نظر نہیں آتا۔ مگر جب انھوں نے اس کا ذکر قومی اسمبلی کا حلف اُٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کیا تو چوہدری نثار علی خان نے فوراََ اس پر آمنّا و  صدقنا کہا۔ اس دن کے بعد سے تحریک انصاف والوں کو قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں وزیر داخلہ کو اپنے کیے وعدے کو یاد دلاتے رہنا چاہیے تھا۔ مجھے یقین ہے کہ نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ مولانا فضل الرحمٰن کے حامی ارکان بھی ان کی آواز میں آواز ملانے پر مجبور ہو جاتے۔ پوری تیاری کے ساتھ قومی اسمبلی میں اپنے مطالبے پر اصرار حکومت کو بالآخر مجبور کر دیتا کہ وہ چند ماہ بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے صاف اور شفاف نظر آنے کو یقینی بنانے کے انتظامات کرتی۔

مگر ایک مناسب فورم پر اپنی آواز منظم انداز میں اُٹھانے کے بجائے عمران خان کے سپریم کورٹ کو سوموٹو اقدام کے ذریعے ان کی ذاتی اور جماعتی تسلی کرانے کے اقدامات کے مطالبے پر زور دینا شروع کر دیا۔ شاید اس ضمن میں ان کی آواز زیادہ موثر ثابت ہوتی اگر وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر صدارتی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیتے۔ انھوں نے وہ بھی نہیں کیا۔ اب سپریم کورٹ کے پاس اور کوئی راستہ نہیں رہا کہ انھیں بار بار یاد دلاتی رہے کہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف شنوائی کا ایک مخصوص طریقہ کار ہے۔ اس ملک کی عدالتِ عظمیٰ صرف عمران خان کی تسلی کی خاطر اس طریقہ کار کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ وہ نظر انداز کر دے توعمران خان پاکستانی سیاستدانوں کے ہجوم میں ایک ’’انوکھے لاڈلے‘‘ کے طور پر دِکھنا شروع ہو جائیں گے۔

تحریک انصاف کا سب سے بڑا مسئلہ مگر یہ ہے کہ اس کے پرستاروں کی اکثریت خود کو انقلابی تصور کر بیٹھی ہے جو تاج اُچھالنے اور تخت اُلٹانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ تاج اور تخت کے ساتھ ’’متھا لگانے والے‘‘ انقلابی انتخابات میں حصہ نہیں لیا کرتے۔ ’’تحریر اسکوائر‘‘ سجایا کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کو مئی 2013 کے انتخابات میں بھرپور دھاندلی کا اتنا ہی یقین تھا تو اس کے منتخب شدہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو اپنے عہدوں کا حلف نہیں اُٹھانا چاہیے تھا۔ پرویز خٹک کو بھی دو مختلف جماعتوں اور ایک مقامی تحریک کے ساتھ الحاق کرنے کے بعد خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کے مشکل کام میں مصروف ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ 1977میں پاکستان قومی اتحاد نے یہی کیا تھا۔ یقیناً اس کا فائدہ کسی سیاسی جماعت نے نہیں جنرل ضیاء نے اُٹھایا اور پورے گیارہ سال تک پاکستان کو بڑی سفاکی سے مفلوج کیے رکھا۔

تحریک انصاف کے ’’انقلابیوں‘‘ میں واقعی کچھ جان ہوتی تو اب کی بار شاید ان کی تحریک کے نتیجے میں کوئی اور جنرل ضیاء نہیں تازہ انتخابات آتے۔ مگر تازہ انتخابات ٹویٹر اور فیس بک پر گالیوں سے بھرے انقلابی پیغامات ٹائپ کرنے سے نہیں ملتے۔ انھیں حاصل کرنے کے لیے سڑکوں پر آنا پڑتا ہے۔ پھر لاٹھی چارج ہوتے ہیں، آنسو گیس چلتی ہے، بالآخر گولی بھی چلانا پڑ جاتی ہے اور وسیع پیمانے پر گرفتاریاں بھی۔ ان سب چیزوں کو بھگتنے کے لیے ذرا ’’وکھری قسم‘‘ کے لوگ درکار ہوتے ہیں۔ کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کے پاس ایسے جیالے ہوا کرتے تھے۔ 1988 کے بعد سے وہ بھی ناپید ہونا شروع ہو گئے۔ اب تو ہر سیاسی جماعت میں کارکن نہیں دیہاڑی دار ہوا کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے لوگ ابھی تک اپنے تئیں ’’خوش حال‘‘ ہیں۔ مگر ٹھیکے اور نوکریاں بتدریج خیبر پختونخوا میں بٹنا شروع ہو گئے ہیں۔

افسروں کی ترقی اور تبادلوں کا کاروبار بھی آہستہ آہستہ لوٹ رہا ہے۔ عمران خان کو اپنی ساری توجہ ماضی کی طرف دھکیلنے والے اس رحجان کا قلع قمع کرنے پر لگانی چاہیے۔ ان کی باقی توانائیوں کا زیادہ حصہ کراچی کا حق ہے جہاں کے باسیوں کی بے پناہ اکثریت 1980 کی دہائی سے اپنے سروں پر مسلط دائروں میں سفر کرنے والی سیاست سے تنگ آ چکی ہے۔ سپریم کورٹ سے اپنا مسئلہ حل کرتے ہوئے عمران خان کو ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ والے خوف سے نجات پانا ہو گی۔ سیاست دان کا آخری ہدف اقتدار ہوتا ہے اور اس کو اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے خود کو اِدھر اُدھر بھٹکانے والے ہیولوں سے بچ کر رہنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔