تربیت میں بڑھتے تضادات

فرحین منصوری  اتوار 17 مارچ 2019
کم عمر بچے کا ذہن صاف ہوتا ہے، اس عمر میں اسے جو سکھایا جائے، وہ اسے تاعمر تسلیم کرلیتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کم عمر بچے کا ذہن صاف ہوتا ہے، اس عمر میں اسے جو سکھایا جائے، وہ اسے تاعمر تسلیم کرلیتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بچے کا پہلا تربیتی ادارہ گھر ہوتا ہے۔ ابتداٸی تربیت ماں اور باپ دونوں کرتے ہیں۔ آج سے تقریباً دس سال قبل ہی کی بات ہے کہ والدین بچوں کو یہ تربیت دیتے تھے کہ بڑوں کی عزت کرو، انہیں پلٹ کر جواب نہ دو۔ جب کہ آج کل اس کا الٹ ہو رہا ہے۔ والدین خود بچوں کو شہ دیتے ہیں کہ کوٸی تمہیں کچھ بھی کہے تو فوراً جواب دے دو۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے کے بچے نہ صرف احترام و لحاظ کرتے تھے، لیکن اسی کے ساتھ وہ والدین کے فرمانبردار بھی تھے۔ تربیت میں تیزی سے بدلتے ہوئے رویّے کا اہم سبب جدید دور کی بڑھتی ہوٸی ٹیکنالوجی ہے جس میں سب سے زیادہ کردار موباٸل فون کا ہے۔

نٸی نسل کے ہاتھوں میں چھوٹی عمر سے ہی موباٸل فون دے دیئے جاتے ہیں جن میں وہ گیمز کھیلتے ہیں، نظمیں سنتے ہیں۔ کسی بھی قسم کی الیکٹرونک اشیاء انسانی دماغ کےلیے نقصان کا باعث ہوسکتی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی نٸی نسل کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور قابلیت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ موباٸل میں بچے اتنے محو ہوجاتے ہیں کہ بڑوں کی بات پر کان نہیں دھرتے۔ آج کی نسل کا موازنہ پہلے کی نسل سے کیا جائے تو آج کی نسل سست اور پڑھاٸی سے دور نظر آتی ہے۔

بچے کا ذہن چھوٹی عمر میں صاف ہوتا ہے۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے کہ جب اسے جو سکھایا سمجھایا جائے، اس کا ذہن تا عمر اس بات کو تسلیم کرلیتا ہے۔ ماں باپ اور بڑے بزرگ بچوں کے سامنے کس طرح سے بات کرتے ہیں، کن الفاظ کو اپنی گفتگو میں شامل کرتے ہیں، ان کا اپنوں سے میل جول کیسا ہے، یہ سب کچھ تربیت کے زمرے میں آتا ہے۔ مثلاً بچے کو ’’تم‘‘ سے مخاطب کیا جائے تو وہ بھی ہر کسی کو ’’تم‘‘ سی ہی مخاطب کرے گا۔ پھر اس طرح اس میں بڑے چھوٹے کی تقریق نہیں رہے گی۔ لہٰذا جب بچے کو ’’آپ‘‘ سے مخاطب کیا جائے گا تو نہ صرف وہ اس لفظ کو کہے گا بلکہ اس کی تربیت بھی بے مثال ہوگی۔ بچے کے سامنے چھوٹے سے چھوٹا لفظ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔

ابتداء میں تو بچے اپنے گھر یعنی والدین اور بڑوں کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتے ہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ ان کی بدتمیزی بڑھتی چلی جاتی ہے اور پھر وہ کسی محفل میں جاتے ہیں تو بھی ان کا رویہ یہی رہتا ہے۔ جب اسکول جانا شروع کرتے ہیں تو اپنے اساتذہ، یعنی جو ماں باپ کی جگہ ہوتے ہیں، ان سے بھی بدتمیزی کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں گھر میں ہی سیکھی سکھائی جاتی ہیں۔ مگر آج کل گھر میں ان باتوں پر روک ٹوک کرنے کے بجائے بڑھاوا دیا جاتا ہے۔

کچھ وقت پہلے ہی کی بات ہے کہ استاد اگر شاگرد کو ڈانٹتے یا سزا دیتے تو اور وہ گھر جا کر بتاتا تو والدین اسے یہ کہتے تھے کہ یقیناً تم نے ہی کچھ کیا ہوگا؛ جبکہ آج کل والدین اسکول جاکر کہتے ہیں کہ آپ نے ہمارے بچے کو ڈانٹا کیسے، ہاتھ کیسے لگایا؟ یہ وہ باتیں ہیں جو بچے کی تعلیم اور تربیت، دونوں پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔

بچے کی ہر شرارت کو نادانی سمجھ کر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ نادان شرارتیں ہی مستقبل میں اس کےلیے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ والدین کو بچے کی بے جا خواہشات پر رضامند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے بچہ ضدی ہوجاتا ہے اور پھر اپنی ہر بات کو منوانے کی ضد کرتا ہے۔

اہم اور خاص بات یہ کہ تربیت کی جاتی ہے، سکھاٸی نہیں جاتی۔ بچہ اس وقت تک کسی بات پر عمل نہیں کرے گا جب تک اپنے بڑوں کو کرتے نہیں دیکھے گا۔ مثلاً آپ نماز پڑھتے ہیں تو آپ کو دیکھ کر نماز پڑھتا ہے، آپ کتاب پڑھتے ہیں تو آپ کو دیکھ کر اسے بھی کتاب پڑھنے کا شوق ہوتا ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہیں جن پر غور کیا جائے تو بچے کی تربیت خودبخود بہتر اور پھر بہترین ہوتی چلی جائے گی۔

تربیت کہیں نہ کہیں مستقبل پر اثر انداز ہوتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو بڑوں کا ادب کرنا اور چھوٹوں سے پیار سے بات کرنے کا سلیقہ سکھا کر انہیں معاشرے کا باعزت شہری بناٸیں۔ نہ کہ ہر بات کی چھوٹ دے کر مستقبل میں ان کے اور معاشرے کےلیے مشکلات کی وجہ بنیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

فرحین منصوری

فرحین منصوری

بلاگر جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغِ عامّہ میں بے اے آنرز کی طالبہ ہیں۔ کتابیں اور بلاگز پڑھنے کی شوقین ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔