ہائے رے مجبوریاں سیاست کی

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 15 مارچ 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

امریکی صدر ٹرمپ نے واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن حکومت شمالی کوریا کی طرف سے اس کے میزائل پروگرام سے متعلق متنازعہ سرگرمیوںکے باوجود مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

کمیونسٹ کوریا اور امریکا کے مابین اب تک دو سربراہی ملاقاتیں ہوچکی ہیں ، جو بے نتیجہ ثابت ہوچکی ہیں ۔ امریکا کی کوشش ہے کہ شمالی کوریا کے ذریعے بات چیت کے ذریعے جزیرہ نما کوریا کو ایک غیر جوہری علاقہ بنانے سے متعلق کوئی معاہدہ طے پا جائے۔ شمالی کوریا کے بارے میں حال ہی میں ایسی رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں کہ اس نے اپنے میزائل پروگرام سے متعلق سرگرمیاں مبینہ طور پر دوبارہ شروع کردی ہیں۔

کمیونسٹ کوریا نے پچھلے دنوں امریکا سے دو بار ہونے والے مذاکرات میں کافی کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن امریکا ہر قسم کی پابندیاں شمالی کوریا پر لاد دینا چاہتا ہے لیکن جنوبی کوریا کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرنا چاہتا ہے، یہ ایک ایسی جابرانہ پالیسی ہے جس کی رو سے شمالی کوریا کے پیروں میں تو بھاری زنجیریں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کسی حوالے سے بھی قرین انصاف نہیں ہے نہ شمالی کوریا ،اس قسم کی یکطرفہ پابندیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوگا۔

امریکا کی موجودہ حکومت ہی نہیں سابقہ حکومتوں کی پالیسی یہ رہی ہے کہ جنوبی کوریا کو ہر طرح کا تحفظ دیا جائے اور شمالی کوریا پر زیادہ سے زیادہ پابندیاں لاد دی جائیں ، اس قسم کے سنجیدہ مسائل میں کوئی فریق یکطرفہ طور پر اپنی باتیں نہیں منوا سکتا جب کہ امریکا کی مذاکراتی تاریخ میں امریکا نے ہمیشہ اپنے اور اپنے اتحادیوں کے مفادات کے تحفظ کو اولیت دی جس کا نتیجہ عموماً مذاکرات کی ناکامی کی شکل ہی میں نکلتا رہا ہے ، جرمنی کی تقسیم کے بعد بھی امریکا اپنے مفادات کو اولیت دینا چاہتا تھا اس کا نتیجہ متحدہ جرمنی کی شکل میں سامنے آیا ۔

اب دنیا وہ نہیں رہی جس میں متنازعہ ایشوز پر امریکا کا فرمایا ہوا حرف آخر ہوا کرتا تھا ، شمالی کوریا نظریاتی طور پر بھی جنوبی کوریا اور امریکا سے مختلف نظریات کا حامل ملک ہے۔ امریکا شمالی کوریا پر تو ہزار پابندیاں لگانا چاہتا ہے لیکن جنوبی کوریا کو جوہری ہتھیاروں کی ذخیرہ گاہ بنادیا ہے۔ اس امتیازی پالیسی کی وجہ لازماً دونوں ملکوں کے درمیان تلخیاں پیدا ہونا فطری بات ہے ۔ اس مسئلے کی بنیاد ہی یہ ہے کہ امریکا ابتدا سے جنوبی کوریا کا سرپرست بنا ہوا ہے اور دوسری طرف شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، اس طرز سیاست نے علاقے میں ایک نہ ختم ہونے والے تناؤ کی کیفیت پیدا کردی ہے جس کا ازالہ دھوکا دہی کی پالیسیوں سے ہرگز نہیں ہوسکتا۔

مسئلہ حریف شمالی کوریا کا نہیں ہے ، امریکا کی سب سے کلوز تنظیم یورپی یونین آج امریکا کی غلط پالیسیوں سے امریکا سے دور ہوگئی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ بالکل سیدھا اور جینوئن ہے امریکا زبانی کلامی تو کہتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل فلسطینیوں کے لیے ایک علیحدہ وطن ہے، کیا اسرائیلیوں کو وطن دلانے میں اتنا خون بہا تھا جتنا فلسطینیوں کا بہایا گیا؟ کیا امریکا اور اس کے اتحادی چاہیں تو فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا؟ امریکا ایک سپر پاور ہے لیکن اپنی سپرپاوری کی طاقت انصاف کی برتری کے لیے استعمال نہیں کی جا رہی ہے بلکہ کھلی جانبداری اور امتیازی پالیسی کے لیے استعمال ہو رہی ہے جب سپر پاور ملکوں کے درمیان محض اپنے مفادات کے لیے جانبداری اور امتیازی پالیسی پر کاربند ہوں تو وہ کیسے دنیا کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔

امریکا دنیا کی سپرپاور ہے اور سپرپاور دنیا کی سرپرست ہوتی ہے، دنیا کے مختلف ملکوں میں اختلافات ہیں اور ہوتے ہیں یہ کوئی نئی بات ہے نہ انوکھی بات ہے۔ دنیا کی تاریخ اختلافات اور جنگوں سے بھری ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اشرف المخلوقات تو کہتا ہے لیکن عملاً وہ جانور سے بدتر ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں قومی مفاد کا ایک شوشہ چھوڑا گیا ہے اور دنیا کے ملکوں کے درمیان اس قومی مفاد کے فلسفے نے دنیا کو تباہی کے کنارے پہنچا دیا ہے ۔

آج دنیا کے جس ملک کی طرف دیکھیں کسی نہ کسی مسئلے میں الجھا ہوا نظر آتا ہے کہیں جنگ ہو رہی ہے توکہیں جنگ کی تیاری ہو رہی ہے۔ دنیا کے انسان صدیوں سے بدحالی کے شکار ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس معاشی بدحالی کا ذمے دار کون ہے کیا دنیا میں غلہ نہیں ہے اجناس کی پیداوار کم ہے؟ نہیں دنیا میں انسانوں کی ضرورت کے مطابق ہر چیز موجود ہے لیکن دنیا کے 80فیصد سے زیادہ انسانوں کے پاس قوت خرید نہیں ہے کیونکہ دنیا بھر کے انسانوں کی قوت خرید چند ہاتھوں میں جمع ہوگئی ہے۔

آج ایک بار پھر شمالی کوریا کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے، اس کی اصل اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب انسان طبقاتی استحصال کے عیارانہ طریقوں سے واقف ہوتا جا رہا ہے۔ ملکوں کے درمیان اختلافات خودبخود نہیں پیدا ہوئے بلکہ پیدا کیے جاتے ہیں تاکہ دنیا ان اختلافات میں الجھی رہے اور استحصالی طبقات بے فکری سے عوام کو لوٹتے رہیں ایک لٹیرے وہ ہوتے ہیں جو سڑکوں پر گلیوں میں لوٹ مار کرتے ہیں ایک لٹیرے وہ ہوتے ہیں جو عوام کی مرضی سے منتخب ہوکر عوام کو لوٹتے ہیں ۔ آج دنیا بھر میں ملکوں کی سطح پر جو لڑائیوں اور اختلافات کا بازار گرم ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ لٹیرے طبقات عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا چاہتے ہیں۔

شمالی کوریا کا صدر امریکا کی مرضی کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے تمام مرکز تباہ کرچکا ہے اور امریکا بہادر کی مرضی کے مطابق ایٹمی پروگرام کو رول بیک کر چکا ہے لیکن اس فیصلے سے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کا ماحول ختم ہو رہا ہے جب کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کا دار و مدار کشیدگی اور جنگوں پر ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اب کہہ رہے ہیں کہ وہ شمالی کوریا سے دوبارہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دوران کیا شمالی کوریا کی پالیسی بدل گئی ہے؟

امریکی صدر امریکی تاریخ کا ایک لاابالی صدر ہے اس میں سنجیدگی، بردباری کا نام و نشان نہیں۔ ایک سپرپاور کی حیثیت سے ٹرمپ کا یہ فرض ہے کہ وہ دنیا کو جنگوں اور جنگی ماحول سے بچائے لیکن یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ ٹرمپ جنگی ماحول پیدا کرنے کا ایکسپرٹ بنا ہوا ہے اس دنیا کے مالک اس دنیا میں رہنے والے 7 ارب انسان ہیں۔ کیا جنگیں اور جنگی ماحول انسانوں کی ضرورت ہے؟ ایسا نہیں ہے تمام انسان امن چاہتے ہیں خوشحالی چاہتے ہیں انھی مقاصد کے لیے عوام نے ٹرمپ کو منتخب کیا ہے۔ کیا ٹرمپ عوام کے مقاصد اور عوام کی خواہشات پوری کر رہا ہے؟ کیا دوبارہ مذاکرات سے امن اور خوشحالی کے مقاصد پورے ہوں گے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔