جھمکا گرا رے…کے بازار میں

سعد اللہ جان برق  جمعـء 15 مارچ 2019
barq@email.com

[email protected]

مزہ آیا اس دن ایک زمانے کے بعد ’’سادھنا شیوداسانی‘‘ کی مشہور فلم سایہ دیکھی۔ کیا فلم ہے، پہلے ہم اکثر اس وقت دیکھتے تھے جب سادھنا زندہ تھی اور ہمارے ذہن میں اس کی وہی تصویر تھی جوفلم’’سایہ‘‘ میں تھی خاص طور پر یہ گانا:

میرا جھمکا گرا رے بریلی کے  بازار میں

میرا جھمکا

اس سے پہلے ہم جانتے بھی نہیں تھے کہ جھمکا کیا ہوتا ہے۔ ہو گا کوئی زیور؟ اور زیوروں کے  بارے میں ہمارا نظریہ یہ ہے کہ یہ بچاری عورت جسے زیور سمجھتی ہے یہ دراصل اگلے زمانوں میں بادشاہ اور طاقتور لوگوں کی رجسٹریشن مہریں ہوا کرتی تھیں، اپنے نام پر مستقل رجسٹر کرنے کے لیے وہ لوگ عورت کے کان، گلے، ناک، ہاتھ یا انگلی یا پیروں میں اپنی نشانی پہناتے تھے جس طرح عرب لوگ اپنے اونٹوں پر اپنا اور اپنے قبیلے کانام دغواتے تھے۔

لیکن زمانے کے ایک طویل دور میں عورت نے جو ہے تو وہی جو بنائی گئی ہے لیکن ہم وہ نام نہیں لے سکتے ہیں تو اس نے رجسٹریشن مہروں کو زیور اور گہنے سمجھنا شروع کر دیے۔ لیکن جھمکا اور پھر سادھنا کا جھمکا اور جو بریلی کے بازار میں گر بھی گیا تھا، اس نے ہمارے دل میں ایک خاص جگہ بنا لی۔ یہاں تک کہ ہم پھر کسی عورت کا چہرہ دیکھنے سے پہلے جھمکا دیکھنے کی کوشش کرتے تھے حالانکہ اس سے پہلے ایسا نہ تھا اور یہ ’’تبدیلی‘‘ صرف سادھنا اور اس کے جھمکے اور گرنے کی وجہ سے آئی تھی اور تبدیلی تو آپ جانتے ہیں کسی بھی وجہ یا شکل میں آ سکتی  تھی اور یہاں تو سادھنا شیوداسانی تھی اور اس کا جھمکا تھا جو بریلی کے بازار میں گرا تھا۔

سادھنا شیوداسانی مدھوبالا کے بعد ہماری دوسری فیورٹ اداکارہ تھی بلکہ ایک گونہ اپنائیت کے احساس سے بعض اوقات مدھوبالا سے بھی آگے نکل جاتی تھی کیونکہ وہ کراچی کی ’’جم پل‘‘ تھی۔ پیدا کراچی میں ہوئی تھی اور چمکی بمبئی میں تھی۔ اس کا صرف حسن ہی لاجواب نہیں تھا بلکہ اس کا ایک مخصوص ہیئراسٹائل بھی تھا جو پورے خطے میں خواتین کا سب سے مقبول ہیئر اسٹائل تھا اور اسی کے نام سے مشہور بھی تھا سادھنا ہیئر اسٹائل۔

فلم سایہ کی کہانی بھی بڑی لاجواب تھی، اس میں سادھنا نے دو رول بھی بڑے غضب کے نبھائے تھے۔ ایک گلی کوچوں کی ایک بنجارن یا ڈاکو لڑکی کا رول تھا اور ایک اونچے خاندان کے ایک وکیل کی بیوی کا رول تھا۔ کہانی بہت ہی دردناک اور دل کو چھونے والی بھی تھی۔ اس کے گانے بھی مثلاً تو جہاں جہاں چلے گا میرا سایہ ساتھ ہو گا۔ اور پھر یہ غضب کا جھمکا گرا رے۔

کہانی کچھ یوں تھی کہ دو جڑواں بہنیں تھیں۔ ایک کو بچپن میں ڈاکووں نے اغوا کرکے ڈاکو بنایا تھا اور دوسری ایک مالدار اور مشہور وکیل کی بیوی بن گئی تھی، وکیل سنیل دت تھا۔ ایک دن وہ کہیں باہر گیا تھا کہ بیوی کے اچانک مرنے پر واپس آگیا۔ اس کی بیوی نمونیے سے مری تھی۔ سنیل دت اس غم کے پہاڑ سے نبرد آزما تھا کہ اطلاع ملی کہ ایک لڑکی اس کی بیوی ہونے کی دعویدار ہے۔ اس نے لڑکی کو دیکھا تو شکل وصورت وہی تھی لیکن وہ تو اپنی بیوی کا کریاکرم اپنے ہاتھوں کر چکا تھا، اس عورت کو بیوی کیسے مان لیتا۔

مقدمہ عدالت میں شروع ہو گیا۔ سنیل دت اسے بیوی ماننے کو تیار نہیں جب کہ وہ ساری نشانیاں ٹھیک ٹھیک بتا رہی تھی جن سے سنیل دت انکار نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ ماننے کو تیار نہیں کہ اپنی بیوی کو تو اس نے اپنے ہاتھوں سے جلایا تھا۔ اس لیے یہ کوئی عیار اور چالاک ’’بہروپن‘‘ ہے۔ مقدمے کے دوران سادھنا نے جو کمال کی المیہ اداکاری کی ہے۔ وہ لوگوں کو رلا کر رکھ دیتی ہے۔ کہانی کا تجسس آخر تک برقرار رہتا ہے۔ کہ شوہر اسے بیوی ماننے سے انکاری ہے اور وہ ایسے ثبوت پیش کرتی ہے جو بیوی کے سوا اور کوئی نہیں بتا سکتا۔ پھر وہ چشم دید گواہ جنہوں نے اسی عورت کو گاؤں میں وہ جھمکے والا گانا ایک ’’بنجارن‘‘ کے روپ میں گاتے دیکھا تھا۔ مقصد گاؤں کے لوگوں کو اکٹھا کر کے لوٹنا تھا ۔ جھمکا گرا  رے پر وہ زبردست ناچ بھی دکھاتی ہے جس کے خاتمے پر ڈاکو آ کر لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں۔

وکیل شوہر اور گواہوں کا اصرار ہے کہ یہ وہی ڈاکو بنجارن ہے جو اپنے ہمشکل ہونے کا فائدہ اٹھا کر ایک مالدار وکیل کی بیوی بننا چاہتی ہے لیکن بیوی کا اصرار ہے کہ وہ ہی اصل وکیل کی بیوی ہے اور کوئی بنجارن یا ڈاکو نہیں ہے۔

معمہ آخر کھلتا ہے کہ ایک رات وہ جھمکا گانے والی لڑکی ڈاکووں سے بھاگ آئی لیکن اسے شدید نمونیہ ہو گیا اور نمونیے اور بخار کی حالت میں وہ اپنی جڑواں بہن یعنی وکیل کی بیوی کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ بہن اس کی حالت دیکھ کر دوا لینے جاتی ہے وہاں ڈاکو اسے اپنی ساتھی سمجھ کر اٹھا لے جاتے ہیں۔ اور ادھر دوسری بہن اپنی جڑواں بہن کے بستر میں مر جاتی ہے جسے وکیل کی بیوی سمجھ لیا جاتا ہے۔ آخر میں ایک ڈاکو پکڑا جاتا ہے جو اس بنجارن لڑکی کا عاشق تھا۔ کچھ راز وہ کھول دیتا ہے اور کچھ وکیل کی بیوی اپنے کمرے میں خفیہ طور پر رکھے ہوئے بنجارن کے کپڑے اور نشانیاں نکال کر دکھا دیتی ہے اور یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وکیل کی بیوی کے بستر پر اور اس کے لباس میں مرنے والی وکیل کی بیوی نہیں بلکہ اس کی جڑواں بہن تھی۔

یہ تو کہانی اور سادھنا کے ڈبل رول کا قصہ ہوا۔ لیکن کہانی کی جان وہ جھمکا گرا رے والا گانا ہے۔ جب وہ شوخ و چنچل لڑکی وہ گانا عوام کے جمگٹھے میں گاتی ہے تو اس میں ایک ڈرامہ بھی ہوتا ہے۔ وہ تو میرا جھمکا۔ جھمکا گرا رے۔۔ بریلی کے بازار میں گا دیتی ہے لیکن یہ جھمکا کسی ایک مقام یا جائے واردات پر نہیں گرتا۔ وہ کہتی ہے کہ محبوب میرے لیے جھمکا لایا اور کہا کہ۔ آؤ جھمکا میں پہناؤں گوری۔ اس پر میں نے کہا نا نا ناکر زورازوری۔۔ اور یہیں پر تماش بینوں میں سے کوئی بولتا ہے۔ پھر کیا ہوا؟

اس پر وہ کہتی ہے۔ پھر جھمکا گرارے ہم دونوں کی تکرار میں۔ اس طرح نئی نئی سچویشن کری ایٹ کرتی ہے اور جواب آتا ہے کہ پھر کیا ہوا۔ تو۔ پھر جھمکا گرا رے۔آخر میں

گھر کی چھت پر ہیں کھڑی گلی میں دلبر جانی

اس نے کہا تو نیچے آ۔ تو نیچے آ دیوانی

پھر کیا ہوا؟۔ پھر جھمکا گرا ہم دونوں کے اس پیار میں مطلب سارے قصے کا یہ ہے کہ ’’جھمکا‘‘ تو محض ایک سیاسی بیان ہے اصل ’’معاملات‘‘ وہ ہوتے ہیں جن میں ’’جھمکا‘‘ گرتا ہے۔ سیاست اس میں یہ ہے کہ سب کچھ تو ’’ہم دونوں‘‘ کرتے ہیں چوراچوری اور سینہ زوری لیکن سارا الزام ’’جھمکے‘‘ پر لگایا جاتا ہے حالانکہ ’’جھمکا‘‘ بچارا تو معصوم ہوتا ہے ،کہیں بھی گر سکتا ہے۔ بریلی کے بازار میں۔ یا تکرار میں یا پیار میں بلکہ یہاں تک کہ وہاں بھی گر سکتا ہے، جھمکے کا کوئی کردار ہی نہیں ، بس میں یا ریل میں یہاں تک کہ کسی مزار پر بھی گر سکتا ہے۔ اصل چیز وہ ’’کیوں‘‘ ہے کہ کیوں گرا۔ بلکہ کچھ اور وضاحت کے لیے ’’کیسے گرا‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے اور پھر سب سے اہم سوال کہ گرنے کے بعد چلا کہاں گیا۔ جھمکے کے پیر تو ہوتے نہیں یقیناً کسی نے اس پر ’’پیر‘‘ رکھ دیا ہو گا۔ اور باقی رہ گیا جھمکا گرا رے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔