موت اٹل ہے!

طیّبہ شیریں  جمعـء 15 مارچ 2019
’’ اور یہ دنیاوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ فوٹو: فائل

’’ اور یہ دنیاوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ فوٹو: فائل

ہر جان دار نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اس کا وقت اور جگہ بھی مقرر ہے لیکن آج کل ہم دین کو چھوڑ کر صرف دنیا کمانے میں لگ گئے ہیں۔

آج ہم موت کے تیاری نہیں کرتے، موت کو یاد نہیں کرتے۔ موت تو ایک اٹل حقیقت ہے جو آکر ہی دم لے گی۔ کسی بھی وقت موت کا فرشتہ آپہنچے گا۔ اس وقت ہمارے پاس سوائے افسوس کے کچھ نہ ہوگا۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں، مفہوم: ’’ اور یہ دنیاوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘

’’ دنیاوی زندگی کا فائدہ آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، مگر بہت تھوڑا۔‘‘ موت کی یاد دلوں کو نرم کر دیتی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ تم چاہے کہیں بھی ہو، وہیںموت تم کو آجائے گی۔

مومن کی شان یہی ہے کہ وہ کثرت سے موت کو یاد کیا کرتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہو آخرت کی تیاری کے لیے ہر وقت فکر مند رہتے ہیں۔

حضرت انسؓ فرماتے ہیں، ’’سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ جو لذتوں کو توڑنے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرے گا تو اس پر وسعت ہوگی (یعنی اس کو طبعی سکون حاصل ہوگا کہ موت کی سختی کے مقابلے میں ہر سختی آسان ہے) اور اگر عافیت اور خوش حالی میں موت کو یاد کرے گا تو یہ اس پر تنگی کا باعث ہوگا۔‘‘ یعنی موت کی یاد کی وجہ سے وہ خوشی کے زمانے میں بھی آخرت سے غافل نہ ہوکر گناہوں کے ارتکاب سے بچا رہے گا۔

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب آدمی فوت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہوجاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے۔ ایک صدقۂ جاریہ کا، دوسرے اس علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرے نیک بخت اولاد کا جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘

انسان جتنی بھی طویل عمر پالے، اسے اس جہان فانی سے ایک نہ ایک دن کُوچ کر جانا ہے۔ جب موت نے زندگی کا دروازہ کھٹکھٹانا ہے انسان کو اسی لمحے اس زندگی کا ہاتھ چھوڑ کر موت کو گلے لگانا اور موت کے ساتھ چلے جانا ہے۔

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’ تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے، کیوں کہ وہ اگر آدمی نیک ہے تو شاید وہ زیادہ نیکی کرے (یعنی اس کے نیک اعمال میں اضافہ ہو جائے) اور اگر وہ شخص بُرا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ شخص برائی سے توبہ کرلے (بہ ہر حال اس شخص کے واسطے زندہ رہنا بہتر ہے) یعنی موت کو یاد تو رکھے مگر موت کی تمنا نہ کرے۔ مطلب موت کے لیے دعا نہ مانگے، یہ گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ تم لوگ مرنے کے واسطے دعا نہ مانگا کرو اور نہ تم موت کی تمنا کرو اور اگر تم ضروری دعا مانگنا چاہو تو تم اس طرح سے دعا مانگو، اے اللہ! مجھ کو اس وقت تک زندہ رکھنا کہ جب تک میرے واسطے زندگی بہتر ہو اور مجھ کو اس وقت موت دینا جب میرے واسطے موت بہتر ہو۔‘‘

ہم ہر لمحے اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ سال، مہینے اور دن گزرنے پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری عمر اتنی ہوگئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایام ہماری زندگی سے کم ہوگئے۔ موت سب چیزوں سے زیادہ ہول ناک ہے کیوں کہ اس کے بعد کچھ نہیں رہ جاتا۔ دانش مند دُور اندیش اور عقل مند وہی ہے جو ہمیشہ دائمی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہے اور ہمیشہ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچالے۔ نفس اور شیطان انسان کو گناہوں پر آمادہ کرنے کے لیے اس چند روزہ زندگی پر مطمئن کرکے آخرت کی لازوال زندگی کو برباد کرنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے انسان موت کو یاد نہیں کرتا اور وہ آخرت کے لیے نیک اعمال کرنے میں سستی کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔