بی بی سی اردو سروس کے سرکردہ براڈ کاسٹر وقار احمد انتقال کر گئے

ایکسپریس ڈیسک  جمعـء 15 مارچ 2019
تاریخ دان تھے، کئی برس جامعہ کراچی میں پڑھاتے رہے، 50ء کی دہائی میں بی بی سی سے وابستہ ہوئے۔ فوٹو: فائل

تاریخ دان تھے، کئی برس جامعہ کراچی میں پڑھاتے رہے، 50ء کی دہائی میں بی بی سی سے وابستہ ہوئے۔ فوٹو: فائل

 کراچی:  برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی اردو سروس کے سرکردہ براڈکاسٹر وقار احمد گذشتہ روز لندن میں انتقال کرگئے۔

وقاراحمد نے بی بی سی اردو سروس کے حالات حاضرہ کے پروگرام ’’سیربین‘‘ کو بام عروج پر پہنچایا۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں اس پروگرام کو ان کی جاد و اثر آواز میں سننے کے لیے لوگ بے تاب رہا کرتے تھے۔

وقار احمد جیسے لوگ اب بہت مشکل سے ملتے ہیں۔ بہت تیز ذہن جس میں معلومات کو جذب کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہو اور ان معلومات سے برجستہ نتیجہ اخذ کرنے کا ملکہ ہو۔ زبان پر ایسا قابو کہ ہر لفظ نپا تلا ادا ہو رہا ہو۔ سننے والے کے کانوں میں قطرہ قطرہ الفاظ ٹپکانے والا لہجہ۔ وقار احمد تاریخ دان تھے۔

لکھنؤ کرسچیئن کالج، علی گڑھ یونیورسٹی، الہ آباد یونیورسٹی اور آخر میں یونیورسٹی آف لندن سے پولیٹیکل سائنس اور تاریخ کے مضامین کی ڈگریاں لینے کے بعد کئی برس وہ کراچی یونیورسٹی میں تاریخ پڑھاتے رہے تھے اور پھر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز سے وابستہ رہے۔ 50ء کی دہائی میں بی بی سی نے تازہ تازہ ہندوستانی سروس کا چولا اتار کے دو سیکشن بنا دیے تھے۔

انڈین سیکشن اور پاکستان سیکشن۔ بی بی سی پاکستان سیکشن میں اسٹاف کے علاوہ طلبا میں زیادہ تر وہ تھے جنھوں نے بعد میں پاکستان میں بڑا نام کمایا۔ وقار احمد بھی انھی طلبا کی صف میں شامل ہو گئے اور کچھ ہی دنوں کے بعد باقاعدہ اسٹاف میں شامل کر لیے گئے۔

چند سال بی بی سی میں کام کرنے کے بعد وقار احمد کراچی چلے گئے۔ کراچی یونیورسٹی میں تدریس میں مصروف رہے۔ اسی زمانے میں 1970 کے وہ تاریخ ساز قومی انتخابات ہوئے جن میں ذوالفقار علی بھٹو کا ڈنکا بج رہا تھا اور ان انتخابات کے نتائج ٹی وی پر پیش کرنے والوں میں وقار احمد اور اطہر علی تھے۔

فروری 1971 میں وہ دوبارہ بی بی سی میں آگئے اور اب وہ دور شروع ہوا جس میں ایک جانب اردو نشریات میں بی بی سی نے وہ نام پیدا کیا جس کی نظیر نہ پہلے ملتی ہے نہ اس کے بعد۔ 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ نے اردو سننے والوں کے دلوں پر بی بی سی کی نشریات کا سکہ جما دیا تھا۔ یہ بین الاقوامی حالاتِ حاضرہ کا پروگرام تھا اور اس دن کی خبروں پر منحصر خبریں اپنا مقام حاصل کرتی تھیں۔

وقار الفاظ کے جادوگر تھے۔ وہ مراسلے کو بھی اتھارٹی بخش دیتے تھے۔ یہ بات ریڈیو اور مائیکروفون تک محدود نہیں تھی۔ برصغیر کے چھوٹے بڑے کسی بھی ملک میں اگر کوئی قابلِ ذکر واقعہ ہوتا تو نیوز روم کے لوگ مشورے کے لیے اردو سیکشن میں آتے اور وقار احمد سے مشورے کیے جاتے تھے۔

وقار احمد کی وجہ سے 1970 اور 80 اور 90 کی دہائیوں میں اس ایک چھوٹے سے ادارے نے جس میں 15، 20 سے زیادہ کام کرنے والے نہیں تھے، جو ہندوستان پاکستان سے 5 ہزار میل دور تھے آج کل کی طرح ٹیلی فون وغیرہ کی سہولت بھی موجود نہیں تھی، اس ادارے نے وہ شہرت اور وہ مقام حاصل کر لیا تھا جس کو دیکھ کے سارے بیرونی نشریاتی ادار ے حیران بھی تھے اور اس کی نقل بھی کرنا چاہتے تھے۔

وقار احمد عام زندگی میں بھی بہت رکھ رکھاؤ کے آدمی تھے۔ ہر ایک سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ فیض صاحب سے انھیں خاص طور پر قربت حاصل تھی۔ وقار احمد نے پسماندگان میں اہلیہ، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں چھوڑیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔