جنگیں اور بھی تباہ کُن ہونے کو ہیں

سید بابر علی  اتوار 17 مارچ 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

ایک دور تھا جب جنگیں نیزوں اور تلواروں سے لڑی جاتی تھیں، پھر وقت کے ساتھ ساتھ جنگی طریقۂ کار بھی تبدیل ہوتا گیا۔

آتشیں ہتھیاروں، جنگی جہازوں، ٹینکوں کے بعد ایک جنگیں محض ایک بٹن پر سمٹ آئی ہیں۔ وہ بٹن ایٹمی ہتھیاروں کو آپریٹ کرنے والا بٹن ہے۔ ماہرینِ حرب اب مستقبل میں ہتھیاروں کی کم سے کم وقت میں زیادہ ہلاکت خیزی بڑھانے پر غور کر رہے ہیں۔

دنیا بھر کا ہر ملک چاہے اس کے عوام کے پاس کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی نہ ہو، پینے کے لیے صاف پانی نہ ہو، رہنے کے لیے گھر نہ ہو، لیکن اس کا دفاعی بجٹ تعلیم اور صحت سے کئی گنا زیادہ ہوگا۔ ہر ملک اپنے حریف ملک پر دفاعی برتری کے حصول کے لیے دن رات کوشاں ہے، کچھ ممالک مصنوعی ذہانت کو جنگی میدان میں لانے کے لیے تحقیق کر رہے ہیں تو کچھ ممالک اپنے روایتی ہتھیاروں کو زیادہ سے زیادہ تباہ کن بنانے پر کام کر رہے ہیں۔

اپنے حریف کو زیر کرنا ازل سے انسانی جبلت کا خاصہ رہا ہے، لیکن ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی تیز رفتار ترقی نے دفاعی ماہرین کے سوچنے سمجھنے کے انداز بھی بدل دیے ہیں۔ گذشتہ ایک دہائی میں حربی ہتھیاروں پر جتنی تحقیق کی گئی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز نے دنیا بھر کے ممالک کی اولین ترجیح دفاع کو بنا دیا۔

حریف پر سبقت پانے کی خواہش میں ہی امریکا نے جاپان پر ایٹمی حملہ کیا جس کے نتائج دنیا آج تک بھگت رہی ہے ، لیکن بنی نوع انسان نے اس ہلاکت خیزی سے سبق سیکھنے کے بجائے ایٹمی ہتیھاروں کے حصول کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک چھوٹے سے چھوٹا ملک بھی جوہری توانائی کے حصول میں پاگل ہوا جا رہا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی اس دوڑ میں ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک بھی شامل ہیں، جب کہ پاکستان اور بھارت نے بھی اپنی ایٹمی طاقت کے ذریعے خطّے میں طاقت کا توازن قائم کر رکھا ہے، لیکن چُوں کہ ایٹم بم وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا ہتھیار ہے۔

لہٰذا ایٹمی طاقت رکھنے والا کوئی بھی مُلک اسے استعمال کرنے کا خطرہ مول لینے پر آمادہ نہیں۔ ایٹم بم نہ صرف دشمن مُلک کو ہدف بناتا ہے، بلکہ اسے استعمال کرنے والے مُلک کے تاب کاری کے زد میں آنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ نیز، حملے کی زد میں آنے والے مُلک کے گرد و پیش میں واقع ممالک کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ ایٹم بم کی ایجاد نے اگرچہ ترقی یافتہ ممالک کو تو جنگوں کے خطرات سے دور کردیا ہے لیکن شام، افغانستان، یمن اور دیگر عرب خطوں میں ہونے والی خانہ جنگی نے ہتھیاروں کی صنعت کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔

آج دنیا بھر کی طاقتیں ایٹمی جنگ کے خلاف تو ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کو سپر پاور سمجھنے کے لیے کسی صورت تیار بھی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر چین اور رُوس دونوں ہی امریکا کو واحد سُپرپاور تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور یہ دونوں ممالک اپنی اپنی جنگی استعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔ چین اور رُوس اپنی جنگی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے نہ صرف بجٹ کا بہت زیادہ حصہ خرچ کر رہے ہیں بلکہ دوسرے دوست ممالک کے ساتھ جنگی معاہدے بھی کر رہے ہیں۔ چین و اسرائیل اور رُوس و اسرائیل کے مابین فوجی تعاون کے معاہدے اس کی واضح مثال ہیں۔

ایٹمی جنگ سے بچنے سے کے لیے بہت سے ممالک میدانِ جنگ میں براہِ راست ایک دوسرے کے مدِمقابل آئے بغیر ہی پراکسی وارمیں مصروف ہیں۔ اس قسم کی جنگ کو ’’ہائبرڈ وار فیئر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرین حرب کے مطابق اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فوجی، اقتصادی، سفارتی، جاسوسی اور کسی حد تک مجرمانہ سرگرمیوں کے مشترکہ استعمال کے لیے بھی ہائبرڈ وارفیئر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں جوہری ہتھیار ’’دہشت کا توازن‘‘ قائم کرنے میں کام یاب رہے ہیں تاہم پھر بھی پاکستان بھارت، امریکا اور رُوس، چین اور امریکا اور شمالی کوریا اور امریکا بھی ایک دوسرے کو ایٹمی حملے کی دھمکی دینے سے نہیں چوکتے۔ جیسا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا اور ایران کو ایٹمی ہتھیاروں سے تباہ و برباد کرنے کی دھمکیاں دیں۔ دوسری جانب روسی صدر ولادیمر پیوٹن بھی وقتاً فوقتاً حریف ممالک کو ایٹمی ہتھیاروں کی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔

عالمی طاقتوں کے درمیان ’’دہشت کا توازن‘‘ برقرار ہونے کے باوجود رُوس، چین اور امریکا زیادہ سے زیادہ جدید جوہری ہتھیار تیار کرنے میں مصروف ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ امریکا گذشتہ 10برس سے ایسے ہتھیار تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ جن کی مدد سے وہ جوہری حملہ کیے بغیر ہی دشمن کے جوہری اثاثوں کو تباہ یا ناکارہ کر دے۔ یہ سسٹم روایتی بم کو ہائپر سونک رفتار (آواز سے پانچ گُنا زیادہ رفتار) سے ہدف تک اس انداز سے پہنچا کر انتہائی منظّم دفاعی نظام کو بھی ناکارہ بنا دیتا ہے۔

اس سسٹم کو اپ گریڈ کر کے دہشت گردوں، ایٹمی تنصیبات اور دشمن کے کنٹرول اینڈ کمانڈ سسٹم کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ چین اور رُوس کو اس امریکی منصوبے پر شدید تحفظات ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں امریکا کے اس نظام سے سے خطے میں طاقت کا توازن بُری طرح بگڑ سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، جوہری نظام کو تباہ کرنے کا ایک طریقہ ’’قاتل روبوٹس‘‘ بھی ہیں، جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے کام کرتے ہیں۔

اگرچہ یہ ابھی ابتدائی شکل میں ہیں، لیکن ڈرونز کی شکل میں ان کی افادیت و اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ روبوٹس صرف ایک بٹن دبانے پر انسانوں کا قتلِ عام کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس داں ان کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جن میں اسٹیفن ہاکنز جیسے عالمی شُہرت یافتہ سائنٹسٹ بھی شامل تھے۔ پھر ایک بڑا چیلینج یہ بھی ہے کہ اس قسم کی ٹیکنالوجی سِول سیکٹر میں بھی ترقّی کر رہی ہے۔

جس پر حکومتوں کا کنٹرول نہیں۔ امریکا میں تو پینٹاگون اس ٹیکنالوجی کو اپنے زیرِانتظام لینے کا منصوبہ بنا چُکا ہے، لیکن باقی ممالک میں ایسا ممکن نہ ہو گا۔ لہٰذا، فی الوقت اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی کہ مستقبل میں جنگوں کے دوران ایسے ہتھیاروں کے کیا اثرات مرتّب ہوں گے۔ البتہ یہ بات یقینی ہے کہ جنگ میں سب سے پہلے اخلاقی اقدار اور انسانی جانیں ہی ہدف بنتی ہیں اور فتح کے حصول کی خاطر سب کچھ جائز ہو جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا مستقبل کی جنگوں میں ان عوامل پر قابو پانا ممکن ہو گا۔

سرد جنگ کے زمانے میں ایم ون ٹینک، اور اپاچی ہیلی کاپٹر کو کو جدید ترین جنگی ہتھیار تصور کیا جاتا تھا لیکن اب دنیا ان سے کئی گنا آگے نکل چکی ہے۔ امریکی افواج پہلے ہی ہتھیاروں کی دوڑ میں دوسرے ممالک سے آگے ہیں، لیکن امریکا کی اولین ترجیح خود کو ہائی ٹیک روسی اور چینی فوج سے نبزد آزما ہونے کے لیے جدید سے جدید تر ہتھیار بنانا ہے۔

اور یہی وجہ ہے کہ امریکی فوج میزائلوں اور ٹینکوں میں جدید سے جدید نظام لا رہی ہے۔ امریکا کی طرح ہر حکومت کی خواہش ہے کہ وہ ہتھیاروں کی اس دوڑ میں اپنے حریف ملک پر سبقت لے جائے۔ اسی دوڑ نے سرد جنگ کے زمانے میں جدید کہلائے جانے والے ابرام ٹینک اور اپاچی ہیلی کاپٹرز کو آہستہ آہستہ جنگی میدان سے خارج کردیا ہے اور اب ان کی جگہ جدید اور زیادہ ہلاکت خیز ہتھیاروں کی نئی جنریشن لے رہی ہے۔

آنے والے چند برسوں میں میدان جنگ کا نقشہ یکسر بدل چکا ہوگا، جس میں انسانی جانوں کے ضیاع کو کم سے کم کرنے کے لیے زیادہ بہتر ٹیکنالوجی پر کام کیا جا رہا ہے۔

اسی کی دہائی تک دنیا کے بیشتر ممالک کی افواج زمینی لڑائی کے لیے ایم ون ابرام ٹینک اور ایم ٹو بریڈلی جنگی لڑاکا گاڑیوں پر انحصار کرتی تھی۔ کئی سالوں تک ان دونوں کے ڈیزائن کو جدید دور سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے اپ گریڈ کیا جاتا رہا۔ یہ ایم ون اور ایم ٹو ٹینک سوویت ٹینکوں کا راستہ روکنے کے لیے تو موثرتھے لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں محدود پیمانے پر ہونے والی خانہ جنگی اور انسداد بغاوت کے لیے انہیں موثر طریقے سے استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی محکمۂ دفاع نے اپنی افواج کے لیے ایسی فوجی گاڑیاں بنانے کے منصوبے پر کام کا آغاز کیا جو چھوٹے مقامات پر ہونے والی جنگوں کے ساتھ امریکا کے حریف ممالک امریکا اور روس کے خلاف جنگ میں بھی بھرپور طریقے سے استعمال کی جاسکیں۔

امریکی فوج کے اس ’نیکسٹ جنریشن کومبیٹ وہیکل‘ پروگرام کا مقصد اکیسویں صدی کے چیلینجز سے نمٹنے کے لیے ٹینک، انفینٹری فائٹنگ وہیکلز، سیلف پروپیلڈ گنز اور روبوٹ ٹینک کی تیاری ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع نے اس مقصد کے لیے کئی ڈیزائن تیار کیے ہیں جن میں بی اے ای سوئیڈش سی وی نائنٹی انفینٹری کیریئر بھی شامل ہے۔

امریکا کے محکمۂ دفاع کے مطابق وہ گذشتہ چار دہائیوں کی ٹیکنالوجی کو ایک گاڑی میں سمو دینا چاہتے ہیں۔ اینٹی ٹینک میزائیل کو روکنے کے موثر حفاظتی نظام اور ٹیکٹیکل نیٹ ورک کے ساتھ ڈرون بھی اس گاڑی کے نظام کا حصہ ہوں گے۔ امریکا کی ’ڈیفینس ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی‘ بھی مستقبل کی فوجی گاڑی کے منصوبے ’گراؤنڈ ایکس وہیکل ٹیکنالوجیز‘ پروگرام پر کام کر رہی ہے۔ اس منصوبے کے تحت تیار کی جانے والی گاڑی(GXV-T) کو موجودہ فوجی گاڑیوں سے وزن میں نصف کرنے کے ساتھ اس میں افادی قوت کا استعمال بھی پچاس فی صد تک کم ہوجائے گا۔ یہ گاڑیاں موجود گاڑیوں کی نسبت سو گنا زیادہ رفتار سے دشوار اور تنگ راستوں تک 95فی صد رسائی حاصل کرنے اور دشمن کی نظروں سے ممکنہ حد تک اوجھل رہنے کی خصوصیات کی حامل ہوگی۔

امریکی فضائیہ کو مزید طاقت ور بنانے کے لیے حرکت پذیر مختصر مدتی فضائی دفاع کے لیے ایک نظام (MSHORAD) کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے۔ امریکی فضائیہ چینی اور روسی ہائی ٹٰیک ڈروں طیاروں، ہیلی کاپٹر اور جنگی جہازوں سے نمٹنے کے لیے زمینی فوج کے ساتھ ہم آہنگی رکھنے والے جدید میزائل کی تیاری پر بھی کام کر رہی ہے۔

’اسٹاپ گیپ سلوشن‘ کے نام سے شروع ہونے والے اس منصوبے کے تحت تیار ہونے والے اسٹنگر اینٹی ایئر کرافٹ میزائیلوں کو ہلکی فوجی گاڑی اسٹرائیکر پر سے بہ آسانی فائر کیا جاسکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہٌ دفاع اسٹرائیکر پر ’ڈائریکٹڈ انرجی ویپنز‘ سے لیس لیزر ٹیکنالوجی بھی نصب کرنے کا منصوبہ بندی کر رہا ہے، جو کہ اپنے ہدف کو میزائل کی نسبت زیادہ بہتر اور جلدی انگیج کرنے کے ساتھ ایمونیشن کے ختم ہونے کے جھنجھٹ سے بھی آزاد ہوگا۔ امریکی محکمۂ دفاع مستقبل کی جنگوں میں اپنے فوجیوں کو کم سے کم محاذ پر بھیجنے کے لیے کوشاں ہے۔

اس مقصد کے لیے وہ روبوٹ ٹینکس کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔ روبوٹ ٹینکس کا تصور سب سے پہلے سائنس فکشن فلموں میں پیش کیا گیا تھا، لیکن اب یہ ایک حقیقت کی صورت میں جلد ہی سامنے آنے والا ہے۔

امریکی فوج کے ’آپشنلی مینڈ فائٹنگ وہیکل‘ منصوبے کے تحت میدان جنگ میں امریکی فوجیوں کے ضیاع کو روکنے اور زیادہ تباہی پھیلانے والے روبوٹ ٹینکس کی تیاری پر کام جاری ہے۔ اس ضمن میں امریکی فوج نے حال ہی میں ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے روبوٹ آرمڈ پرسنل کیریئر M113 کا تجربہ کرچکی ہے۔ ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی جنگی گاڑیوں کا تصور کچھ نیا نہیں ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں روس اپنی دو بٹالین ، ’ریموٹ کنٹرول آرمڈ ٹینکس کے ساتھ داخل ہوا تھا، جب کہ نازی جرمنی نے بھی اپنی ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی والی Goliath گاڑیوں کا بھرپور استعمال کیا تھا۔ تاہم اس وقت یہ ٹیکنالوجی اتنی جدید نہیں تھی اور ان گاڑیوں کے آپریٹرز کو بھی قریب ہی رہنا پڑتا تھا۔ تاہم امریکی کے یہ جدید روبوٹ ٹینک اس خامیوں سے مبرا ہوں گے۔

جس طرح سرد جنگ میں موثر کردار ادا کرنے والے ایم ون ٹینکوں کو جدید ٹینکوں سے تبدیل کیا گیا، اسی طرح امریکی فوج اپنے بلیک ہاک اور اپاچی ہیلی کاپٹرز کو بھی ایسے جدید ہیلی کاپٹرز سے تبدیل کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے جنہیں کثیر جنگی مقاصد میں استعمال کیا جاسکے۔ امریکی محکمۂ دفاع اس مقصد کے لیے ایک منصوبے ’فیوچر ورٹیکل لفٹ ‘ پر کام کر رہا ہے۔ اس منصوبے پر کام کرنے والی ٹیم کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر جنرل والٹر روگین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تحت تیار ہونے والے ہیلی کاپٹر تیزرفتاری سے حملہ کرنے اور نگرانی کے ساتھ زمین پر موجود فوجی دستوں کو مدد بھی فراہم کرسکیں گے۔ دشمن کی نظروں سے اوجھل رہنا ہر ملک کی اولین خواہش ہے۔

اس مقصد کے لیے دنیا بھر کے سائنس داں ایک ایسا ہلکا، مُڑجانے کی صلاحیت رکھنے والا میٹریل تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے بننے والے لباس کو پہن کر دشمن کی نظروں سے اوجھل رہا جاسکے۔ اور اس مادے سے بننے والے لباس کو پہن کر دشمن کے قریب تر جانے، حملہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھایا جاسکے۔ ایک کینیڈین کمپنی نے حال ہی امریکی اور کینیڈین افواج اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی پولیس کے لیے ایسے مادے سے بنے چوغے ’ہائپر اسٹیلتھ ‘

کا مظاہرہ کیا ہے جسے پہن کر وہ نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ امریکی بحریہ اپنے سمندری دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے ’الیکٹرو میگنیٹک ریل گنز‘ کی تیاری کے لیے مصروف عمل ہے۔ برقی مقناطیسیت کی خصوصیت سے لیس یہ گن بارود یا کسی ایندھن کے بغیر مقناطیسی میدان کی مدد سے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ یہ گن ساڑھے چار ہزار میل فی گھنٹہ سے 5ہزار600 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے ہدف تک پہنچتی ہے۔

الیکٹرو میگنیٹک گنز کے نظام کو پہلی بار 2005میں امریکا کے بحری تحقیق کے مرکز نے متعارف کروایا تھا۔ 2012 میں اس کی استعداد میں اضافے کے لیے موجودہ پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا۔

امریکی بحریہ کو امید ہے کہ وہ اس گن کی رینج کو 64 میگا جولز استعمال کرتے ہوئے دو سو ناٹیکل میل تک بڑھانے میں کام یاب ہوجائیں گے، لیکن اس گن سے ایک فائر کرنے کے لیے ساٹھ لاکھ ایمپیئر (کرنٹ کی اکائی) بجلی درکار ہوگی۔ اس مقصد کے لیے امریکی بحریہ کے برقی سائنس دان ایسے طاقت ور کیپیسیٹڑ (کرنٹ کو محفوظ کرنے والاآلہ) کی تیاری میں مصروف ہیں جو اتنی طاقت پیدا کر سکے۔ یاد رہے کہ امریکا کے ساتھ ساتھ چین بھی آبی جنگوں میں استعمال کے لیے الیکٹرو میگنیٹک گنز کی تیاری میں مصروف ہے اور 2012 میں وہ منگولیا کے خودمختار خطے میں اس گن کا تجربہ بھی کرچکا ہے، تاہم ابھی اس کی زیادہ تفصیلات موجود نہیں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔