سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 17 مارچ 2019
ہمیں یہ پتا نہ چل سکا آخر ’حزب اختلاف‘ نے جس رخ کو مبینہ طور پر قبلہ کیا، اُس سمت آخر ہے کیا۔۔۔؟ فوٹو: فائل

ہمیں یہ پتا نہ چل سکا آخر ’حزب اختلاف‘ نے جس رخ کو مبینہ طور پر قبلہ کیا، اُس سمت آخر ہے کیا۔۔۔؟ فوٹو: فائل

’’کتنے لگاؤں۔۔۔؟‘‘
مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی

بامحاورہ زبان، بذلہ سنجی اور سخن فہمی دلی والوں کی زندگی میں یوں رچی بسی ہے کہ دلی کی پنواڑنیں اور مینھارنیں تک زبان کے معاملے میں یکتا تھیں۔ ایک بار حضرت داغ دہلوی اپنے ساتھیوں سمیت ’’پھول والوں کی سیر‘‘ گئے۔ داغ دہلوی پان بہت کھاتے تھے۔ دوران سیر انہیں ایک نوجوان پنواڑن کی سجی سجائی دکان نظر آئی۔ لپکے اور پنواڑن سے بولے ’’بی پنواڑن! دس پان لگانا!‘‘ پنواڑن کا جنم دلی کے کوچوں میں ہوا تھا۔ اسے یہ تو پتا نہیں تھا کہ غالب کون ہے، لیکن اسے جملہ غیر فصیح لگا۔ اس نے اپنی جوتی کی نوک کو ہاتھ لگایا اور بولی ’’کیا فرمایا کتنے لگائوں۔۔۔؟‘‘

داغ دہلوی جھینپ گئے اور پنواڑن سے صحیح محاورہ سن کر پھڑک گئے اور سنبھل کر بولے ’’دس پان بنانا۔‘‘

واپس آکر انہوں نے اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کو پنواڑن کی بامحاورہ زبان کے بارے میں بتایا جس نے ایک استاد شاعر کی زبان کی اصلاح کس خوب صورتی سے بغیر تنبیہہ کے کر دی تھی۔ تب کسی نے کہا کہ ’’صحیح محاورہ اور روزمرہ کے لیے صرف عالموں اور شعرا حضرات کی محفل کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے بازاروں اور گلی کوچوں کی سیر بھی ضروری ہے۔‘‘
(رئیس فاطمہ کے کالم سے ایک دل چسپ اقتباس)

۔۔۔

خانہ پُری
ر ط م
ہمارا ’’قبلہ‘‘ ہی تو درست نہیں۔۔۔!

چھے مارچ 2019ء کو حزب اختلاف نے احتجاجی ترنگ میں آکر قومی اسمبلی کے اندر جو نماز مغرب ادا کی، اس پر حکم راں تحریک انصاف نے ایک قرارداد جمع کرائی کہ ’حزب اختلاف کا قبلہ درست نہ تھا۔۔۔!‘ جب کہ ہمیں تو لگتا ہے کہ ’قومی اسمبلی‘ کا بھی قوم کی طرح اکثر ’’قبلہ‘‘ غلط رہتا ہے۔۔۔! ویسے دوسروں کا ’’قبلہ‘‘ درست کرانے سے پہلے کم سے کم اخلاقی تقاضا تو یہ ہوتا ہے کہ اپنا ’’قبلہ‘‘ درست کر لیا جائے!‘ پتا نہیں اس طرف کسی نے توجہ دلائی یا نہیں۔

حزب اختلاف کے خلاف اس حکومتی قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ غلط قبلے سے آگاہ کرنے کے باوجود نماز پڑھنے والے ارکان نہ مانے اور غلط رخ پر ہی نماز ادا کی۔ ہو سکتا ہے، انہوں نے ایوان کے اندر اسے بھی اپنے خلاف ’حزب اقتدار‘ کی ’سازش‘ جانا ہو کہ جان بوجھ کر یہ لوگ ہمارا ’’قبلہ‘‘ بدلوا کر رخ اپنے ’’قبلے‘‘ کی طرف کرا رہے ہیں۔

ہمیں یہ پتا نہ چل سکا آخر ’حزب اختلاف‘ نے جس رخ کو مبینہ طور پر قبلہ کیا، اُس سمت آخر ہے کیا۔۔۔؟ اُس طرف کوئی ملک، کوئی مرکز، شہر یا ادارہ تو واقع نہیں؟ اگر یہ تفصیل پتا چل جاتی، تو ہی اس کے غلطی یا سازش ہونے کے بارے میں کچھ کہا جا سکتا تھا، کیوں کہ ہمیں لگتا ہے کہ بہت سے لوگوں نے ایسی ہی ’دیگر‘ جگہوں کو اپنا ’’قبلہ‘‘ مانا ہوا ہے۔۔۔

نامہ نگار کے مطابق اجلاس کے دوران عموماً اذان کے بعد وقفہ ہوتا ہے، لیکن اُس روز نہیں ہوا، جس پر جمعیت علمائے اسلام کے رکن مولانا اسعد محمود نے نماز کی امامت شروع کر دی۔ ان کے پیچھے صف میں اُن کی جماعت کے علاوہ ’ن لیگ‘ کے مرکزی اراکین احسن اقبال، خواجہ آصف، مرتضیٰ جاوید عباسی وغیرہ بھی شامل ہو گئے، علامہ اقبال نے تو کہا تھا؎

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

اتفاق سے اس ’صف‘ میں ’نواز‘ لیگ کے کچھ ارکان تو شامل ہوئے، لیکن حکومتی ارکان ساتھ کھڑے نہ ہوئے۔ لگتا یہی ہے کہ انہیں غلط ’’قبلے‘‘ پر ہی اعتراض ہوگا، ورنہ ہمیں ایوان میں علامہ اقبال کے اس شعر کی ’صورت گری‘ دکھائی دے جاتی! دراصل ’حزب اقتدار‘ اور ’حزب اختلاف‘ کے ’’قبلے‘‘ ہی تو الگ ہیں، تب ہی تو دونوں ایک دوسرے کے حریف ہیں۔

قومی اسمبلی میں اس طرح نماز کی ادائی کا واقعہ پہلی بار ہوا اور ’پہلی بار‘ والے ’ریکارڈ‘ تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ کبھی ’توڑے‘ نہیں جا سکتے۔ اب تاریخ میں جب بھی ذکر ہوگا، یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ پہلی بار پڑھی گئی نماز کا قبلہ ہی غلط تھا۔

ہماری خواتین
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ

ہماری عائلی زندگی میں عورت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ وہ پورے خاندان پر فیصلے کن اثر ڈالتی ہے۔ بچے باپ کے مقابلے میں ماں سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں اور اسے ان کی تربیت اور نگہداشت کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔ اس طرح ماں کی حیثیت سے وہ بچوں کی ذہنی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ بیوی اور بہن کی حیثیت سے بھی اس کا دائرہ کار اچھا خاصا وسیع ہے۔ خواتین اپنی سادگی، خلوص اور اچھے کردار سے مردوں پر کئی طریقوں سے اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

میرا خیال ہے کہ ہماری بہت سی سماجی خرابیاں عورتوں کی کج روی اور بے اعتدالی کی پیداوار ہے۔ اگر وہ اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو بدل دینے کا عزم کرلیں تو اس کے نتائج ہمہ گیر اور نہایت خوش آئندہ ہوں گے۔ پاکستانی عورت کی توجہ کا بنیادی مرکز گھر ہونا چاہیے، لیکن مشکل یہ آن پڑی ہے کہ ہماری جو عورتیںگھروں میں رہتی ہیں، انہیں جاہل اور دقیانوسی خیال کیا جانے لگا ہے۔ اب ہمارا معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے، ایسی عورتیں جو گھروں سے باہر نہیں نکلتی اور دوسری وہ عورتیں جو گھروں میں بالکل نہیں بیٹھیں یہ افراط و تفریط کسی صورت میں بھی ہمارے لیے مفید نہیں۔

(الطاف حسن قریشی کی تصنیف ’’ملاقاتیں کیا کیا،‘‘ میں شامل ڈاکٹر خدیجہ فیروزالدین کی گفتگو)

’گاندھی جی‘ کے بیٹے کا’مسلمان‘ ہونا
انتظار حسین

گاندھی جی کے فرزند ارجمند نے ڈنکے چوٹ پر بمبئی کی بڑی مسجد میں جا کر کلمہ پڑھا تھا۔ بمبئی کے مسلمان کتنے خوش ہوئے تھے۔ انہوں نے گاندھی جی کو خط لکھا کہ اگر پدرتنواند پسر تمام کند۔ بیٹے کی بات پر دھیان دیں اور آپ بھی مسلمان ہو جائیں۔ گاندھی جی نے کیا خوب جواب دیا۔ ذرا کان لگا کر سنیے۔ انہوں نے کہا میں اسلام کا دل سے احترام کرتا ہوں، مگر تھوڑا انتظار کر لیجیے۔ اگر میرے بیٹے کے مسلمان ہو کر بھی وہی لچھن رہے، جو ہندو ہوتے ہوئے بھی تھے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام کی تعلیمات بھی اس نالائق کو راہ راست پر نہیں لائیں۔‘ گاندھی جی سچے نکلے۔ ہوا یوں کہ اُن کا نالائق بیٹا پھر اپنے مذہب پر واپس چلا گیا اور اس طرح واپس کہ وہ ’سیوک سنگھ‘ میں بھرتی ہوگیا۔

’’خیر سگالی‘‘ یا ’’غیر سگالی‘‘؟
احمد ندیم قاسمی
بھارتی وزیر دفاع مسٹر سورن سنگھ نے کہا کہ ہم نے اپنی طرف سے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات سدھر جائیں، مگر پاکستانی لیڈروں نے ہندوستان کے خلاف ہمیشہ بہت کڑا رویہ اختیار کیے رکھا اور ہندوستان کی طرف سے خیر سگالی کے جذبات کو ٹھکرا دیا۔ ہم سورن سنگھ صاحب سے متفق ہیں کہ ہندوستان نے خیرسگالی کا ماحول پیدا کرنے میں واقعی کوئی کمی نہ کی۔

مثال کے طور پر ہندوستان کی اس پیش کش کو پیش کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کشمیر کے موضوع پر بھی پاکستان سے گفتگو و شنید کرنے کو تیار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ گفتگو و شنید صرف اس موضوع پر ہو سکتی ہے کہ اس موضوع پر کوئی گفتگو و شنید نہیں ہو سکتی۔ ظاہر ہے پاکستانی لیڈر اس معیار کی خیرسگالی کو ٹھکرا دیتے ہیں کیوں کہ اس خیرسگالی میں ’’کتابت‘‘ کی غلطی ہو جاتی ہے۔ ہندوستان کی یہ خیرسگالی دراصل ’’غیر سگالی‘‘ ہے!

ہندوستانی وزیر دفاع نے پاکستان کی طرف سے چین کے ساتھ بھی جذبات خیر سگالی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے چین کو آگاہ کیا ہے کہ تم 1962ء میں ہندوستان پر حملہ کر چکے ہو، مگر 1968ء کے ہندوستان اور 1962ء کے ہندوستان میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو چکا ہے اور تم نے ہندوستان پر حملہ کیا، تو تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

یعنی وزیر دفاع نے اعتراف کیا ہے کہ 1962ء میں خمیازہ ہندوستان ہی کو بھگتنا پڑا۔ یہ اعتراف حقیقت کا بالواسطہ اظہار ہے۔ جب کوئی کہے کہ آج جو ہوا، سو ہوا مگر کل میں تمہاری خوب خبر لوں گا، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آج تم نے میری خوب خبر لی۔۔۔! پھر سورن سنگھ نے یہ وضاحت بھی کی کہ یہ جو 1968ء اور 1962ء میں زمین اور آسمان کا فرق پیدا ہو چکا ہے، تو انہوں نے زمین کس سال کو قرار دیا ہے اور آسمان کس سال کو۔ یہاں ہمیں ایک امریکی کا لطیفہ یاد آگیا ہے کہ جب اس سے کسی دوست نے پوچھا کہ شادی کا تم پر کیا اثر ہوا تو وہ بولا ’’شادی کے بعد میں لکھ پتی ہوگیا۔‘‘ دوست نے کہا ’’بڑی خوشی کی بات ہے مگر شادی سے پہلے تم کیا تھے۔‘‘ امریکی بولا’’شادی سے پہلے میں کروڑ پتی تھا۔‘‘

انسان کی ذہنی صلاحیت

مولانا وحید الدین خان
اسٹیفن ہاکنگ 1942ء میں امریکا میں پیدا ہوئے۔ ’ایم ایس سی‘ کرنے کے بعد وہ ’پی ایچ ڈی‘ کے لیے تحقیق کر رہے تھے کہ ان پر ایک خطرناک بیماری کا حملہ ہوا۔ اپنے حالات کے ذیل میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں تحقیق کا طالب علم تھا۔ میں مایوسانہ طور پر ایک ایسے مسئلے کے حل کا منتظر تھا، جس کے ساتھ مجھے ’پی ایچ ڈی‘ کا مقالہ مکمل کرنا تھا۔ دو سال پہلے ڈاکٹروں نے تشخیص کیا تھا کہ مجھے ایک مہلک بیماری ہے۔ مجھے باور کرایا گیا تھا کہ میرے پاس اب زندہ رہنے کے لیے صرف ایک یا دو سال اور ہیں۔ ان حالات میں بہ ظاہر میرے لیے ’پی ایچ ڈی‘ پر کام کرنے کا زیادہ وقت نہیں تھا، کیوں کہ میں اتنی مدت تک زندہ رہنے کی امید نہیں کر سکتا تھا، مگر دو سال گزرنے پر بھی میرا حال زیادہ خراب نہیں ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ واقعات میرے لیے زیادہ بہتر ہوتے جا رہے تھے۔

ڈاکٹروں کے اندازے کے خلاف اسٹیفن ہاکنگ زندہ رہے۔ انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور اپنی محنت سے اتنی لیاقت پیدا کی کہ کہا جاتا ہے کہ وہ آئن اسٹائن کے بعد سب سے بڑے نظریاتی طبعیات داں قرار پائے۔ پھر وہ کیمبرج یونیورسٹی میں میتھمٹیکس کے پروفیسر رہے۔ یہ وہ کرسی ہے جو اب تک صرف ممتاز سائنس دانوں کو دی جاتی رہی ہے۔ ان کی ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ 1988ء میں چھپی، تو وہ اتنی مقبول ہوگئی کہ پہلے ہی سال اس کے 14 ایڈیشن شایع کیے گئے۔ انسان کی ذہنی صلاحیتیں اس کی ہر کم زوری کی تلافی ہیں۔ اس کا ارادہ ہر قسم کی رکاوٹوں پر غالب آتا ہے۔ وہ ہر ناکامی کے بعد اپنے لیے کام یابی کا نیا راستہ نکال لیتا ہے۔
(تصنیف ’کتاب زندگی‘ کا ایک ورق)

صد لفظی کتھا
’’مرہم‘‘
رضوان طاہر مبین

’’آپ تو غم کے ستائے ہوئوں کے زخموں پر ’مرہم‘ ہیں۔۔۔
اُن کے ’درد‘ کی ’دوا‘ بنتے ہیں۔۔۔
لیکن خود ہمیشہ تنہا رہتے ہیں۔۔۔؟‘‘
میرا سوال سن کر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’مرہم کی ضرورت گھائو کے مندمل ہونے تک رہتی ہے۔۔۔!‘‘
ایک زیرتعمیر عمارت میں چھت ڈالنے کے لیے لگے ہوئے تختوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ بولے:
’’دیکھو، جوں ہی سمینٹ کی چھٹ مضبوط ہوگی، یہ ’کھانچا‘ ہٹا لیا جائے گا۔۔۔
ہم پٹی بھی تب تک باندھتے ہیں، جب تک تکلیف ہو۔۔۔
اب خوامخواہ میں دوا، مرہم، پٹّی، یا ’لاٹھی‘ کون لیے پھرتا ہے۔۔۔!‘‘

ترتیب وتدوین:رضوان طاہر مبین
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔