اشوک کمار؛ ورسٹائل آرٹسٹ، بولی وڈ لیجنڈ

مرزا ظفر بیگ  اتوار 17 مارچ 2019
اشوک کمار کو انڈیا کے ان سدابہار اداکاروں میں شمار کیا جاتا ہے جن میں فن اور اداکارانہ مہارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ فوٹو: فائل

اشوک کمار کو انڈیا کے ان سدابہار اداکاروں میں شمار کیا جاتا ہے جن میں فن اور اداکارانہ مہارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ فوٹو: فائل

اشوک کمار انڈین شو بز انڈسٹری کی وہ بے مثال اداکار تھے جنہیں پوری انڈسٹری کے لوگ نہایت عزت اور احترام کے ساتھ ’’پرنس آف بولی وڈ ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے، گویا وہ اس فلم انڈسٹری کے ایک ایسے شہزادے تھے جن کی کوئی دوسری مثال نہیں پیش کی جاسکتی تھی۔

اشوک کمار کا پیدائشی نام کمد لال گنگولی تھا اور پوری انڈسٹری کے لوگ انہیں پیار، ادب اور احترام سے دادا منی کہہ کر بھی پکارتے تھے جس کا مطلب تھا: بڑا بھائی، وہ واقعی اس انڈسٹری کے لیے ایک بڑے بھائی کا ہی درجہ رکھتے تھے۔ اشوک کمار بلاشبہ انڈین سنیما کے بے مثال اداکار تھے جنہیں 1988میں گورنمنٹ آف انڈیا نے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازا تھا جو انڈیا کے فلمی فن کاروں کے لیے سب سے بڑا قومی ایوارڈ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے فلم انڈسٹری میں اپنے لازوال کردار کے باعث 1999میں ’’پدم بھوشن‘‘ نامی ایوارڈ بھی وصول کیا تھا۔

اشوک کمار کو انڈیا کے ان سدابہار اداکاروں میں شمار کیا جاتا ہے جن کے اندر فن اور اداکارانہ مہارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے اگر اچھے اور نیک دل انسان کے کردار ادا کرکے ساری دنیا کو حیران کردیا تو ساتھ ہی ولین یعنی برے آدمی کے کردار بھی پوری مہارت کے ساتھ ادا کرکے اپنے فن کی خوب داد سمیٹی۔ اپنی اداکارانہ مہارت اور قدرتی صلاحیت کی وجہ سے وہ اپنے زمانے میں پوری فلم انڈسٹری پر چھائے رہے اور فلم بین ان کے سحر سے باہر نہیں نکل پاتے تھے۔

٭پس منظر اور خاندان:اشوک کمار کا پیدائشی نام کمد لال گنگولی تھا اور وہ بھاگل پور کے ایک بنگالی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ اس وقت وہ علاقہ برٹش انڈیا کی بنگال پریذیڈنسی کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ آج یہ انڈیا کی ریاست بہار میں شامل ہے۔اشوک کمار کے والد کنج لال گنگولی ایک ماہر قانون تھے جب کہ ان کی والدہ گوری دیوی ایک گھریلو خاتون تھیں جن کے چار بچے تھے جن میں اشوک کمار سب سے بڑے تھے۔

اشوک کمار کی صرف ایک ہی بہن تھی، ستی دیوی جو ان سے چند سال چھوٹی تھی جس کی شادی بہت چھوٹی عمر میں سشادھر مکرجی سے کردی گئی تھی جس کے بعد وہ ایک بہت بڑے دولت مند فلمی گھرانے کی کرتا دھرتا بن گئی تھی۔ ستی سے چھوٹا بھائی کلیان تھا جو اشوک کمار سے کم و بیش 14سال چھوٹا تھا جس نے بعد میں انوپ کمار کے نام سے شہرت حاصل کی۔ سب سے چھوٹے کا نام ابہاس تھا جس کا فلمی نام کشور کمار تھا اور جو آگے چل کر انڈین فلمی دنیا کا بہت مشہور اور کام یاب گلوکار ثابت ہوا۔ اشوک کمار کو اپنے سب سے چھوٹے بھائی کشور کمار سے اتنا پیار تھا کہ 1987 میں کشور کمار کی موت کے بعد اشوک کمار نے اپنی سال گرہ منانی بند کردی تھی۔

٭کم عمری میں شادی: کمد لال یا اشوک کمار کی شادی کم عمری میں ہی ان کے ماں باپ نے شوبھا نامی لڑکی سے بڑے روایتی اور خالصتاً انڈین انداز سے کردی تھی، اس وقت تک اشوک کمار نے فلم انڈسٹری میں اپنا کیریئر بھی شروع نہیں کیا تھا۔ یہ نہایت کام یاب شادی ثابت ہوئی اور اشوک کمار نے اپنے فلمی کیریئر کے باوجود خود کو صرف اپنے کام تک محدود رکھا اور اپنی روایات کی پاس داری کی۔ پوری زندگی ان کا کبھی کوئی اسکینڈل نہیں بنا تھا۔اشوک کمار کا ایک بیٹا اروپ گنگولی تھا اور تین بیٹیاں بھارتی پٹیل، روپا ورما اور پریتی گنگولی تھیں۔

اروپ کمار نے 1962ء میں صرف ایک فلم ’’بے زبان ‘‘ میں کام کیا جو باکس آفس پر فلاپ ہوگئی جس کے بعد اروپ کمار نے تجارتی شعبے کی طرف قدم بڑھادیے اور فلمی دنیا کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔

بھارتی پٹیل اشوک کمار کی سب سے بڑی بیٹی تھی جو انورادھا پٹیل کی ماں ہے جس کی شادی کنول جیت سنگھ سے ہوئی تھی۔ اشوک کمار کی دوسری بیٹی روپا ورما معروف ایکٹر اور کامیڈین دیون ورما کی بیوہ ہے اور سب سے چھوٹی بیٹی پریتی گنگولی وہ واحد بیٹی تھی جو فلم انڈسٹری میں گئی۔ اس نے 1970 اور 1980 کی دہائیوں کے دوران متعدد ہندی فلموں میں ایک مزاحیہ ادکارہ کے جوہر دکھائے اور 2012 میں ایک سہاگن کی حیثیت سے دنیا سے چلی گئی۔

کمد لال یعنی اشوک کمار کی بیٹی بھارتی کی شادی دو بار ہوئی تھی، دونوں مرتبہ یہ محبت کی شادی تھی۔ اس نے پہلی شادی ایک گجراتی جینٹل مین مسٹر پٹیل سے کی تھی جس سے اس کی بیٹی انورادھا پٹیل پیدا ہوئی ۔ بعد میں اس نے اپنے پورے خاندان سے بغاوت کرتے ہوئے سعید جعفری کے بھائی سے شادی کی جس سے اس کی ایک بیٹی شاہین جعفری پیدا ہوئی۔ اسے اس لیے بھی شہرت ملی کہ وہ معروف ایکٹر سلمان خان کی پہلی محبت تھی۔

٭ابتدائی سال:اشوک کمار پیدا تو بھاگل پور میں ہوئے تھے، مگر ان کی تعلیم و تربیت پریذیڈنسی کالج آف دی یونی ورسٹی آف کلکتہ میں ہوئی تھی جہاں انہوں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی، مگر ان کا دل اس میں نہ لگا، کیوں کہ وہ شاید پیدائشی طور پر سنیما کی طرف مائل تھے۔ وہ اس شعبے میں ایک ٹیکنیشئن بننا چاہتے تھے۔

٭کیریئر اور زندگی: اشوک کمار کے بہنوئی سشادھر مکرجی ممبئی فلم انڈسٹری میں ایک ٹیکنیشیئن کی حیثیت سے کام کرتے تھے، چناں چہ اشوک کمار بھی اسی طرف جانے کا ارادہ کرنے لگے۔ اس دوران وہ اپنے قانون کے امتحان میں فیل ہوگئے تو گھر والوں کی سرزنش سے بچنے کے لیے وہ کچھ عرصے کے لیے اپنی بہن کے پاس ممبئی چلے گئے، یہاں تک کہ دوبارہ امتحان کا وقت آگیا۔

انہوں نے اپنے بہنوئی سے درخواست کی کہ مجھے اسی فلم انڈسٹری میں کوئی کام دلوادو، جو اس وقت بمبئی ٹاکیز کے ٹیکنیکل ڈپارٹمنٹ میں سینیر پوزیشن پر کام کررہے تھے۔

انہوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کمد لال کو بمبئی ٹاکیز میں ایک لیباریٹری اسسٹنٹ کی جاب دلوادی، اشوک کمار وہاں کام کرنے لگے اور اپنی بہن کے گھر میں رہنے لگے۔ اس دوران انہوں نے اپنے والد کو سمجھالیا کہ وہ قانون کے شعبے میں کام نہیں کرسکیں گے اور ایک لیباریٹری اسسٹنٹ کے طور پر کام یاب رہیں گے۔ ان کے والد مان گئے اور اس طرح اشوک کمار کا فلمی کیریئر حادثاتی طور پر 1936 میں شروع ہوا ورنہ وہ تو لیباریٹری اسسٹنٹ بن کر بہت خوش تھے۔

ان دنوں بمبئی ٹاکیز میں ’’جیون نیا‘‘ کی شوٹنگ جاری تھی کہ اس کے ہیرو نجم الحسن کی ساتھی اداکارہ دیویکا رانی جو اس کی بیوی بھی تھی گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ بعد میں وہ آ تو گئی مگر اس دوران فلم کا ہیرو اشوک کمار کو بنانے کا فیصلہ ہوگیا۔ حالاں کہ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ اس نوجوان (اشوک کمار) میں ہیرو والی کوئی بات نہیں ہے، مگر چوں کہ فیصلہ ہوچکا تھا، اس لیے اشوک کمار اس فلم کے ہیرو بن گئے۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز بڑے زبردست انداز سے کیا۔ انہوں نے اسی دوران ’’اچھوت کنیا‘‘ نامی فلم میں کام کیا جو اس دور کی ایک بلاک بسٹر فلم ثابت ہوئی۔

اس فلم کی کام یابی نے اشوک کمار اور دیویکا رانی کو اس دور کی کام یاب جوڑی بنادیا۔ اس کے بعد ان دونوں نے جنم بھومی، عزت، ساوتری، وچن اور نرملا میں بھی ساتھ ساتھ کام کیا، ان دونوں کی آخری فلم ’’انجان‘‘ تھی جو 1941ء میں آئی تھی اور یہ باکس آفس پر ناکام ہوئی۔ اس کے بعد اس جوڑی کا فلمی ساتھ ختم ہوگیا۔دیویکا رانی اب بھی ایک بڑی اسٹار تھی جب کہ اشوک کمار اس کے سائے میں کام کررہے تھے۔ پھر اشوک کمار نے دیویکا رانی کے سائے سے نکل کر لیلا چٹنس کے ساتھ جوڑی بنالی جو بمبئی فلم انڈسٹری کا ایک بڑا نام تھی۔کنگن، بندھن اور آزاد کے ساتھ اشوک کمار نے کام یابی کا نیا سفر شروع کیا، بعد میں لیلا چٹنس کے ساتھ ’’جھولا‘‘ میں اشوک کمار نے اپنے قدم اس انڈسٹری میں مضبوطی سے جما لیے۔

٭اشوک کمار کا 1943 سے 1950تک کا سفر: 1943 میں گیان مکرجی نے ’’قسمت‘‘ کی ہدایات دیں جس میں جس میں اشوک کمار نے پہلا اینٹی ہیرو کردار کیا اور پھر اس فلم نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس فلم نے اشوک کمار کو راتوں رات انڈین سنیما کا سپراسٹار بناڈالا۔پھر تو اشوک کمار اس دور کے سب سے مہنگے اسٹار بن گئے، ان کی فلمیں یکے بعد دیگرے کامیاب ہوتی چلی گئیں جن میں چل چل رے نوجوان، شکاری، ساجن، محل، مشعل، سنگرام اور سمادھی شامل تھیں۔اس کے علاوہ اشوک کمار نے بمبے ٹاکیز کی متعدد فلمیں بھی پروڈیوس کیں جن میں ضدی بھی شامل تھی، اس فلم نے دیوآنند اور پران کے کیریئرز کو استحکام بخشا۔ ’’نیل کمل‘‘ نے راج کپور کو ڈیبیو دیا اور ’’محل‘‘ میں اشوک کمار نے مدھو بالا کے مقابل کام کر کے اس فلم کو لازوال شہرت بخشی۔

1950 کے عشرے میں اشوک کمار نے زیادہ میچیور کردار کرنے شروع کردیے۔ اس دور کے معروف اداکاروں دلیپ کمار، دیو آنند، اور راج کپور کی موجودگی میں بھی اشوک کمار نے اپنا منفردا انداز برقرار ر کھا۔ ان کے اس دور کی مشہور فلموں میں افسانہ، نوبہار، پرینیتا، بندش اور ایک ہی راستہ شامل تھیں۔

واضح رہے کہ اشوک کمار کی اس دور کی سب سے مقبول فلم ’’دیدار‘‘ تھی جو 1951 میں آئی تھی۔ اس فلم میں اشوک کمار نے دلیپ کمار کے ساتھ سیکنڈ لیڈ کیریکٹر کیا تھا۔ اشوک کمار 1950 کی دہائی میں اکثر و بیش تر نلنی جیونت کے ساتھ متعدد فلموں میں جلوہ گر ہوئے، اس کے علاوہ انہوں نے مینا کماری کے ساتھ بھی کم بیش 20برسوں کے دوران 17فلموں میں کام کیا تھا جن میں ’’تماشہ‘‘ سے لے کر عالمی شہرت یافتہ ’’پاکیزہ‘‘ شامل تھیں۔

٭1960 اور1970 کے عشرے:اس کے بعد وہ وقت بھی آیا جب اشوک کمار نے کیریکٹر رول کرنے شروع کردیے، کبھی وہ والدین کے کردار میں دکھائی دیے تو کبھی چچا کے، کبھی انہوں نے دادا یا نانا بن کر بھی اپنی اداکارانہ صلاحیت کے جوہر دکھائے، لیکن جو کردار بھی کیا، جم کے کیا اور ہر کردار کو قبول کرتے ہوئے بہت محتاط انداز اپنایا۔ فلم ’’قانون‘‘ میں انہوں نے ایک جج کا کردار نبھایا تو ’’بندنی‘‘ میں وہ ایک عمر رسیدہ حُریت پسند کے روپ میں جلوہ گر ہوئے، ’’چترلیکھا‘‘ میں انہوں نے ایک عمر رسیدہ پادری کا کردار ادا کرکے فلم بینوں کو حیران کردیا تو ساتھ ہی فلم ’’جواب‘‘ میں انہوں نے ایک ظالم زمین دار کا رول کرکے ثابت کیا کہ وہ ایک ورسٹائل فن کار ہیں۔انہوںنے جیول تھیف، آشیرواد، پورب اور پچھم، پاکیزہ، ملی، چھوٹی سی بات اور خوب صورت میں بھی لازوال اور یادگار کردار ادا کیے۔

٭زندگی کے آخری سال اور موت:1980 اور 1990 کی دہائیوں میں اشوک کمار نے چند فلموں میں کام کیا، کبھی کبھار وہ ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کرتے رہے، جن میں سب سے مشہور ڈراما ہم لوگ تھا۔ اشوک کمار کی آخری فلم 1997 کی فلم ’’آنکھوں میں تم ہو‘‘ تھی۔ وہ ایک اداکار کے ساتھ ساتھ ایک ماہر مصور بھی تھے اور ہومیوپیتھک ڈاکٹر بھی۔ انہوں نے مجموعی طور پر 275 کے لگ بھگ ہندی فلموں میں کام کیا، جب کہ انہوں نے30سے زائد بنگالی ڈراموں میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ اشوک کمار 90برس کی عمر میں 10دسمبر2001کو ہارٹ فیل ہوجانے کے باعث ممبئی میں انتقال کرگئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔