ملکہ الزبتھ تخت سے دستبردار ہوں گی؟

ذیشان محمد بیگ  اتوار 17 مارچ 2019
برطانوی شاہی خاندان کے مستقبل پر نظر ڈالتے چند دلچسپ حقائق۔ فوٹو: فائل

برطانوی شاہی خاندان کے مستقبل پر نظر ڈالتے چند دلچسپ حقائق۔ فوٹو: فائل

اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں شاہی نظامِ حکومت پایا جاتا ہے۔ برطانیہ بھی انھی ملکوں میں شامل ہے۔

کہاوت مشہور ہے کہ دنیا کے اختتام تک اس زمین پر صرف پانچ بادشاہ باقی رہ جائیں گے، چار تاش کے اور ایک انگلستان کا۔ الزبتھ دوئم 1952ء میں انگلستان کی ملکہ بنیں اور اب اگر کوئی اس بات کی شرط لگانا چاہے کہ کیا وہ اپنے ولی عہد شہزادہ چارلس یا اپنے پوتے شہزادہ ولیم کے حق میں کبھی تخت سے دستبردار ہوں جائیں گی ؟ تو ہمارا جواب ہو گا کہ ’نہیں‘۔ آیئے اس کی وجوہات پر نظر ڈالتے ہیں کہ ایسا کیوں نہیں ہو گا۔

گزشتہ برس برطانوی روزنامے ’دی ڈیلی میل‘ (The Daily Mail) نے ایک سرخی جمائی جس میں پوچھا گیا تھا کہ ’’کیا ملکہ تخت سے دستبرداری کی تیاری کر رہی ہیں ؟‘‘ تاہم اخبار کی یہ تمام تر کہانی محض اس افواہ کی بنیاد پر تھی کہ ملکہ الزبتھ یہ منصوبہ بندی کر رہی ہیں کہ جب وہ 95 برس کی ہو جائیں گی تو سارے اختیارات شہزادہ چارلس کو منتقل کر دیں گی۔

برطانوی تاریخ واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ اختیارات منتقل کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ ملکہ یا بادشاہ تخت سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ملکہ قانونی طور پر بھی اس بات کی مجاز نہیں ہیں کہ وہ اپنے اختیارات کسی اور کو منتقل کر دیں۔ البتہ برطانوی قانون ’ریجینسی ایکٹ آف 1937‘ (Regency Act of 1937) اس بارے میں کہتا ہے کہ ایسا صرف اِس صورت میں ممکن ہے اگر مخصوص حالات اس کا تقاضا کریں۔

اگرچہ چند شاہی خاندانوں میں یہ روایت موجود رہی ہے کہ بادشاہ یا ملکہ ایک خاص عمر کو پہنچ کر تخت سے علیحدگی کا اعلان کر دیتے ہیں، جیسا کہ ہالینڈ کے شاہی خاندان میں ایسا ہوتا رہا ہے لیکن برطانیہ میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔ در حقیقت تخت سے دستبرداری کے متعلق خیال یہ کیا جاتا ہے کہ یہ عمل بادشاہت کے غیر رسمی اصولوں کے خلاف ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1936ء میں جب برطانوی شاہ ایڈورڈ ہشتم (Prince Edward VIII) نے ’والِس سیمپسن‘ (Wallis Simpson) نامی خاتون سے شادی کرنے کی خاطر تخت وتاج کو ٹھکرا دیا تھا تو ایک آئینی بحران پیدا ہو گیا تھا۔

اپنی 21 ویں سالگرہ پر ملکہ الزبتھ نے انگلستان کے عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ تاحیات اُن کی ملکہ رہیں گی۔ اپنے خطاب میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’میں آپ سب کے سامنے یہ اعلان کرتی ہوں کہ میری تمام زندگی، قطعِ نظر اس بات کے کہ وہ طویل ہو گی یا مختصر، آپ کی اور ہمارے عظیم شاہی خاندان، جس سے ہم سب تعلق رکھتے ہیں، کی خدمت کے لیے وقف ہو گی‘‘۔ اپنے عوام کے ساتھ ملکہ کا یہ بہت بڑا وعدہ تھا جسے وہ پچھلے 67 برس سے بحسنِ خوبی نبھا رہی ہیں۔

شاہی نظام کا گہری نگاہ سے مطالعہ کرنے والے ماہرین میں سے ایک ’سارہ بریڈفورڈ‘ (Sarah Bradford) جنہوں نے ملکہ الزبتھ کی زندگی پر ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس کا نام ’کوئین الزبتھ اا : ہَر لائف اِن آور ٹائمز‘ (Queen Elizabeth II: Her Life in Our Times) ہے، نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ملکہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ زندگی بھر بادشاہت کرنا اُن کی ذمہ داری بھی ہے اور فرض بھی۔ سارہ بریڈفورڈ (Sarah Bradford) نے مشہور جریدے ’دی ویک‘ (The Week) کو بتایا کہ ’’ملکہ نے تو کبھی تخت سے دستبرداری کے بارے میں سوچا تک بھی نہیں ہے‘‘۔

بہت عرصہ پہلے شاید انگلستان کے لوگوں نے یہ چاہا ہو کہ ملکہ تخت سے دستبردار ہو جائیں۔ یہ وہ وقت تھا جب شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کی پریستان کی کہانیوں کی طرح مشہور ہونے والی شادی کا ہر طرف چرچا تھا۔ دی ویک (The Week) کے مطابق 1990ء کی دھائی کے اوائل میں شہزادہ چارلس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت، دھائی کا آخر آتے آتے بتدریج گھٹتی چلی گئی تاہم وہ اپنی مقبولیت کے عروج کے وقت بھی تخت کے حصول اور ملکہ کی دستبرداری کے سلسلے میں نمایاں طور پر عوام کی بامعنی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ تازہ ترین عوامی جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ 70 فیصد لوگ چاہتے ہیں کہ ملکہ، ’پرنس آف ویلز‘ (Prince of Wales) کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے خود حکومت کرتی رہیں، جب تک وہ زندہ ہیں۔

انگلستان کے عوام کو ملکہ سے جتنی محبت ہے، بادشاہت کے لیے اُن کی چاہت اُتنی شدید نہیں، اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ملکہ کی جگہ کسی اور کو بادشاہ دیکھنا پسند کریں۔ اسی لیے اُن کی اکثریت ملکہ کو تاعمر حکمران دیکھنا چاہتی ہے۔ ’پولی ٹوائینبی‘ (Polly Toynbee) برطانوی روزنامے ’دی گارڈین‘ (The Guardian) میں لکھتے ہیں کہ ’’ملکہ الزبتھ دوئم کو ساری عمر حکومت کرنے دینا چاہیے مگر وہ برطانیہ کی آخری ملکہ ہونی چاہیئں‘‘۔ اس طرح کے عوامی جذبات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ تصور کرنا محال دکھائی دیتا ہے کہ ملکہ کسی اور کو اقتدار منتقل کر دیں گی۔

بالفرض انگلستان کے لوگ اگر کسی نئے بادشاہ کو تخت پر دیکھنا بھی چاہیں تو بھی ولی عہد شہزادہ چارلس کی تخت نشینی ایک مسئلہ سمجھی جاتی ہے۔ دی ڈیلی میل (The Daily Mail) کے ’آلیسَن پیرسَن‘ (Allison Pearson) طنزاً لکھتے ہیں ’’ہم شہزادہ چارلس کے ماضی اور اُن کی خامیوں کے متعلق خوب جانتے ہیں اور اُن کا احترام کرتے ہیں جیسا کہ ہم اُن کی والدہ کا احترام کرتے ہیں‘‘۔

مزیدبرآں شہزادہ چارلس کے ضمن میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ شکوک وشبہات بھی پائے جاتے ہیں کہ آیا وہ بعض سیاسی معاملات اور مسائل میں مطلوبہ شاہی غیرجانبداری برقرار رکھنے کی صلاحیت کے حامل ہیں یا نہیں۔ اس تاثر کے پیشِ نظر یہ بہت ممکن ہے کہ ملکہ اپنے پوتے شہزادے ولیم کے حق میں تخت سے دستبردار ہوں۔ تاہم برطانوی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے کہ ولی عہد (پرنس آف ویلز) جو روایتاً اگلا بادشاہ سمجھا جاتا ہے، کو نظرانداز کر کے اُس کے بیٹے کو حکمرانی سونپ دی جائے۔

علاوہ ازیں اگر ملکہ اپنی ضعیف العمری کے باعث تخت سے دستبردار ہوتی بھی ہیں تو اُن کے ولی عہد شہزادہ چارلس خود بھی زندگی کی 70 سے زائد بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ لیڈی ڈیانا کے سابق بٹلر ’پائول بریل‘ (Paul Burrell) سمیت شاہی محل کے چند دیگر اندرونی افراد کے خیال میں عوام شہزادہ چارلس کو بادشاہ کے کردار کے لحاظ سے زائدالعمر سمجھتی ہے۔

اس تمام تر بحث سے قطع نظر کہ کیا ملکہ تخت سے دستبردار ہوں گی یا نہیں، شاہی خاندان کے بارے میں ایک اور موضوع جو عوام میں بہت گرم ہے وہ یہ ہے کہ اگر شہزادہ چارلس جب تخت سنبھالیں گے تو کیا اُن کی اہلیہ ’کمیلا پارکر بائولز‘ (Camilla Parker Bowles) ملکہ کہلائیں گی ؟ روایتی طور پر تو بادشاہ کی بیگم ملکہ ہی کہلاتی ہے البتہ عوامی جذبات ’کمیلا پارکر‘ (Camilla Parker) کے لیے ’ملکہ کمیلا‘ (Queen Camilla) کے لقب کی بالکل حمایت نہیں کرتے۔

اگرچہ 2005ء میں شہزادہ چارلس نے عوام کو یہ یقین دلایا تھا کہ ’کمیلا‘ کبھی بھی ملکہ نہیں کہلائیں گی بلکہ وہ اس کی بجائے ’شہزادی کانسورٹ‘ (Princess Consort) کا لقب اختیار کریں گی لیکن بعد میں وہ اپنے اس بیان سے منحرف ہو گئے، یہاں تک کہ انھوں نے عوام کو اپنی یقین دہانی کے اُس پیغام کو اپنی سرکاری ویب سائٹ سے بھی ہٹا دیا۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ملکہ الزبتھ ایک پینڈورا باکس کھولنے کا انتخاب کریں گی ؟ قرائین وحالات یہ بتاتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کریں گی۔ حالانکہ اگر آپ کو ’کمیلا پارکر‘ جو اس وقت ’ڈَچز آف کارنوال‘ (Duchess of Cornwall) کا لقب رکھتی ہیں، کو جاننے کا موقع ملے تو شاید ہو سکتا ہے کہ آپ انہیں پسند ہی کرنے لگیں۔

مئی میں جب ملکہ الزبتھ کے شوہر شہزادہ فلپ (Prince Philip) ریٹائر ہوئے تو لوگوں کو تعجب ہوا کہ کیا اس معاملے میں اب ملکہ بھی اپنے شوہر کی پیروی کریں گی ؟ مگر ملکہ کی جانب سے ایسا کوئی اعلان سامنے نہ آنے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے شوہر کے برعکس اُن کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

شہزادہ فلپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف عوامی تقریبات کے موقعوں پر اُن کی بجائے ملکہ کے ہمراہ اُن کے بیٹے اور پوتے دکھائی دیئے۔ یوں شہزادہ چارلس، شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری نے وہ کردار نبھایا جو کبھی شہزادہ فلپ ادا کیا کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں بادشاہت کو خودبخود ایک سنوارا ہوا چہرہ میسر آگیا اور وہ پھر سے تروتازہ نظر آنے لگی ہے۔

ملکہ کافی عرصے سے اپنے زیادہ سے زیادہ فرائض اپنے بچوں اور اُن کے بچوں کو منتقل کر رہی ہیں۔ اس طرح وہ اپنی حکمرانی کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اپنی اثرپزیری کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بات ثابت کر رہی ہیں کہ جب وہ اِن چھوٹے چھوٹے اقدامات کے ذریعے نوجوان شاہی خون کو شاہی فرائض کی ادائیگی میں حصہ دار بنا سکتی ہیں تو انہیں تخت سے دستبردار ہونے جیسا بڑا اقدام کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے ؟

اس موسمِ گرما میں برطانوی حکومت نے ملکہ کے انتقال کی صورت میں ہونے والی تقریب کی ’ڈریس ریہرسل‘ (dress rehearsal) کی۔ برطانیہ کے روزنامے ’ایکسپریس‘ (Express) کے مطابق تاریخ میں پہلی بار وزراء نے اسی تقریب کی قبل از وقت مشق میں حصہ لیا۔ اور تو اور انھوں نے اس مشق کو ’لندن برِج‘ (London Bridge) کا خفیہ نام بھی دیا۔ ملکہ کے انتقال کے پہلے دِن کا خفیہ نام ’ڈی ۱‘ (D1) رکھا گیا۔ اس ساری صورتِ حال سے تو یہی لگتا ہے کہ ملکہ اپنے انتقال تک ملکہ ہی رہیں گی اور اُن کی تخت سے دستبرداری کا دُور دُور تک بھی کوئی امکان نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔