جدوجہد جاری رہے گی

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 16 مارچ 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

2005 میں نیشنل عوامی پارٹی کے زیر اہتمام ٹوبہ ٹیک سنگھ میں آخری کسان کانفرنس منعقد ہوئی، لاہور سے معروف کسان لیڈر بھی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تھے، اس کے علاوہ کراچی سے بھی کسانوں کے علاوہ صحافی، ادیب اور شاعر اس کسان کانفرنس میں شریک تھے۔ دن بھر کی اس کانفرنس میں تقریباً پورے ملک سے کسانوں اور ان کے رہنماؤں نے شرکت کی اور پاکستان کے کسانوں کے مسائل پرگفتگو ہوئی۔اس کانفرنس کے چیف آرگنائزر عابد حسین منٹو تھے۔

مقررین نے اپنے اپنے علاقوں کے کسانوں کے مسائل کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے اجتماعی مسائل کی بھی نشان دہی کی۔ مقررین اس بات پر متفق تھے کہ ملک میں زرعی اصلاحات فوری کی جائیں۔ حاضرین کانفرنس نے اس مطالبے کی بھرپور تائید کی۔ ان حوالوں سے مختلف قراردادیں بھی پیش کی گئیں۔ کراچی سے بھی کسانوں، مزدوروں کے نمایندے، صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں نے شرکت کی۔ کانفرنس کے شرکا نے اجتماعی طور پر یہ مطالبہ کہ بلاتاخیر  زرعی اصلاحات کی جائیں۔

کانفرنس کے اختتام پر ہمارے پرزور اصرار پر مقامی ہوٹل میں رہنماؤں کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں پاکستان کے کسانوں کو منظم کرنے کے حوالے سے تجاویز پیش کی گئیں۔ اس کے علاوہ ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کے ذمے یہ کام سونپا گیا کہ وہ کراچی پہنچ کر کسانوں کے اہم مسائل اور ان کے حل پر ایک ورکنگ پیپر تیار کرے جس میں کسانوں کے مسائل کا احاطہ کیا جائے اور ان پر عملدرآمد کے لیے تجاویز پیش کی جائیں۔

چوہدری فتح محمد جب تک حیات تھے کسانوں کی تنظیم کا کام بڑے منظم انداز میں کیا جاتا رہا ان کے بعد اس میدان میں کوئی موثر کام نہ ہوسکا۔ البتہ میجر اسحق کی سرپرستی میں کسانوں کی تنظیم کا کام خیبر پختونخوا میں ہوتا رہا اور ملکی تاریخ کی کسانوں کے حوالے سے وہ مشہور تحریک چلائی گئی جو ہشت نگر تحریک کے نام سے مشہور ہوئی اس تحریک کے دوران کسانوں نے بہت قربانیاں دیں۔ اوکاڑہ میں بھی اس حوالے سے بہت کام کیا گیا۔ میجر اسحق ہشت نگر تحریک کے روح رواں تھے۔

حیدرآباد سندھ میں بھی فشر فوک فورم کے زیر اہتمام ایک رنگا رنگ تین روزہ کسان کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں کسانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں خواتین کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی اور ثقافتی پروگرام بھی پیش کیے گئے۔

کسان تحریک کا مرکز پنجاب تھا جب تک چوہدری فتح محمد، سی آر اسلم، سردار شوکت اور میاں محمود وغیرہ زندہ تھے۔ کسان تحریک بہت فعال تھی ان کے گزر جانے کے بعد اس تحریک میں کمزوری آتی چلی گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہرچند کہیں کہ ہیں، نہیں ہیں۔ لاہور میں کبھی کبھی کسانوں کے مظاہروں کی تجدید کی جاتی ہے لیکن چونکہ یہ سرگرمیاں غیر نظریاتی لوگ کرتے ہیں جس کی وجہ ان کے مطالبات کھاد، بیج وغیرہ کی قیمتوں میں کمی تک محدود ہوتے ہیں ، زرعی اصلاحات کے مطالبے ان میں شامل نہیں ہوتے۔ اب صورتحال اس حوالے سے مایوس کن ہے کسانوں کے مسائل کے حوالے سے کسی سرگرمی کسی تحریک کا کوئی ذکر تک نہیں۔

پچھلے دس سال کا عرصہ چونکہ لوٹ مار اور بھاری کرپشن کا عرصہ تھا اس لیے اس قسم کی تحریکوں کے گلے میں رسی ڈال کر رکھا گیا کہ یہ ’’شرپسند لوگ‘‘ کہیں لوٹ مار کے دھندے میں رکاوٹ نہ بن جائیں۔ یہی حال ٹریڈ یونین کا ہے مزدور کسان طلبا اور غریب عوام کے حوالے سے ملک بھر میں کسی قسم کی سرگرمیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ ہر طرف ایک جمود طاری ہے سابقہ دو حکومتوں کے دوران حکمرانوں کا ایجنڈا بالکل مختلف تھا اور ہر طرف لوٹ مار کا سلسلہ جاری تھا لہٰذا نظریاتی کام دب کر رہ گئے تھے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی نظریاتی کام کے حوالے سے بے عملی کا کلچر مضبوط ہوگیا ہے۔ دولت جب انسان کی پہلی ترجیح بن جائے تو نظریاتی سرگرمیاں پس منظر میں چلی جاتی ہیں اور صرف اور صرف حصول دولت انسان کا پہلا اور آخری مقصد بن کر رہ جاتا ہے کام نہ ہو تو دشنام کا بول بالا ہوتا ہے اور آج کل یہی ہو رہا ہے۔

1970 میں ملک ٹوٹنے سے پہلے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں اور نیشنل عوامی پارٹی مولانا بھاشانی کی قیادت میں فعال تھیں۔ 1970 میں مولانا بھاشانی کی قیادت میں نیشنل عوامی پارٹی بہت فعال تھی۔ مغربی پاکستان میں بھی نیپ کافی کام کر رہی تھی کہ مولانا بھاشانی کا دعوت نامہ ملا کہ ہم پلٹن میدان میں ہونے والے نیپ بھاشانی کے زیر اہتمام ہونے والے جلسے میں وفد کی شکل میں شرکت کریں۔ سو ہم نیپ کے اس وفد میں شامل تھے جو مشرقی پاکستان جا رہا تھا۔

اس زمانے میں بوٹنگ کا چلن عام نہ تھا پرانے ماڈل کے چھوٹے ہوائی جہاز چلتے تھے سو ہم بھی وفد کے ساتھ مشرقی پاکستان چلے گئے۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ مختصراً بیان کرتے چلیں ہوائی جہاز میں  عبدالوحید صدیقی، عابد زبیری ہمارے ساتھ وفد میں شامل تھے اور ہوائی جہاز میں سیاسی مسائل پر گفتگو کا سلسلہ جاری تھا، اس دوران میں نے دیکھا عابد زبیری پریشانی کے عالم میں جہاز میں تیز تیز ٹہل رہے تھے۔ ہم نے وجہ پوچھی تو ہاتھ کے اشارے سے خاموش بیٹھنے کو کہا۔ اس کے جسم سے پسینہ بہہ رہا تھا اور چھوٹا سا ڈکوٹا ہوائی جہاز مسلسل ڈھاکا پر چکر لگا رہا تھا۔ کوئی آدھ گھنٹے بعد ہوائی جہاز کو ایک جھٹکا لگا، عابد زبیری کی زبان سے ’’ہرّے‘‘ نکلا اب ان کے چہرے پر تشویش کی جگہ اطمینان تھا پھر بھائی زبیری نے زور سے کہا ہم بچ گئے۔ ہوائی جہاز کے  پہیے نہیں کھل رہے تھے جس کا علم صرف عابد زبیری اور پائلٹس کو تھا بہرحال ہم سب ڈھاکا پہنچ گئے سروں کے اوپر کالے کالے بادل دوڑ رہے تھے ہمیں شاہ باغ ہوٹل پہنچا دیا گیا جہاں ہمارے قیام کا انتظام تھا۔

نیپ کے زیر اہتمام پلٹن میدان میں جلسے کا اہتمام تھا ہمیں ڈائس پر جگہ دی گئی یہ مغربی پاکستان کے دوستوں کے لیے اعزاز کی بات تھی۔ پلٹن میدان میں ہر طرف انسانوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے طلبا و طالبات جوش کے عالم میں سنگرام سنگرام چولبے چولبے یعنی جدوجہد، جدوجہد جاری رہے گی کہہ رہے تھے۔ لگاتار موسلا دھار بارش تھی لیکن کوئی بدنظمی نہ تھی لڑکے لڑکیاں بھیگ گئی تھیں لیکن شنگرام شنگرام چولبے کے نعرے لگ رہے تھے یعنی ’’جدوجہد ،جدوجہد جاری رہے گی‘‘ اس سفر کا ذکر ہم نے اس لیے کیا کہ ہمارے کسان، مزدور اور طلبا انگڑائی لے کر اٹھیں اور ہر طرف شنگرام شنگرام چولبے کے نعرے سنائی دیں۔ مردہ تنوں میں جان پڑے اور مزدوروں کسانوں طلبا کی زبان پر شنگرام شنگرام چولبے چولبے یعنی جدوجہد جدوجہد جاری رہے کے نعرے سنائی دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔