اونچے لوگ اونچی سوچیں

عبدالقادر حسن  ہفتہ 16 مارچ 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہم نے اپنا سب کچھ نیلام پر چڑھا دیا ہے ۔ ملک کے پاس جتنے اہم کاروباری ادارے قابل فروخت ان کو بیچنے کے لیے ہم بے قرار ہیں اور جو ادارے بچ رہے ہیں ان کی مالی حالت بہتر بنا کر بیچنے کی منصوبہ بندی مکمل ہو چکی ہے یعنی ایک بات واضح ہے کہ بیچ سب کچھ دینا ہے کسی کی باری پہلے آئے گی اور کسی کی بعد میں اور اس کی وجہ قرضوں کا وہ انبار ہے جس نے ہماری آزادی اور قومی عزت کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ ایسے ایسے زبردستوں کے قرضے ہیں کہ بقول ہمارے حکمرانوں کے وہ قرض خواہ ہمارا حقہ پانی بند کر دیتے ہیں۔

قرضوں کے اس کشکول کو توڑنے کی کئی بار کوشش کی گئی مگر یہ کشکول ٹوٹنے کے بجائے مزید بھرتا چلا گیا اور اب تو یہ عالم ہے کہ اس کشکول میں مزید کچھ ڈالنے کی گنجائش ختم ہو چکی ہے اور نئے کشکول اور نئے ساہو کار ڈھونڈے جارہے ہیں جو اپنی شرائط پر امداد اور سرمایہ کاری کے نام پر ہمیں مزید مقروض کر رہے ہیں اور ہم ہنسی خوشی بلکہ شادیانے بجا کر اپنے قومی وقار کو داؤ پر لگا کر قرض کی مے پیتے جارہے ہیں۔

ہم نے اپنی قوم کو دنیا بھر کے سامنے ایک بھکاری کے طور پر پیش کیا اور کبھی ایک خود دار ملک اور قوم کے طور پر دنیا کو یہ نہیں بتا سکے کہ ہم ایک آزاد ملک ہیں کیونکہ ہمارے جو بھی حکمران رہے ہیں وہ ملک کی معاشی حالت کو سنوارنے کے بجائے دنیا بھر سے قرض حاصل کر کے پہلے اپنی حالت سنوارتے رہے اور بعد میں اس میں سے اگر کچھ بچ گیا تو اس کو ملک پر خرچ کر دیا تا کہ عوام کی اشک شوئی بھی ہو سکے۔

ہماری موجودہ حکومت بھی قرض اتارنے اور مزید قرضوں کے حصول کے لیے بین الا قوامی اداروں کے پاس نہ جانے کا نعرہ لگاتی ہوئی تشریف لائی لیکن چند ماہ کے بعد ہی ہمارے وزیر خزانہ نے ببانگ دہل یہ فرما دیا ہے کہ مہنگائی اس قدر بڑھے گی کہ عوام کی چیخیں نکلیں گی اور خوشخبری یہ ہے کہ آئی ایم ایف ہمیں قرض دینے کے لیے تیار ہو گیا ہے لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں جن پر بات چیت جاری ہے۔

یہ کون سی شرائط ہیں ان کے بارے میں پاکستانی قوم اچھی طرح آگاہ ہے کیونکہ اس قوم نے ملک کے نام پرہمیشہ قربانی دی ہے اور ایک مرتبہ پھر اس کو سہانے مستقبل کے خواب دکھا کر قربانی کی اطلاع دے دی گئی اور بہت جلد قوم قربان گاہ پہنچ جائے گی جہاں پر عالمی ساہوکاروںکے جلاد ماضی کے قرضے اتارنے کے لیے پہلے ہی قربان گاہ پہنچ چکے ہوں گے ۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ پاکستانی روپے کی قیمت میں مزید کمی بھی کی جائے گی ۔

عوام کی اگر بات کی جائے تو وہ پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے پس رہے ہیں اور ان کو مزید مہنگائی کی اطلا ع بھی دے دی گئی ہے ۔ محسوس یہ ہو رہا ہے حکومت اپنے تمام تر اخراجات اور قرضہ جات عوام سے وصول کرنے کو تیار ہو چکی ہے عوامی استعمال کی بنیادی ضروریات بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے اور آنے والے مہینوں میں صرف بجلی کے بل ہی عوام کی چیخیں نکالنے کے لیے کافی ہوں گے ۔

یہ صورتحال کیوں ہے ہم نے اتنے زیادہ قرضے کیوں لیے ہیں اور قرض خوری کی عادت نے ہمیں تباہ کیوں کر دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ اور شاید بڑی وجہ حکومت کی شاہ خرچیاں ہیں جن کو دیکھ کر عوام ٹیکس نہیں دیتے اور جن کو دیکھ کر عوام کے دلوں میں حکومتوں کے خلاف جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور یہ جذبات بھڑکانے کوئی باہر سے نہیںآتا ہم خود اس معاملے میں خود کفیل ہیں ۔ عوام کو دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے مگر دوسری طرف ہمارے کاروبار مملکت چلانے والوں نے اپنی تنخواہوں میں ہوشربا اضافہ کر کے عوام کے غصہ پر مزید تیل ڈالا ہے ۔تازہ ترین خبریہ ہے کہ پنجاب کے صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں غیرمعمولی اضافے کے بعد وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اس پر عملدرآمد رکوا دیا ہے ۔

قوم یہ سوال پوچھتی ہے کہ یہ اضافہ کیا ہی کیوں گیا ،کیا حکومت عوام کو بنیادی سہولتیں دینے میں کامیاب ہو چکی ہے ،کیا ہمارے نمایندے عوام سے بھی غریب ہیں اور ان کو تنخواہوں کی اشد ضرورت ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ عوامی کے منتخب ارکان کو حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی تنخواہ یا مراعات نہیںملنی چاہئیں۔ ہمارے نمایندے اس قدر امیر کبیر ہوتے ہیں کہ یہ اپنی انتخابی مہم میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں خرچ کر کے اسمبلیوں کے ممبر بنتے ہیں ۔ ان ممبران کو تو عوام کی خدمت کرنا چاہیے اور اپنی ذات کو اس خدمت کے لیے وقف کر دینا چاہیے لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے اور عوامی نمایندے عوام کی خدمت کے بجائے عوام سے اپنی خدمت کرانا چاہتے ہیں ۔ ان بڑے لوگوں نے ایک بار پھر عوام پر وار کرنے کی کوشش کی ہے اور شرمناک طریقہ اختیار کرتے ہوئے از خود اپنی تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے۔

ہمارے حکمرانوں کا اقتصادی فلسفہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب اوپر ترقی ہو گی تو اس کی برکات نیچے کی طرف سفر کریں گی اور اس میں عوام کو حصہ ملے گا چنانچہ اسی فلسفے کے تحت اوپر کی سطح پر موجود لوگوں کو خوشحال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے خواہ یہ خوشحالی مصنوعی اور سرکاری مراعات تک محدود ہی کیوں نہ ہو اور اس میں معاشی ترقی کا پہلو نہ بھی ہو۔ جس طرح صحتمند جسم میں صحتمند دماغ ہوتا ہے اسی طرح خوشحال ذہن میں خوشحال منصوبے پرورش پاتے ہیں چنانچہ ہمارے بڑے لوگ جب خوشحال زندگی بسر کریں گے اور ان کی زندگیوں کا معیار اونچا ہو گا تو ان کی سوچ بھی اونچی ہو گی ۔ قوم کو ایسے ہی اونچی سوچ والوں کی ضرورت ہے، اس اعلیٰ قومی مقصد کے لیے تنخواہوں میں اضافہ کوئی بڑی بات نہیں ۔ ان تنخواہوں میںاضافے کے بعد اونچے نتائج کا انتظار کیجیے۔

بقول فیض صاحب  ؎

ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں

اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔