ریگولیٹر اور مفادات کا تصادم

اکرام سہگل  ہفتہ 16 مارچ 2019

مخصوص قوانین کے نفاذ کے لیے قانون سازی سے تشکیل دیا گیاسرکاری ادارہ ’’ریگولیٹری ایجنسی‘‘یا ’’ریگولیٹر‘‘ کہلاتا ہے اور عام طور پر اسے کسی حد تک قانون سازی، انتظامی اور عدالتی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔

انکم ٹیکس، ماحولیات، کارگاہوں میں صحت و حفاظتی تدابیر، جائیداد کی خرید و فروخت اور ملازمت سے متعلق ضوابط سمیت متعدد قوانین کئی سماجی اور معاشی امور پر لاگو ہوتے ہیں۔ کسی بھی حکومت میں ان ریگولیٹری اداروں کے دو بنیادی کام  ہیں، قوانین کا اطلاق اور نفاذ۔ مقننہ کے وضع کردہ قوانین انھی اداروں کی ضابطہ بندی کے ذریعے عمل میں لائے جاتے ہیں۔

مختلف شعبوں سے متعلق قوانین و ضوابط کسی بھی قوم کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے نفاذ کے لیے بنائے جانے والے ادارے معیشت میں جدت اور پیداوار میں نمو کو فروغ دینے کے لیے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ قوانین کی بروقت منظوری، نئے مسائل سے متعلق لچک دار رویہ اور خدمت کا جذبہ ان کی بنیادی خصوصیات ہونی چاہیے۔

اس کے لیے کسی ایسے ریگولیٹری ادارے کے مقاصد میں صراحت ہونی چاہیے، اس کے اختیارات اور دائرہ اختیار کی وضاحت ہونی چاہیے اور یہ اختیارات باہم یا کسی اور ادارے سے متصادم نہیں ہونے چاہئیں(یا ایسے کسی تضاد کا حل بھی پیش کرتے ہوں)، پالیسی سطح پر کردار بھی واضح ہونا چاہیے اور ان اداروں کو شفافیت کے ساتھ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی معاونت کرنی چاہیے۔

ریگولیٹرز کو کبھی ایسے اہداف نہیں دینے چاہیے جن میں تضاد یا تنازعات پیدا ہوسکتے ہوں۔ مفاد عامہ میں حکومت کے متعین کردہ اہداف کے حصول اور قانون سازوں کی جانب سے وضع کردہ قوانین کے اطلاق کے لیے یہ ادارے وجود میں لائے جاتے ہیں۔ریگولیٹری اداروں کو دیانت داری اور غیر جانب داری کے ساتھ اپنی ذمے داریاں ادا کرنی چاہییں۔ ریگولیٹری اداروں کے احتساب کا مکمل نظام ہونا چاہیے، تاکہ ان کے اختیارات کے استعمال اور کارکردگی کا جائزہ بھی لیا جاتا رہے۔ شفافیت کے لیے ریگولیٹری اداروں میں تعینات ہونے والوں یا خاص شعبے یا صنعت کی نگرانی کے لیے مقرر کیے جانے والوں کو کسی بھی حیثیت میں اسی شعبے سے منافع بخش تعلق رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی یا کسی کاروباری ادارے سے کسی خاص مدت تک منسلک ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یہ دنیا بھر میں تسلیم شدہ اصول ہے۔

اکتوبر2014میں جارج میسن یونیورسٹی سے منسلک محقق اور کالم نگار ویغونیک دی اغیژی نے دوٹوک تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا: ’’حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ نیویارک کے فیڈرل ریزرو میں تعینات ریگولیٹرز ملک کے بڑے مالیاتی اداروں میں سے ایک کے ساتھ قربتیں بڑھا رہے ہیں، جن کی نگرانی ان کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔

نیویارک میں تعینات وفاقی بینک معائنہ کار کارمین سکیرا کی خفیہ ویڈیو سامنے آئی جس میں  گولڈمین ساشے میں ان کی موجودگی کا انکشاف ہوا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وفاقی ریگولیٹر کس طرح ٹیکس دہندگان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہے ہیں اور حکومتی اداروں کو جھانسا دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ سیگما کے مطابق گولڈمین کے ملازمین عام طور پر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ان کے کلائنٹ پر منحصر ہے کہ وہ وفاق کے ردعمل سے بے خطر ہو کر صارفین کے ضوابط پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا نہیں۔‘‘ یہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ کس طرح ریگولیٹرز جانتے بوجھتے ہوئے مفادات کے تصادم کا شکار ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کی تمام 18ریگولیٹر باڈیز حکومت کے ماتحت ہیں اور ان میں تعیناتی اور برطرفی کا اختیار بھی حکومت کے پاس ہے۔ ہمارے ہاں ریگولیٹری ادارے حکومت کے آگے بے بس نظر آتے ہیں اور اپنے آئینی اختیارات سے بھی دست بردار ہوچکے ہیں۔ دنیا کے برعکس پاکستان میں ریگولیٹری ادارے اپنے غلط کاموں کے باعث خبروں میں آتے ہیں۔ کسی بھی شعبے یا صنعت سے متعلق فرد ان اداروں میں تعینات ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی ریگولیٹر کسی ایسے شعبے یا صنعت کی نگرانی یا ضابطہ بندی کیسے کرسکتا ہے، جس سے وہ خود منسلک ہو؟ لیکن ہمارے ہاں یہ روا رکھا گیا ہے۔

کسی بھی ریگولیٹر ادارے کے سربراہان کی تعیناتی شفافیت کے ساتھ ہونی چاہیے۔ آزادانہ فیصلوں اور کارکردگی کے لیے کونفلیکٹ آف انٹرسٹ یا مفادات کے تصادم کے اصول پر واضح انداز میں عمل ہونا چاہیے۔ پاکستان میں کسی ریگولیٹری ادارے سے وابستہ شخص کسی دوسرے کمرشل ادارے میں کام کرسکتا ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔ ایسی صورت میں فیصلہ سازی کسی ذاتی، معاشی یا دیگر مفادات سے اثر انداز ہوسکتی ہے اور اسے خارج از امکان بھی نہیں کہا جاسکتا، یہیں سے مفادات کے تصادم کا سوال پیدا ہوتا ہے۔

بیک وقت دو عہدوں پر کام کرنے اور ایک عہدے سے اپنی ریگولیٹر کی حیثیت میں کہیں زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے ریگولیٹر کی غیر جانب داری اور شفافیت کا تاثر قائم نہیں ہو پاتا۔ شفافیت کے لیے افواج پاکستان اور سرکاری ملازمین کی طرح ریگولیٹرز کو بھی پابند بنانے کی ضرورت ہے کہ جس طرح ان شعبوں میں ملازمت سے سبک دوشی کے بعد کم از کم دو برس تک وہ کوئی دوسرا سرکاری منصب نہیں لے سکتے، ریگولیٹرز کے لیے بھی اسی طرز پر ضابطے بنائے جائیں۔

اس میں بنیادی ترین بات یہ ہے کہ کسی بھی ریگولیٹر کو سبکدوشی کے پانچ برس تک کسی ایسے ادارے سے منسلک ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، جس کی نگرانی ان کے ذمے رہی ہو۔ یہ تشویش کی بات ہے کہ ریگولیٹری اتھارٹیز کے کئی ممبران کی تقرریاں کئی مواقعے پر عدالت میں چیلنج ہوچکی ہیں۔ مفادات کا یہ تصادم کسی خاص صنعت کو مدد فراہم کرنے کے لیے ضوابط بنانے، کسی خاص مفاداتی گروہ یا فرد کی معاونت، کسی ضابطے کے نفاذ میں تاخیر یا پس و پیش یا زیر اختیار کسی ادارے یا فرد سے خصوصی سلوک جیسی راہیں کھولتا ہے۔ یہاں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ریگولیٹری اداروں کے ایسے افراد جو اپنے ہی ادارے کے ماتحت آنے والے کسی اور ادارے سے وابستہ رہے ہوں، رعایت دیتے ہیں۔ اس کے لیے احتساب اور جوابدہی کا کڑا انتظام ہونا چاہیے تاکہ کوئی بھی ذمے دار اس بدعنوانی کا مرتکب نہ ہوسکے۔

سرکاری ملازمت کے ضوابط کے مطابق سبکدوشی کے دوبرس کے اندر نجی شعبے میں ملازمت کے لیے خصوصی اجازت درکار ہوتی ہے۔ اب اس پر غور کیجیے کہ ایک غیر ملکی ٹیلی کمپنی سابق سرکاری حکام کو ملازمت پر رکھ رہی ہے، یہ سابقہ اداروں پر سمجھوتا ہے۔ سوچیے کہ پاکستان میں سب سے بڑی ٹیلی کوم کمپنی کی مالک  نے کیوں 850ملین ڈالر ادا کیے۔ اسی طرح پاکستان کی دوسری بڑی ٹیلی کمیونیکیشن کی کمپنی کو ناروے کی حکومت نے ضابطے کی خلاف ورزی پر جرمانہ کیا۔

دنیا میں نفاذ قانون کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے واشنگٹن میں قائم تنظیم ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے جاری کردہ رول آف لا انڈیکس رپورٹ 2019کے مطابق پاکستان میں ریگولیٹری نظام کی ناقص صورت حال  کی بنا پر اسے 126ممالک میں سے 116ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ یہ حکومت کے لیے گہری تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ ہمارے ریگولیٹری اداروں کی کارکردگی کسی صورت اطمینان بخش نہیں، یہ ضوابط کی تشکیل و تعمیل کے بجائے کئی تنازعات اور مالی گھپلوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔

ضابطہ بندی کو مؤثر بنا کر ہی ملک میں اچھی حکومت کاری(گورننس) اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے زیادہ تر ریگولیٹرز اپنی ذمے داریاں قابل اعتماد انداز میں ادا کرنے کے اہل ہی نہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومتوں کو بھی ان اداروں کی صلاحیت کار اور کارکردگی بہتر بنانے میں دل چسپی نہیں۔ ان اداروں میں موجود کرپٹ عناصر کی جگہ دیانت دار اور پیشہ ورانہ ماہرین کا تقرر ہونا چاہیے۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔