کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 17 مارچ 2019
جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

غزل


بڑی محبت سے بات کرتا بڑے سلیقے سے بولتا ہے
وہ شخص جب بھی کسی جگہ پر مرے حوالے سے بولتا ہے
یہ خوش گمانی فقط مجھے ہے یا اس گلی سے گزرنے والی
ہوا کواڑوں سے کھیلتی ہے، دیا دریچے سے بولتا ہے
اکیلے پن کا عذاب کتنا برا ہے تجھ کو خبر نہیں ہے
خدا صحیفے اتارتا ہے کسی بہانے سے بولتا ہے
وہ کھلکھلا کر ہنسا تو مجھ پر، کُھلا کہ سب کچھ غلط ہوا ہے
میں سوچتا تھا وہ خوش طبعیت مرے بلانے سے بولتا ہے
میں ایک گڑیا کو تم سمجھ کر وہ ساری باتیں کروں گا اس سے
وہ ساری باتیں جو ایک بچہ کسی کھلونے سے بولتا ہے
(نذر حسین ناز، چکوال)


غزل


دو چار لوگ کیا مرے حصے میں آگئے
میرے تمام لفظ اجالے میں آ گئے
میں نے ابھی تو آپ سے کچھ بھی نہیں کہا
کیوں آپ مجھ کو دیکھ کے غصے میں آ گئے
ہم نے تو اضطراب میں عمریں نکال دیں
تم ایک غم کو دیکھ کے سکتے میں آ گئے؟
رومال کی مہک تھی کہ دَر یاد کا کُھلا
بیتے سمے نگاہوں کے حلقے میں آ گئے
کیا آپ بھی ڈسے ہیں اسی نامراد کے؟
کیا آپ بھی اس آنکھ کے دھوکے میں آگئے؟
دل نے کسی کے ہجر کی تلخی کو کیا پیا
صدیوں کے غم زبان میں لہجے میں آ گئے
(عبدالرحمان واصف، کہوٹہ)


غزل


کچھ ایسے خاک اُڑی دل کے کارخانے سے
زمین بیٹھ گئی آسماں اٹھانے سے
جہاں فقیر خدا بن کے بیٹھے ہوتے ہیں
مری تو بنتی نہیں ایسے آستانے سے
مرے مزار سے جو شخص دور بیٹھا تھا
قریب آیا چراغوں کی لَو بڑھانے سے
ہمارے عہد میں جادوگری نہیں چلتی
غزل بنا نہیں کرتی غزل بنانے سے
تمہارے ہو نہیں سکتے زمانہ ساز کبھی
میں جانتا ہوں اِنھیں یار اک زمانے سے
کوئی قبیلے میں اپنے مزاج کا نہیں تھا
کسی سے بات بھی کرتا تو کس بہانے سے
میں سچ کو جھوٹ سمجھتا رہا یہاں عادِس
کچھ اس لیے بھی نکالا گیا فسانے سے
(امجد عادِس، راولا کوٹ، آزاد کشمیر)


غزل


غفلت سے چھٹکارا پا، کر دل کو کر بیدار
حسنِ عمل سے پیدا کر مانندِ سحر کردار
فِتنوں کے اِس دور میں یا ربّ جینا ہے دشوار
ارض و سما کے مالک تیری رحمت ہے درکار
صبح و مسا کی گردش غافل، کہتی ہے ہر بار
دنیا جائے فانی ہے، نہ لمبے پیر پسار
قوت والے، عظمت والے، پھولوں جیسے لوگ
موت کے ہاتھوں ہوجاتے ہیں سارے ہی لاچار
راہِ فنا پہ جاتے دیکھے پہنے ایک لباس
بچے، بوڑھے، عالم، جاہل، صوفی اور مے خوار
رنج و الم کی چادر اوڑھے، حیدرؔ میرے یار
کس کی خاطر کہتے ہو تم، درد بھرے اشعار
(ایس۔ مغنی حیدر۔ ملیر، کراچی)


غزل


درد میرے سنا کرے کوئی
میری خاطر دعا کرے کوئی
ضبط آخر کو ٹوٹ جاتا ہے
کس قدر حوصلہ کرے کوئی
بھید تجھ پہ کھلے اذیت کا
ساتھ تیرے دغا کرے کوئی
ہے یہ معصوم سی مری خواہش
میری خاطر سجا کرے کوئی
شعر کہنے ہیں غم منانا ہے
ساتھ میرے جفا مرے کوئی
تم مروت سے کام لیتے ہو
تیرا سلمانؔ کیا کرے کوئی
(سلمان منیر خاور ، فیصل آباد)


غزل


سنا ہے لوگوں سے اچھا دکھائی دیتا ہے
میں مل کے دیکھوں گا کیسا دکھائی دیتا ہے
چلا ہوں اتنا کہ شل ہو گئے مرے پاؤں
اور اب تو رستہ بھی دھندلا دکھائی دیتا ہے
میں جب بھی کرتا ہوں آنکھوں کو بند تو اس وقت
بس ایک چاند سا چہرہ دکھائی دیتا ہے
اگر میں سوچوں تو لگتا نہیں وہ کچھ بھی مرا
میں جب بھی دیکھوں تو اپنا دکھائی دیتا ہے
وہ سرخ ہونٹ، کہ جیسے گلاب کی رنگت
خزاں کی رت میں بھی کھلتا دکھائی دیتا ہے
یہ جھوٹ ہے کہ اسے مجھ سے پیار ہے لیکن
ہر ایک بات میں سچا دکھائی دیتا ہے
(بلاول شفیق، ہری پور)


غزل


جو زندگانی میں ساتھ تیرا نہیں ملے گا
میں جانتا ہوں مجھے وہ رتبہ نہیں ملے گا
تمہیں خوشامد تو کرنے والے بہت ملیں گے
یہ پُرخلوص اور میٹھا لہجہ نہیں ملے گا
تو خوب صورت ہے، مانتا ہوں، مگر بتا دے
کہاں لکھا ہے تمہارے جیسا نہیں ملے گا؟
اگر میں تیرا نہیں ہُوا تو بتا رہا ہوں
کسی کو نام و نشان میرا نہیں ملے گا
تمہارے بدلے جہان سارا بھی پا لیا تو
میں جتنا دے دوں گا مجھ کو اتنا نہیں ملے گا
اگر درختوں کے ساتھ اُس کی نہیں بنی تو
کسی کو بھی اِن کے نیچے سایہ نہیں ملے گا
(وقاص امیر، کہوٹہ)


غزل


کمالِ آشنائی ہے، تمہیں معلوم ہی کیا ہے
مری خود تک رسائی ہے، تمہیں معلوم ہی کیا ہے
بظاہر مسکراتا میں دکھائی یار دیتا ہوں
مری مجھ سے لڑائی ہے، تمہیں معلوم ہی کیا ہے
رکھا اہلِ محبت نے، محبت نام ہے جس کا
کسی در کی گدائی ہے، تمہیں معلوم ہی کیا ہے
کوئی بتلائو تو اس طائرِ ناسوت کو قیصرؔ
اسیری ہی رہائی ہے، تمہیں معلوم ہی کیا ہے
(قیصر عباس قیصر، گوجرانوالہ)


غزل


اس کا دیدار ہو گیا تھا جی
میں تو سرشار ہو گیا تھا جی
بیٹے پڑھ لکھ کے گاؤں چھوڑ گئے
بوڑھا لاچار ہو گیا تھا جی
جو نہ آیا کبھی قبیلے میں
وہی سردار ہو گیا تھا جی
اس کے آنے سے دل یہ پتھر سا
گُل و گلزار ہو گیا تھا جی
جو کسی کی بھی دسترس میں نہ تھا
مجھ کو درکار ہو گیا تھا جی
حیثیت جس کی ایک فرد کی تھی
میرا سنسار ہو گیا تھا جی
(نعمان ذوالفقار، فیصل آباد)


’’شہزادی‘‘
اس نے مجھ سے کہا
شاہزادی ترے واسطے
گرم اور ٹھنڈے شفاف پانی کے
آرام دہ حوض ہیں
شاہزادی ترے ہاتھ میلے نہ ہوں
میں ترے واسطے دس کنیزیں مقرر کروں
آئینہ ہے کہ پاؤں ترے، فرق کیسے کروں
تیری آنکھیں ہیں یا شبمنی جھیل ہیں
یہ سبھی لفظ تھے کھوکھلے
مجھ پہ تب یہ کھلا
جب مجھے اس کی باندی بنایا گیا
گھر کے کاموں سے ہاتھوں پہ چھالے پڑے
اور اس کے عوض
چند سکے مرے ہاتھ پر اس رعونت سے رکھے گئے
میرا دل بجھ گیا
اور سَر جھک گیا
( حنا عنبرین، کروڑ لعل عیسن، ملتان)


غزل


گرنے والی ہے بہت جلد یہ سرکار حضور
ہاں! نظرآتے ہیں ایسے ہی کچھ آثار حضور
کارواں یونہی بھٹکتا رہے ہر بار حضور
نیک نیت نہ ہوں گر قافلہ سالار حضور
وہ جو از خود ہی بنے بیٹھے ہیں سردار حضور
وقت اک دن انہیں لائے گا سرِ دار حضور
خود کو دیتے ہیں وہ دھوکا یونہی بیکار حضور
جو خطاؤں کا نہیں کرتے ہیں اقرار حضور
سامنے آکے رہے سچ سرِ بازار حضور
کوئی کتنا ہی کرے جھوٹ کا پرچار حضور
(صبیح الدین شعیبی، کراچی)


غزل


ہم نے چھوڑے ہیں فلک لاکھوں بسیرا کر کے
آج بیٹھے ہیں مکاں ہی میں اندھیرا کر کے
میں جو بچھڑا ہوں زمانے سے نئی بات نہیں
سب ستارے چلے جاتے ہیں سویرا کر کے
میں دیا ہوں، کروں گا سارا زمانہ روشن
لوگ بیٹھے ہیں ہر اک سمت اندھیرا کر کے
میں کسی چال میں یارو نہیں آنے والا
جیت سکتے ہو مجھے پیار کا گھیرا کر کے
کیسے یکجا کوئی ہوگا یہاں حق کی خاطر
لوگ جھکتے ہیں یہاں آگے وڈیرا کر کے
ڈر نہیں ہے یہ محبت کا اثر ہے صاحب
سانپ ڈستے ہی نہیں مجھ کو سپیرا کر کے
(مہر علی رضا، امین پور بنگلہ)


غزل


گزرا ابھی یہاں سے وہ خود کو سنوار کر
اور کہہ گیا مجھے کہ ابھی انتظار کر
وہ جو لڑے ہیں ان کو منانے کی ٹھان لے
اور مصلحت کی راہ بھی کوئی اختیار کر
تجھ کو بتا نہیں رہا لرزہ وجود کا
میں آ رہا ہوں تازہ شبِ غم گزار کر
چلنا ہے تھوڑی دیر میں کچھ دیر گھومنے
چل جا کے یار، جلدی سے اپنا سنگھار کر
جیسے وہ چل رہا ہے ذرا دیکھیے اسے
لگتا ہے آ رہا ہے کہیں خود کو ہار کر
یہ لوگ تنگ کریں گے سحرؔ بعد میں تجھے
اتنا اِنہیں ابھی سے نہ سَر پہ سوار کر
(اسد رضا سحر، احمد پور سیال)


غزل
راز سارے خوشی کے پانے کو
دل یہ چاہا تھا مسکرانے کو
تُو نے ہی رُخ کو اپنے پھیر لیا
آ رہی تھی تمہیں منانے کو
سوچ، یہ وقت کی ہے جادو گری
آ گیا پھر ہمیں ملانے کو
تیری دو پل کی چاہ کافی ہے
کون کہتا ہے جاں لٹانے کو
اب کہاں انتظار کی ہمت
اب تو کوکیؔ! ہے جان جانے کو
(کوکی گِل، رحیم یار خان)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔