ادب اور ہمارے عہد کا سوال

مبین مرزا  اتوار 17 مارچ 2019
ادب، اُس کے معاملات، اُس میں اٹھائے گئے سوالات اور پیش کیے گئے خیالات تو سب کے سب غیرمادّی ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ادب، اُس کے معاملات، اُس میں اٹھائے گئے سوالات اور پیش کیے گئے خیالات تو سب کے سب غیرمادّی ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ہر عہد کے ادب کو ایک بنیادی سوال کا سامنا ہوتا ہے۔

یہ سوال اُس عہد کا سماجی، تہذیبی، اخلاقی تناظر اور انسانی صورتِ حال اُسے پیش کرتے ہیں۔ اِسی سوال کے تحت اُس عہد کے ادب کا مزاج متعین ہوتا ہے اور اس کے رویے تشکیل پاتے ہیں۔ اکیس ویں صدی کی دوسری دہائی اختتامی مرحلے میں ہے۔ یہ زمانہ اپنے مزاج، حالات اور رفتار کے لحاظ سے ماقبل تاریخ کے سب زمانوں سے مختلف ہے، اور اس درجہ کہ اس کا موازنہ کسی دوسرے دور سے ہو ہی نہیں سکتا۔

اس کا سبب وہ مادّی ترقی اور طبیعی خصوصیات ہیں جو اس عہد کے رویوں، رفتار، مزاج اور انداز پر اس طرح اثر انداز ہوئی ہیں کہ انھوں نے انسانی زندگی کا جیسے قوام ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ ان اثرات کا اندازہ محض اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ بہت زیادہ نہیں، صرف ایک صدی پہلے کے انسانی روزمرہ حالات اور معمولات کے تقابل میں اس عہد کے صبح و شام کو دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے آج ایک خواب، بلکہ کسی طلسم کا ہوش ربا منظر ہے جس میں اولادِ آدم سانس لے رہی ہے۔

آج ہمیں زندگی میں آرام و آسائش کا وہ سامان میسر ہے کہ جس کا پہلے خواب بھی نہیں دیکھا گیا ہوگا۔ دوسری طرف اس دور کے انسان کی الجھنیں، وحشتیں اور محرومیوں پر نگاہ ڈالی جائے تو دل کٹ کر رہ جاتا ہے۔ اس دور کی زندگی کا یہ رخ بھی بھلا کب کس کے تصور میں آیا ہوگا۔ اس دور کا انسان ان دو انتہاؤں کے بیچ جی رہا ہے۔ اپنے ان سب حالات اور حقائق کے ساتھ زمانوں کی تاریخ میں یہ عہد اپنے کن امتیازی نشانات سے پہچانا جائے گا اور مستقبل میں اسے کن لفظوں میں یاد کیا جائے گا، اس کا فیصلہ تو آگے چل کر ہوگا۔

تاہم اس عہد کا ادب انسانی تجربہ و احساس کی جو دستاویز مرتب کررہا ہے، اس میں آج کی زندگی کن رنگوں اور نقوش کے ساتھ محفوظ ہورہی ہے، اس پر ہم ضرور غور کرسکتے ہیں۔ اب اگر ہم واقعی اپنے ادب کا مطالعہ اس زاویے سے کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ اِس دور میں ہمارے ادب کو درپیش بنیادی سوال کیا ہے؟

چوںکہ ہم آزاد قوم اور زندہ معاشرہ ہیں، اور اپنے تئیں یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک تہذیب کے پاس دار ہیں اور اس کی اخلاقی قدروں کے نگہ دار بھی— اس لیے ہونا تو یہی چاہیے کہ ہمارے معاشرے کے وہ سبھی لوگ جو ادب سے دل چسپی رکھتے ہیں، کسی نہ کسی سطح پر اپنے عہد اور اس کے ادب کو درپیش اس سوال سے نہ صرف آگاہ ہوں، بلکہ انھوں نے اپنے انداز سے اس پر غور بھی کیا ہو۔

کہا جاسکتا ہے کہ عام آدمی کو اس قسم کے سوال پر غور و فکر کی ذمے داری سونپنا درست نہیں، اس لیے کہ عامۃ الناس ادب کا مطالعہ ناقدانہ ذہن کے ساتھ نہیں کرتے۔ اچھا چلیے، اگر عام آدمی ایسے مسائل و مباحث سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتا اور اس حوالے سے کچھ نہیں سوچتا تو بھی کم سے کم ادیب شاعر لوگ تو ضرور سوچتے اور غور کرتے ہوں گے۔ ان سے تو پوچھا ہی جاسکتا ہے۔ یوں بھی اس نئی صدی کی دو دہائیوں کا عرصہ اس نوع کے کسی بھی مسئلے کے تعین کے لیے انھیں بہرحال وافر وقت مہیا کرچکا ہے۔

اس نکتے پر سوچنے اور اپنے دائیں بائیں ادبی برادری کے لوگوں سے سن گن لینے کے بعد ہم تعجب اور افسوس کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فی الحال تو ہمارے سامنے ایسا کوئی واضح خیال یا رائے موجود نہیں ہے۔ کیوں نہیں ہے صاحب؟ کیا ہمارے یہاں تہذیبی زندگی کی سطح پر اس وقت اس سے بڑے کسی اور مسئلے کی تفتیش چل رہی ہے؟ نہیں، ایسا بھی نہیں ہے۔ تو پھر کیا وجہ؟ بس یہاں گہری خاموشی کا وقفہ آتا ہے، اس لیے کہ یہ مرحلہ تو وہی، آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر، والا ہے، کیوںکہ کچھ بھی نہ سوچنے اور کسی بھی نتیجے تک نہ پہنچنے کی صورت میں اس سچائی سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم نے اس سوال کو درخورِ اعتنا ہی نہیں جانا، توجہ ہی نہیں دی اس پر۔

اب اگر ایسا ہے تو پھر محض اس اعتراف پر بھی بات ختم نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ چلیے ٹھیک ہے، دوچار، دس بیس، سو دو سو ادیبوں شاعروں نے اہمیت نہیں دی، کیا سب کے سب، چھوٹے بڑے، نئے پرانے لکھنے والوں میں سے کسی کو بھی اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔ زیادہ نہ سہی، لیکن چند ایک لوگ تو بہرحال اس عہد کے ادیبوں شاعروں میں ضرور ایسے ہوں گے جو اپنی تہذیب، معاشرے اور ادب کے حوالے سے سوچیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو انھوں نے اس سوال پر غور کیوں نہیں کیا— اور اگر کیا ہے تو پھر کس نتیجے پر پہنچے اور جس پر پہنچے اُس کا اظہار کیوں نہیں ہوا؟

واقعہ یہ ہے کہ معدودے چند ہی سہی، لیکن سوچنے والے لوگ اب بھی اس معاشرے میں بہرحال پائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے، جب وہ سوچتے ہیں تو کوئی نہ کوئی رائے بھی قائم کرتے ہیں، اور اس رائے کا اظہار بھی کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی صورت میں ہوتا ہے۔ لہٰذا یہاں ہمیں رُک کر اپنے ادب کی صورتِ حال اور ادیبوں کے معاملات کو دیکھنا ہوگا، تب ہی اصل بات ہم پر واضح ہوپائے گی۔ ذرا توجہ دیجیے تو معلوم ہوگا اب مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ معاشرے کی اکثریت کی طرح ہم بیشتر ادیب شاعر لوگ بھی اوّل تو اپنے اپنے جزیروں پر جی رہے ہیں۔ جہاں ہم اپنی ذاتی دل چسپی کے موضوعات اور معاملات میں مگن رہتے ہیں۔

بلاشبہ ادب کا بہت گہرا اور اہم سروکار اپنی اجتماعی زندگی اور اجتماعی شعور سے ہوتا ہے، لیکن افسوس کہ اب ہم ادیب شاعر لوگ اپنے اجتماعی عمل میں بھی اپنی شرکت کی صورت انفرادی دائرے میں رہتے ہوئے بنانا چاہتے ہیں۔ اجتماعی رویوں کی تشکیل کے لیے کوئی ذمے داری اٹھانے سے ہمیں اب کوئی زیادہ تعلق نہیں رہا ہے۔ اب تو یہ ہے کہ اگر ہم سب کبھی کسی سبب سے کہیں ایک جگہ اکٹھے ہوتے بھی ہیں تو اپنے اپنے الگ مقاصد اور الگ اہداف کے ساتھ۔ یہی نہیں، بلکہ اپنے اپنے تحفظات، تعصبات اور ترجیحات کے سخت حفاظتی انتظام کے ساتھ، جو دراصل ہمارے لیے ایئر ٹائٹ کمپارٹمنٹس کا کام کرتے ہیں۔ وہ کسی رائے کی ہوا، کسی خیال کی آواز اور کسی سوچ کی خوش بو ہم تک نہیں پہنچنے دیتے۔ اس لیے سچ یہ ہے کہ اب ہم لوگ آپس میں ملتے ہوئے بھی نہیں مل پاتے۔

ادیب کے تو وجود کا اثبات ہی اُس کے خیالات، آرا اور تصورات سے ہوتا ہے، قطعِ نظر اس سے کہ وہ خیالات دوسروں سے ہم آہنگ ہوتے ہیں یا متصادم۔ اگر ادیب کام نہیں کررہا، اُس کی رائے سامنے نہیں آرہی، اس کے خیال کا اظہار نہیں ہورہا یا اس کی آواز سنائی نہیں دے رہی تو اس کا ہونا اور نہ ہونا دونوں برابر ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ تہذیب کا کوئی مرکزی مسئلہ اور ادب کا کوئی بنیادی سوال کسی انفرادی کوشش سے متعین نہیں ہوتا۔ ہاں، انفرادی کوشش اس کی نشان دہی کرکے ہماری توجہ اُس کی جانب مبذول کراسکتی ہے۔ تاہم بنیادی سوال کے تعین کے لیے ضروری ہے کہ سماج کا اجتماعی شعور بروے کار آئے اور اجتماعی ضمیر آواز کے سانچے میں ڈھل کر ابھرے۔ اس کام کے لیے ذرائع تو اور بھی ہوسکتے ہیں، لیکن سب سے مؤثر اور دیرپا اثرات کا حامل کام بہرحال ادب ہی کے توسط سے ہوسکتا ہے۔ اب اگر ادیب اجتماعی احساس سے دور کہیں اپنی اپنی انفرادی دنیا میں جی رہے ہیں تو بتائیے، ہمارے یہاں اس عہد کا بنیادی سوال طے ہو تو آخر کیسے؟

ایک زمانہ تھا، ہمارے یہاں پورے معاشرے کی طرف سے سوچنے، غور کرنے ہی کا نہیں، بلکہ بولنے اور اظہار کرنے کا کام بھی ادیبوں نے سب سے بڑھ کر اپنے ذمے لے رکھا تھا۔ ادیب سوچتے تھے، کسی جگہ اکٹھے ہوتے اور اپنے خیالات و آرا کا اظہار کرتے، بات چیت میں گرماگرمی بھی ہوتی۔ ناگفتہ باتیں بھی ہوجاتیں، یہاں تک کہ ایک دوسرے پر بعض اوقات الزامات بھی دھر دیے جاتے۔ خوب بک بک جھک جھک ہوتی، لیکن اس کے دو بڑے فائدے تھے۔ ایک یہ کہ ہمارے معاشرے کی طرف سے یہ فرضِ کفایہ ادا تو گنے چنے افراد کرتے تھے، لیکن پورا معاشرہ ایک بڑے وبال سے بچا رہتا تھا۔ وہ وبال تھا، لاتعلقی اور بے حسی کا۔ دوسرے یہ کہ ادب کا ایک مرکزی دھارا ہوا کرتا تھا، جس میں مختلف ذہن، نظریات اور آرا کے حامل ادیب شامل ہوتے تھے جو اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے، ایک دوسرے کے خیالات کو جانتے اور ان کا سامنا کرتے تھے۔ اس طرح کچھ نہ کچھ نئے افکار و خیالات سامنے آنے کا بھی ایک عمل چلتا رہتا تھا۔

یہ صورتِ حال ادب کے لیے تو خیر نیک فال تھی ہی، لیکن ساتھ ہی اس کا ایک مثبت اثر معاشرہ بھی قبول کرتا تھا۔ سب سے پہلے تو یہ ہوتا کہ معاشرے کا اپنے عہد کے ادب اور ادیبوں سے ایک جدلیاتی نوعیت کا رشتہ قائم رہتا اور دوسرے ادب کی طرح سماج میں بھی ایک سے زائد آرا، تصورات اور خیالات کا راستہ کھلا رہتا تھا۔ تمام تر اختلافات کے باوجود ان کے ہونے سے انکار کی گنجائش نہیں تھی۔ اب جو یہ سلسلہ ادب میں ختم ہوا ہے تو اس کا اثر معاشرے پر بھی واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

آج اس معاشرے کا ہر فرد یا چلیے یوں کہہ لیجیے کہ اس کی ایک بڑی اکثریت اپنے اپنے تئیں یہ سمجھتی ہے کہ جو اُس کی رائے ہے، بس وہی پورے معاشرے کی رائے ہے یا ہونی چاہیے۔ اس سوچ نے معاشرے میں عدم برداشت کے رویے کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ آج ہمارے یہاں اگر کوئی شخص عام ڈگر سے ہٹ کر کسی ایک الگ رائے کا یا اپنے اختلاف کا اظہار کرنا بھی چاہتا ہے تو تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے اور بالعموم خوف کی وجہ سے ایسا نہیں کرتا۔ منہ بند رکھنے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کے بیشتر افراد اپنی اپنی سوچ، خیال، فکر یا نظریے کے اسیر ہوکر رہ گئے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہمارا پورا معاشرہ گھٹن کا شکار ہے۔

اب پوچھا جانا چاہیے کہ آخر ہمارے ادیبوں نے بات کرنی کیوں چھوڑ دی؟ اس سادہ سے سوال کے کئی ایک جوابات ہوسکتے ہیں، یہ کہ پہلے ان کے پاس وقت اور پلیٹ فارم دونوں ہوا کرتے تھے جو کہ اب نہیں ہیں۔ حالاںکہ ہم دیکھ رہے ہیں اب اخبارات، رسائل و جرائد اور ٹی وی چینلز کی بہتات ہے، لیکن اب وہاں ادب اور ادیب کی گنجائش کتنی رہ گئی ہے، یہ بھی آپ ہم، سبھی جانتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ہے کہ پہلے مختلف نظریات اور تصورات موجود تھے، سو اُن کے تحت ادیبوں کے ذہنی رویے مرتب ہوتے، ان سے اتفاق و اختلاف کو ادیب کا بنیادی حق سمجھا جاتا تھا اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ یہ کہ پہلے معاشرہ ادب اور ادیب کو وقعت دیتا تھا اور اس کی بات سنی جاتی تھی اور اس کا اثر بھی معاشرے میں کسی نہ کسی سطح پر محسوس کیا جاسکتا تھا، اس لیے وہ اپنی رائے کے اظہار کا کام شوق اور ذمے داری سے کرتا تھا۔ آج معاشرے کو ادیب کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی، سو ادیب بھی اب اُس کے لیے کسی فکر میں مبتلا نہیں ہے۔

اس نوع کے کچھ اور جوابات بھی ہوسکتے ہیں۔ تاہم اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے اگر ان نکات پر ہی غور کرلیا جائے تو صورتِ حال بڑی حد تک واضح ہوجاتی ہے۔ فی الوقت جو کچھ کہا گیا ہے، اُس کے حق میں اور خلاف بھی کچھ دلائل دیے جاسکتے ہیں، لیکن بہرحال یہ سچ ہے کہ ان میں سے کسی بات کو دو ٹوک انداز میں رد تو نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ یہ ساری باتیں اپنی اپنی جگہ حقیقتِ حال کا اظہار کرنے والے مسائل کو بیان کررہی ہیں۔ چلیے مانے لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہے، پھر بھی اس پر اتنا تو ضرور کہا جاسکتا ہے کہ چاہے جو بھی ہے، لیکن یہ سب آرا پوری سچائی کا اظہار نہیں کررہیں، بلکہ جزوی صداقت پر مبنی ہیں۔ ان کے ساتھ کچھ اور حقائق کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے، ان کے بغیر اس عہد میں ہمارے ادب اور سماج کی صورتِ حال کا پورا منظرنامہ سامنے نہیں آسکتا۔

وہ حقائق یہ ہیں کہ ہمارے ادیب نے خود کو وقت اور حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا ہے۔ اُس نے ایسا کیوں کیا ہے، یہ ایک الگ موضوع ہے، جس پر گفتگو ہونی چاہیے اور اس کی تفتیش بھی۔ تاہم یہ طے ہے کہ اب اس نے اپنے کام اور مقام کو فراموش کرکے کچھ اور چیزوں کو توجہ کا مرکز بنالیا ہے۔ ادب ہر تخلیق کار سے طلبِ دنیا کے معاملے میں ایک سطح کی بے نیازی اور درویشی کا تقاضا کرتا ہے جسے ہمارا آج کا ادیب اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اُس کے اندر بھی آج کے بہت سے کرپٹ سیاست دانوں اور افسرِ شاہی جیسے خیالات پیدا ہوگئے ہیں۔ وہ دنیا میں اپنا حصہ وافر مقدار میں چاہتا ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ دنیا کو اپنے حصے سے زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔

ادب، اُس کے معاملات، اُس میں اٹھائے گئے سوالات اور پیش کیے گئے خیالات تو سب کے سب غیرمادّی ہوتے ہیں۔ ہمارا ادیب اُن سے زیادہ اب مادّی اشیا پر توجہ دیتا ہے۔ پہلے اس کا کام اس کے لیے خوشی اور تسکین کا مرکز تھا، لیکن اب یہ مرکز بدل گیا ہے۔ پہلے اُس کے لیے عزتِ نفس یا انا بڑی قیمتی شے ہوا کرتی تھی، لیکن اب تو وہ اُسے اپنے کام کا گردانتا ہی نہیں، اس لیے کہ انا تو اس کی ترقی کے راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ پہلے وہ حالات کی پروا کیے بغیر صرف اور صرف ادب میں اپنی آواز، اپنے خیال اور کردار کی طاقت پر زندہ رہنا چاہتا تھا، لیکن اب اسے زندگی میں آسودگی کا وہ سارا سامان درکار ہے جو شاہانہ طرزِحیات کا حصہ ہوتا ہے۔ پہلے سمجھوتا کرنا اس کے لیے موت کے مترادف تھا، لیکن اب وہ ایسا نہیں سمجھتا۔

اس صورتِ حال میں ظاہر ہے، اصل کام اور اصل شے تو کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور آدمی کہیں کا کہیں جانکلتا ہے۔ بس یہی کچھ ہوا ہے ہمارے ادیب کے ساتھ۔ اس لیے ہمارے عہد میں ادب کو کس بنیادی سوال کا سامنا ہے، یہ طے ہی نہیں ہوپارہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔