گاؤں کی زندگی، شہر کے مزے

چوہدری فرہاد علی اختر  اتوار 17 مارچ 2019
باغوں، پھولوں، تاریخی عمارات اور خوش اخلاق لوگوں کا شہر ’’ہینفرڈ‘‘۔ فوٹو: فائل

باغوں، پھولوں، تاریخی عمارات اور خوش اخلاق لوگوں کا شہر ’’ہینفرڈ‘‘۔ فوٹو: فائل

رحیم یار خان:  ویسے تو ’’ہینفرڈ‘‘ سینٹرل کیلیفورنیا کا ایک چھوٹا شہر ہے جو یہاں کے تین بڑے شہروں یعنی لاس اینجلس، سان فرانسسکو اور ریاستی دارالحکومت سیکرامنٹو سے تقریباً برابر فاصلے پر واقع ہے۔

ٹرین یا سڑک کے راستے آپ چار یا ساڑھے چار گھنٹے میں ان تینوں شہروں میں پہنچ سکتے ہیں۔ اگر آپ کبھی امریکا آئیں تو موسم بہار کے چند دن یہاں ضرور گزاریں۔ ویسے تو آپ کسی موسم میں آئیں لیکن موسم بہار یہاں اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔

شہر کے چاروں طرف باغات ہی باغات ہیں اور جب باداموں اور خوبانیوں کے درختوں پر پھول کھلتے ہیں تو انسان مسحور ہوکر رہ جاتا ہے۔ چونکہ ان دنوں بہار کا موسم ہے تو ہر طرف باغوں میں سفید، گلابی اور دیگر رنگوں کے پھول کھلے ہوئے ہیں۔ یہاں قدیم تاریخی عمارات بھی ہیں اور جدید شہر کی عمارتیں اور رہائشی علاقے بھی ہیں لوگ بہت زندہ دل اور باذوق ہیں کوئی گھر ایسا نہیں جس کے آگے خوب صورت پھول نہ اگائے گئے ہوں۔

شہر کے اردگرد میلوں میں پھلوں کے باغات تو ہیں ہی شہر کے اندر بھی خالی کھیتوں میں باغات موجود ہیں ہمارے گھر کے سامنے ہی اعلیٰ قسم کے مالٹوں کا باغ ہے ہم اکثر وہاں سے 20-10 کلو مالٹے لے آتے تھے۔ نیا آنے والا سیاح سوچتا ہے کہ خوب صورت شہر باغوں کے اندر بسایا گیا ہے یا شہر بساکر اس کے اندر باغ لگائے گئے ہیں۔ پھلوں میں چیری، انگور، خوبانی، آلو بخارا، سیب، ناشپاتی، مالٹا، زیتون، بادام اور اخروٹ کے باغ میلوں دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مجھے قصبے سے پانچ میل دور ایک باغ کے مالک نے بتایا کہ کیلیفورنیا وادی میں 250 قسم کے پھل اور فصلیں پیدا ہوتی ہیں۔ مکئی، گندم اور کپاس بھی اہم فصلیں ہیں۔

اگر مطلع صاف ہو تو ہینفرڈ کے دونوں طرف بہت دور سرمئی پہاڑ نظر آتے ہیں۔ یہ نظارہ بہت خوب صورت ہوتا ہے۔ آپ ایک خوب صورت وادی کے مرکز میں موجود ہیں۔ ہینفرڈ پہنچتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ شناختی کارڈ والے دفتر میں جاکر شناختی کارڈ بنوانے کے لیے اپلائی کردیا۔ دفتر میں کافی رش تھا ڈرائیونگ لائسنس بھی یہیں بنتے تھے۔ کاؤنٹر کے آگے لائن بنی ہوئی تھی۔ کوئی شور یا افراتفری نہیں تھی۔ جدید کیمرے سے ایک محترمہ نے میری تصویر بنائی وہ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھیں۔ ایک دفعہ تو مجھے غلط فہمی ہوگئی کہ یقیناً یہ محترمہ مجھے جانتی ہوںگی۔ جب دوسرے کاؤنٹر پر دوسری محترمہ نے بھی اسی طرح مسکراہٹ اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا تو مجھے پتا چلا کہ یہاں آفیسر واقعی عوام کے دوست اور خادم ہوتے ہیں اور میں حیران ہو رہا تھا کہ آفیسر تو وہ ہوتے ہیں جس کے ماتھے پر غصے سے بل پڑے ہوئے ہوں۔ کافی دیر آپ کو انتظار کروائے بلکہ باہر کھڑا رکھیں گے۔

بات بات پر ڈانٹ ڈپٹ کریں گے۔ آپ آفیسر کے کمرے میں جاتے ہوئے ڈریں۔ اور پھر آپ کو کہا جائے آج ہماری میٹنگ ہے کل آنا۔ پتا نہیں یہ کیسے آفیسر ہیں ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہیں۔ آپ کا ہر جائز کام منٹوں میں ہوجاتا ہے اور پھر آفیسر یا اہل کار آپ کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں اور دعا بھی دیتے ہیں کہ آپ کا دن اچھا گزرے، اور دوبارہ اگر آپ تشریف لائیں تو آپ کو خوش آمدید کہیں گے اور یہ بھی کہ آپ کا شناختی کارڈ آپ کے گھر ڈاک کے ذریعے آجاتا ہے آپ کو دوبارہ دفتر جانے کی ضرورت نہیں۔

آئیے اب دوبارہ ہینفرڈ شہر چلتے ہیں۔ یہ شہر تقریباً 125 سال پرانا ہے، یہاں بھی امریکا کے دیگر شہروں کی طرح مختلف نسلوں یا قومیتوں کے لوگ بستے ہیں۔ ان سب کے دادا پردادا مختلف براعظموں سے یہاں آکر آباد ہوئے اور یہ سلسلہ پوری دنیا سے ابھی تک جاری ہے۔ کیلیفورنیا میں ہسپانوی نسل کے کافی لوگ آباد ہیں۔ ایشیائی اور افریقی بھی ہیں۔ یہ سب اب امریکی قوم ہیں۔ انگلش اور ہسپانوی یہاں کی دو بڑی زبانیں ہیں۔ قصبے میں ہر مذہب کے لوگ موجود ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے ہیں۔ ہر مذہب اور عقیدے کے لوگوں کو اپنی عبادت گاہ بنانے کا حق حاصل ہے۔ حکومت اور لوگ بھی تعاون کرتے ہیں۔ اسی لیے قصبے میں مندر، مسجد، گوردوارہ، گرجا اور بدھ مت کی عبادت گاہیں بھی موجود ہیں جہاں لوگ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرتے ہیں۔ ہمارے گھر سے مسجد تقریباً 3 کلومیٹر دور تھی ہم نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے گاڑی پر وہاں جاتے تھے۔ نمازیوں کی اکثریت عرب مسلمانوں کی تھی کیوںکہ پاکستانی اور انڈین مسلمانوں کی آبادی یہاں بہت ہی تھوڑی ہے۔ عرب بھائی بہت محبت اور خلوص سے ملتے تھے۔

ہینفرڈ شہر میں سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ اس چھوٹے سے شہر کی آبادی صرف 56ہزار ہے لیکن دن کو سیکڑوں لوگ اردگرد سے بھی شہر میں ملازمت یا کاروبار کے لیے آتے ہیں۔ ٹورسٹ اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔ یہ شہر کُھلا کُھلا اور پھیلا ہوا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ شہر 6-5 کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ مارکیٹ، دفاتر یا دیگر کاروباری عمارات کے اردگرد پارکنگ کے لیے بہت کھلی جگہ چھوڑی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ گرین بیلٹ تو ہر جگہ موجود ہوتی ہے، جس میں پھول دار پودے اور خوب صورت درخت لگے ہوئے ہیں۔ گراسی پلاٹ بھی ساتھ ہوتے ہیں۔ ان سب کی روزانہ دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ گھاس کے پلاٹوں کی کٹائی باقاعدگی سے کی جاتی ہے۔ اس لیے ہر طرف ایسے نظر آتا ہے جیسے سبز قالین بچھے ہوئے ہوں۔ گھروں کے آگے گرین بیلٹ اور پودوں کی دیکھ بھال کی ذمے داری گھر والوں کے ذمے ہوتی ہے۔ تمام گھروں کی ڈھلوان چھتیں اور دیواریں خوب صورت رنگوں سے مزین ہوتی ہیں۔ ہر گھر کے رہنے والے اپنے گھروں کے آگے طرح طرح کے خوب صورت پھول اگانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اس طرح پورا شہر خوب صورت ہوجاتا ہے۔

لوگ سیر و تفریح کے بہت شوقین ہیں۔ ساحلوں، دریاؤں اور جنگلوں میں دور دور کا سفر کرتے ہیں اور وہاں سیر و تفریح کرتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیاں رکھی ہوئی ہیں جو ایک گھر کا منظر پیش کرتی ہیں۔ ان میں بیڈ، کرسیاں سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ اپنی گاڑی کے ساتھ اسے نتھی کرکے دور دور جاتے ہیں اور زندگی کا بھرپور لطف اٹھاتے ہیں۔ شہر میں بوڑھوں کے کلب بنے ہوئے ہیں جہاں وہ مختلف کھیل کھیلتے ہیں، ورزش کرتے ہیں اور موسیقی اور ڈانس سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بوڑھے لوگ ڈانس میں حصہ لے کر بہت خوش ہوتے ہیں۔

میاں بیوی جب مل کر ڈانس کرتے ہیں تو مسکراہٹ اور خوشی ان کے چہروں سے عیاں ہوتی ہے۔ اگر آپ اکیلے ہیں آپ کی اہلیہ فوت ہوچکی ہیں یا میاں بیوی میں علیحدگی ہوچکی ہے تو بھی کوئی غم نہیں آپ کا ساتھ دینے کے لیے کوئی تو موجود ہوگا۔ اور یہ سب ایک دوسرے کی خوشی کے لیے ہوگا۔ میں نے تقریب میں دیکھا کہ ایک معذور سیاہ فام شخص جو وہیل چیئر پر تھا اور بوڑھا تھا وہ بڑی حسرت سے ڈانس دیکھ رہا تھا۔ ایک سفید فام امریکی خاتون اس کے پاس آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کے ساتھ ڈانس شروع کردیا۔ بعد میں اسے دعا دی کہ اللہ تعالیٰ آپ کی زندگی سے دکھ دور کرے اور آپ زندگی خوشی کے ساتھ گزاریں۔

ہینفرڈ کے لوگ بہت خوش اخلاق اور ملنسار ہیں۔ میں جب امریکا پہنچا تو سب سے پہلے مجھے یہ ہدایات دی گئیں کہ آپ چوںکہ پاکستان سے نئے نئے یہاں آئے ہیں یہاں کا کلچر بہت مختلف ہے، آپ محتاط رہیے اور چند باتوں کا خیال رکھیے۔ راہ چلتے اجنبی لوگوں سے بات چیت نہ کیجیے چھوٹے بچوں کو ہاتھ نہ لگائیے انہیں پیار نہ کیجیے، انھیں گود میں نہ اٹھائیے۔ کسی اجنبی کی تصویر نہ لیجیے۔ یہاں مغرب میں ان باتوں کو سخت ناپسند کیا جاتا ہے۔ میں گھبرا گیا میں تو ٹریول رائٹر ہوں میں نے سفر کا حال احوال لکھنا لکھانا ہوتا ہے۔ تصویر بنانی ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہ کسی اجنبی کی گاڑی میں نہ بیٹھیں اور نہ ہی کسی ناواقف کو لفٹ دیں۔

مجھے جو ہدایات دی گئیں میں نے کبھی اس پر عمل نہ کیا، بلکہ الٹ عمل کیا اور یہ تجربہ خوش گوار رہا۔ ایک دفعہ میں نے راستے میں ایک خاتون کو اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ سڑک پر جاتے دیکھا ایک بچہ 5-4 سال کی عمر کا بہت چھوٹی بائیسیکل پر سوار تھا دوسرا بچوں والی ٹرالی میں تھا جسے وہ خاتون ہاتھ سے دھکیل رہی تھی۔ مجھے یہ منظر بہت اچھا لگا۔ میں اس کی تصویر بنانا چاہتا تھا۔ میں نے خاتون کو ہیلو ہائے کیا اور جھٹ فرمائش کردی کہ اگر وہ برا نہ منائے تو تصویر بنالوں؟ خاتون نے جھٹ جواب دیا کیوں نہیں؟ آپ خوشی سے تصویر بنائیے۔ پھر میں نے کہا کہ بچے مجھے دے دیں آپ بچوں کے ساتھ میری تصویر بنائیں وہ فوراً بولیں کیوں نہیں اور میں نے کیمرا انھیں دے دیا۔ انہوں نے کئی تصاویر بنائیں اور پھر مجھے یہ دعا بھی دی Have a Good Day (آپ کا آج کا دن اچھا گزرے)۔

ایک دن میں شہر میں مارکیٹ کے سامنے کھڑا تھا۔ دھوپ تیز تھی میں لوکل بس کے ذریعے واپس گھر جانا چاہتا تھا۔ میں نے ایک ادھیڑ عمر جوڑے سے بس اسٹاپ اور بس روٹ نمبر کا پوچھا۔ انھوں نے کسی اور سے معلومات کرکے مجھے بتایا۔ کچھ دیر کے بعد جب وہ اپنی گاڑی پر واپس جا رہے تھے تو گاڑی روک کر نیچے اتر آئے اور مجھے اپنے ساتھ بیٹھنے کا کہا کہ ہم آپ کو آپ کے گھر چھوڑ آئیں گے۔ میں نے ہدایت کے مطابق ان کا شکریہ ادا کیا کہ ابھی بس آئے گی میں بس پر چلا جاؤں گا، لیکن وہ نہ مانے اور مجھے اپنی گاڑی میں میرے گھر پہنچا آئے۔ میں نے ہنستے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور ہدایات کے بارے میں بتایا تو وہ دونوں بھی بہت ہنسے اور کہنے لگے کہ ہم بھی ڈر رہے تھے کہ اجنبی نہ جانے کیسا شخص ہوگا۔ لیکن دنیا میں ایسے اچھے لوگ ہر جگہ موجود ہیں۔ اسی لیے یہ دنیا خوشیوں کا گہوارہ ہے۔

ایک دن گھر میں بچے کی سال گرہ کی تقریب تھی۔ بچوں کے ساتھ ان کی ماؤں کو بھی مدعو کیا گیا تھا، کیوںکہ چھوٹے بچے اکیلے نہیں آسکتے۔ تقریب شروع ہوگئی۔ 12-10 امریکی خواتین اپنے بچوں کو لے کر آئی تھیں۔ کیک کاٹا گیا تالیاں بجیں مبارک سلامت کا شور ہوا پھر مختلف کھانے پیش کیے گئے۔ میں دوسری طرف صوفے پر بیٹھا دیکھ رہا تھا کہ ایک خاتون کا تقریباً 8-7 ماہ کا بچہ اپنی ماں کو بے حد تنگ کر رہا تھا وہ مسلسل رو رہا تھا۔ جب وہ بچے کو لے کر کھڑی ہوجاتی تو بچہ خاموش ہوجاتا جب وہ کھانے کے لیے بیٹھتی وہ زور سے رونا شروع کردیتا۔ آخرکار مجھ سے نہ رہا گیا، میں نے اس خاتون سے کہا کہ آپ بہت ڈسٹرب ہو رہی ہیں بچہ مجھے دیں آپ آرام سے کھائیں پییں۔ اس خاتون نے فوراً بچہ مجھے دے دیا اور خود تقریب میں مصروف ہوگئیں۔ اب میں مشکل میں تھا اگر میں بچے کو لے کر کھڑا ہوجاتا تو بچہ خاموش رہتا، جب بیٹھتا تو بچہ چیخ و پکار شروع کردیتا۔

تقریباً 2 گھنٹے تقریب جاری رہی۔ میں بچے کو لے کر ٹہلتا رہا۔ اس دوران بچے کی ماں نے ایک دفعہ بھی مڑ کر پیچھے کی طرف نہ دیکھا۔ آخر کار تقریب ختم ہوئی وہ خاتون میرے پاس آئیں اور میرا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور بچہ واپس لیا۔ میں نے خاتون سے کہا محترمہ کوئی بات نہیں اگر دوبارہ کسی تقریب میں جانا ہو تو مجھے ساتھ لے لیا کریں۔ یہ سن کر شرکائے تقریب نے ایک زوردار قہقہہ بلند کیا۔ تقریب کے بعد جب سب مہمان چلے گئے تو میں نے ہدایات دینے والوں کو باقی واقعات بھی سنائے تو انھوں نے کہا کہ ایسے ہوتا تو نہیں لیکن پتا نہیں امریکی آپ کے ساتھ اس طرح دوستانہ رویہ کیوں رکھتے ہیں؟ میں نے کہا اگر آپ کا اخلاق اچھا ہو اور آپ کی نیت صاف ہو تو آپ دنیا میں ہر معاشرے میں ایڈجسٹ ہوسکتے ہیں کیوںکہ دنیا میں ہر جگہ اچھے لوگوں کی اکثریت ہے۔

ہمارے مذہب اسلام نے بھی ہمیں پیار محبت اور سلامتی کا درس دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ کسی سے نسل یا مذہب کی بنیاد پر نفرت نہ کریں۔ دوسروں سے پیار کریں خوشیاں بانٹیں کسی کو دکھ یا تکلیف نہ دیں۔ ہر مشکل وقت میں دوسروں کی بھرپور مدد کریں۔ اس طرح دنیا خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گی۔

یہاں ادیبوں کی ایک انجمن بھی ہے، سنیئر لوگوں کی اپنی انجمن ہے۔ حکومت سنیئر لوگوں کو بہت سی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ ایک بہترین لائبریری بھی ہے۔ جہاں کمپیوٹر بھی موجود ہیں۔ آپ اخبارات کا مطالعہ کیجیے جو کتاب پسند آئے اسے خود نکالیے وہاں پڑھیے یا گھر لے جائیے، انٹرنیٹ استعمال کیجیے سب فری ہے۔ ممبر شپ کی بہت معمولی فیس ہے۔ ہر انجمن کی ہفتہ وار میٹنگز ہوتی ہیں۔ میں نے بھی بہت سی میٹنگز میں شرکت کی۔ اپنی تحریریں، شاعری پڑھ کر سنائیے اور داد پائیے۔ میں نے بھی اپنی سیر و سیاحت کے بارے میں باتیں ان سے شیئر کیں۔ میں انھیں پاکستان کی خوب صورت پہاڑی وادیوں کا احوال سنایا کرتا۔ تاریخی عمارات کا ذکر کرتا اور انھیں خوب صورت وادیوں کی تصاویر دکھاتا۔ خوب صورت چولستان میں گھاس چرتے ہوئے گائے اور اونٹوں کی تصاویر دکھاتا۔

وہ یہ سب سن کر اور تصاویر دیکھ کر بہت حیران اور خوش ہوتے کہ پاکستان اتنا خوب صورت ملک ہے۔ اکثر لوگوں کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان جا کر یہ سب وادیاں دیکھیں۔ وہاں میں ایک زندہ دل بوڑھے ادیب کو بھی ملا جس کی عمر تقریباً 100 سال تھی، وہ بہترین مضامین لکھتا اور ہفتہ وار میٹنگ میں پڑھ کر سناتا۔ مجھے پتا چلا کہ وہ بوڑھوں کے کلب میں بھی باقاعدگی سے جاتا ہے اور وہاں موسیقی سنتا ہے اور ڈانس بھی کرتا ہے۔ اس کی اہلیہ چند سال پہلے وفات پاگئی تھیں لیکن کلب کی کوئی نہ کوئی خاتون احتراماً اس کا ساتھ دیتی۔ ایک دن میں نے اس سے کہا کہ میں آپ کی ڈانس کرتے ہوئے تصویر بنانا چاہتا ہوں، آپ اجازت دیں گے، تو اس نے کہا کیوں نہیں آپ فلاں ٹائم وہاں آجائیں، اور میں نے ڈانس کرتے ہوئے مسٹر کینیڈی کی تصویر بنالی۔

مغربی معاشرے میں کسی کو بوڑھا نہیں کہتے۔ کسی کو معذور نہیں کہتے۔ ان کو عزت و احترام کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ بوڑھوں کو سنیئر سٹیزن کے طور پر پکارا جاتا ہے۔ دکان میں کوئی داغ دار پھل نہیں بیچا جاتا۔ کم تولنا، جھوٹ بول کر کوئی چیز فروخت کرنا سخت برائی شمار کی جاتی ہے۔ اگر آپ کو کوئی چیز پسند نہ آئے تو مہینوں بعد بھی واپس کرسکتے ہیں۔ لوگ عورتوں اور بچوں کا احترام کرتے ہیں، ٹرینوں، بسوں اور مارکیٹوں میں انھیں اولیت دیتے ہیں احتراماً ان کے لیے دروازہ کھولتے ہیں، بات بات پر معافی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ مثلاً آپ کا کندھا یا ہاتھ دوسرے کو لگ جائے فوراً معذرت کرتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا تھا ہم یہ سب اچھی باتیں کیوں نہیں کرتے؟

ہینفرڈ میں ایک عجائب گھر بھی ہے۔ پرانی عمارتوں میں اعلیٰ عدلیہ کی عمارت، ریلوے اسٹیشن، ہینفرڈ اولڈ فیلوز، فاکس تھیٹر، کاؤنٹی ہال، اوپیرا ہاؤس، تاریخی پوسٹ آفس، تاریخی چرچ، سوک آڈیٹوریم، ٹوسیٹ ٹمپل عمارت اور آرئیشیا ہوٹل وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ قدیم لوگوں کی تعمیر کردہ عمارات بھی ہیں۔ ایک ڈیری آئس کریم کی دکان پورے کیلیفورنیا میں مشہور ہے۔ دکان کا نام ’’سپیریر ڈیری‘‘ ہے لوگ دوسرے شہروں سے بھی یہاں آئس کریم کھانے آتے ہیں۔ 1929 میں قائم ہونے والی یہ دکان اب ہینفرڈ کی پہچان بن چکی ہے۔

ہینفرڈ شہر ریلوے لائن اور فری وے کے ذریعے پورے امریکا اور دیگر ریاستوں سے جڑا ہوا ہے۔ گاڑی نکالیے یا خوب صورت سبک رفتار ٹرین میں بیٹھیں پورا امریکا گھوم آئیں بس جیب میں پیسہ ہونا چاہیے یہاں دو منزلہ ٹرینیں بھی چلتی ہیں۔ انجن کبھی آگے ہوتا ہے کبھی پیچھے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا انجمن کو آگے کرنے کا تکلف نہیں کیا جاتا۔

ہینفرڈ کے نواح میں ایک صاحب کا 4-3 ایکڑ کا ایک چھوٹا سا زرعی فارم ہے اس میں اس نے زیادہ تر بلیو بیری کا باغ لگا رکھا ہے۔ اس کے باغ میں بیری کی بہت سی اقسام کے پودے کاشت کیے ہوئے ہیں بیری یہاں مہنگی بکتی ہے لیکن مسٹر جان الیوس (John Olivas) نے اعلان کر رکھا ہے کہ ہفتہ وار چھٹی کے 2 دنوں میں مفت بیری چُنیں اور کھائیں بے شمار خاندان ہفتہ اتوار کو آتے ہیں اور مفت بیری کھاتے ہیں۔ لیکن گھر لے جانے کے لیے پیسے ادا کرنے پڑیں گے۔ میں مسٹر جان کے مہمان نوازی کے اس جذبے سے بہت متاثر ہوا۔ کیوں جناب! کیسی رہی ہینفرڈ کی سیر؟ یہاں دیکھنے کو بہت کچھ ہے گاؤں کی زندگی بھی ہے شہر کے مزے بھی ہیں، تاریخی عمارات بھی ہیں اور آرٹ بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔