دو آرٹسٹ ۔۔۔ بلکہ تین

محمد خالد اختر  اتوار 17 مارچ 2019
’’اچھا، کل رات کو آؤ،‘‘ میں نے کہا۔ ’’گاتے بھی ہو؟‘‘ فوٹو: فائل

’’اچھا، کل رات کو آؤ،‘‘ میں نے کہا۔ ’’گاتے بھی ہو؟‘‘ فوٹو: فائل

میں آموں کے باغ میں ایک گھاس کے قطعے پر کہنیوں کے بل لیٹا ہوا ’’باغ میں شام‘‘ کے عنوان کی ایک نظم کے چند شعر موزوں کر رہا تھا۔ (یہ میری طویل ترین اور کامیاب ترین نظم ہے) کہ میں نے سامنے سے دو آدمیوں کو آتے دیکھا، وہ اس قسم کے اوزار اٹھائے ہوئے تھے، جو موسیقی میں کام آتے ہیں اور ان کے پھٹے پرانے کپڑے اور چہروں کی مظلومیت ظاہر کرتی تھی کہ وہ دو ایسے آرٹسٹ تھے جو ناقدری زمانہ کا شکار تھے وہ میری طرف آرہے تھے۔

کسی نے غالباً ان کو بتادیا تھا کہ میں خود آرٹسٹ ہوں اور فن کے قدر دانوں میں سے ہوں۔ جہاں میں لیٹا تھا، وہ اس سے تھوڑی دور پرے مودب کھڑے ہوگئے… پھر کورنش بجالائے۔

ان میں سے ایک لمبا، میلی کچیلی ڈاڑھی لٹکائے شخص تھا۔ وہ کندھے سے طبلوں کی جوڑی لٹکائے ہوئے تھا اور سیدھا قصہ چہار درویش کے صفحات میں سے نکلا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ دوسرا جو ستار اٹھائے تھا، ایک بوٹے سے قد اور چھریرے جسم کا انسان تھا۔ اس کے پتلے، بھنچے سے چہرے پر ایک پرکشش سی مسکراہٹ تھی۔ اپنے میلے کالے کوٹ میں وہ ایک چھوٹا سا چنچل بھتنا لگتا تھا۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک عجیب ہتھار ڈلوا دینے والی صفت تھی۔ ایک بچہ بھی جان سکتا تھا کہ یہ شخص حقیقی آرٹسٹ ہے۔

’’کیوں، کیا بات ہے؟‘‘ میں نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔

دو کورنش بجالانے والے آدمیوں کے سامنے وہ حالت جس میں میں شعر لکھ رہا تھا، زیادہ پروقار نہ تھی۔

’’سرکار، ہم آپ کو کوئی خاص چیز سنانے آئے ہیں،‘‘ بھتنے نے کہا۔

’’مجھے راگ سے زیادہ دلچسپی نہیں۔‘‘

’’سرکار سن لیں، طبیعت خوش ہوجائے گی۔ آپ کے سننے کا راگ ہے، سرکار۔ وقت کی چیز ہو گی۔‘‘

’’میں اس وقت مصروف ہوں،‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں نظم لکھ رہا ہوں۔‘‘

میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے لٹک گئے۔ وہ میرے پاس بڑی امید سے آئے تھے اور اب ان کی مایوسی نے مجھے شرمندہ کر دیا۔ مجھ پر فاقوں کی نوبت تو کبھی نہیں آئی، مگر میں جانتا تھا کہ غریب، درماندۂ روزگار آرٹسٹوں کے لیے یہ دنیا بڑی ظالم ہے۔

پھر مجھے ایک خیال آیا۔ میں نے اگلے روز رات کو اپنے چند دوستوں کو کھانے پر مدعو کر رکھا تھا۔ یہ سازندے وہاں اپنے راگ سناسکتے ہیں۔

’’اچھا، کل رات کو آؤ،‘‘ میں نے کہا۔ ’’گاتے بھی ہو؟‘‘

’’ہاں سرکار،‘‘ بھتنے نے کچھ شک سے اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’میں تو صرف ستار بجاتا ہوں۔ بابا گا لیتا ہے۔‘‘

’’اچھا پھر کل…‘‘

ان کے چہرے کچھ روشن ہوگئے۔ وہ پھر کورنش بجالائے اور رخصت ہوگئے۔

’’ساتھی آرٹسٹ!‘‘ میں نے آہ بھری اور اپنی شعروں کی کاپی کو بند کرکے ایک فاختہ کی کُوکُو کے سُر پر سگریٹ پینے لگا۔

یہ جنوری کے اخری دن تھے۔ میرے مہمان چھ بجے شام ہی سے آنے شروع ہوگئے۔ ڈنر قدرے اسپیشل تھا اور وہ اسٹارچ سے اکڑے ہوئے کالر اور جیکٹ پہنے ہوئے تھے۔ یہ ایک ملا جلا فنکشن تھا اور اس میں خواتین بھی تھیں، اپنے بھڑکیلے کپڑوں اور رنگے ہوئے چہروں میں وہ بڑی حسین اور شاندار دکھائی دے رہی تھیں، انگورا بلیوں کی طرح۔ ان کے سامنے ان کے خاوند محض ان کے غلام اور ناز بردار لگتے تھے۔ جیسے جیسے مہمان آتے جاتے، میں ان کا پورچ میں استقبال کرتا اور بیٹھنے کے کمرے تک ان کی راہنمائی کرتا، جو چار سفید نیون لیمپوں سے منور تھا۔

کوئی سات بجے کے قریب میں نے ان دونوں کو آتے دیکھا۔ (میں ان کے بارے میں بھول ہی گیا تھا۔) سردی کافی تھی اور وہ دونوں اپنے پھٹے ہوئے کوٹوں میں بالکل ٹھٹھرے ہوئے تھے۔ میں نے بھتنے کے دانتوں کو بجتے ہوئے سنا۔

’’آ۔۔ آداب عرض، سرکار!‘‘ وہ دور سے کورنش بجالائے۔

میں قدرے تذبذب میں پڑگیا۔ اگرچہ وہ میرے ساتھی آرٹسٹ تھے، میں ان کے آنے پر زیادہ خوش نہ تھا۔ ان کو اب لوٹا دینا ظلم تھا، اس لیے کہ ان کے دل ٹوٹ جائیں گے۔ خود ایک آرٹسٹ ہونے کی وجہ سے میں جانتا تھا کہ ہمارے دل آبگینوں سے بھی زیادہ نازک ہوتے ہیں۔

کیا میں انہیں بیٹھنے والے کمرے میں لے جاؤں؟ وہاں وہ درمیان میں فرش پر بیٹھ کر اپنے ساز بجاسکتے ہیں۔ پھر میں نے وہاں بیٹھے ہوئے اسٹارچ سے اکڑی ہوئی قمیصوں والے مردوں اور ریشمی کپڑوں میں مغرور عورتوں کے بارے میں سوچا۔ یہ پھٹے لباس میں بدحال اور بے حیثیت آرٹسٹ ان کے بلند احساسات کو یقیناً ٹھیس پہنچائیں گے۔ ان کی نفرت اور حقارت کا نشانہ براہ راست مجھے بننا پڑے گا۔ ان میں سے کوئی بھی، میں نے سوچا، فن یا موسیقی کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں کرتا۔ بیٹھنے والے منور کمرے کی دنیا وسیع ضرور تھی، لیکن غیر فنکارانہ تھی۔ کھوکھلی، شوریدہ، تمسخر انگیز، جو اس سے مطلقاً بیگانہ تھی کہ ایک طویل نظم کی بحروں میں لکھنے والا شاعر کس قدر خون پسینہ بہا کر مصرعوں کو موزوں کرتا ہے۔

اٹھتی ہوئی بھنوؤں، خاموش حقارت کو جانتے ہوئے بھی میں نے آرٹسٹوں کو بیٹھنے والے کمرے میں بٹھایا۔ وہ سردی کے مارے مرغے بن رہے تھے۔ میں نے ان کو گرم چائے پلوائی اور انہیں گانا بجانا شروع کرنے کے لیے کہا۔ بھتنے نے، جس کا نام فیاض علی تھا، تھوڑا سا اٹھ کر آداب عرض کیا اور ایک فنکارانہ سنجیدگی سے اپنے ستار کو گھٹنے پر لٹایا اور اس کی چابیوں کو مروڑ کر اوزار کو سرتال سے درست کرنے لگا۔ وہ دونوں اپنے فن کے کمالات کے مظاہرے کی اجازت دیئے جانے پر بچوں کی طرح خوش تھے۔ ان کو غالباً یہ خیال ہی نہ تھا کہ ان کا وہ کسب اور علم جس پر وہ اتنے نازاں تھے، ان کے سننے والوں کے لیے ایک بے معنی شور ہوسکتا ہے۔ جس طرح راگ ان کو وارفتہ اور مسحور کردیتا تھا، اسی طرح ان کو یقین تھا کہ وہ دوسروںکو بھی خوش کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک پرانی روایت کے موسیقار تھے، انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ فلموں نے گانے کے مذاق کو عام اور سستا بنا دیا ہے، اور یہ کہ ان کی جنس کے خریدار اب خال خال رہ گئے تھے۔ وہ اپنے راگ ان لوگوں کے لیے چھیڑ رہے تھے جو… جو بہرے تھے، بدذوق تھے۔

’’سرکار یہ سمپورن راگ ہے، دھیان سے سنیے گا۔ شام کے وقت یہی موزوں ہے…‘‘

سازندوں کو شروع کرا کے میں بیٹھنے والے کمرے میں مہمانوں کے درمیان جابیٹھا۔ ان میں سے بعض رمی کھیلنے میں مشغول تھے، دوسرے ادھر ادھر کی باتیں کررہے تھے۔

طبلے کی تھپ تھپ اور ستار کا دھیما نوحہ کھلے دروازے میں سے اندر آنے لگا۔ اس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی۔ ہم سب اپنی باتیں کرتے رہے۔

’’ریڈ نائن جوکر ہے۔‘‘

’’ہاں۔ وہ میجر جنرل شیخ میرے برادر اِن لاء ہیں۔‘‘

’’مجھے اولڈ موبائل پسند ہے۔‘‘

’’شیورلیٹ بہترین ہے۔‘‘

’’یہ بہن… جلال دین سے خریدا ہے۔ اصلی ریشم ہے۔‘‘

ایک پرکشش، نازک اندام اور خوش مذاق خاتون نے مجھ سے کہا، ’’ان سے کہیے، کوئی فلمی گانا سنائیں۔‘‘

میں اٹھ کر سازندوں کے پاس گیا۔ فیاض علی سنجیدگی سے کسی استادانہ راگنی کو بجانے میں مگن تھا۔

’’بھئی، اسے بند کرو۔ یہ نہیں سنیں گے،‘‘ میں نے کہا۔ ’’کوئی فلمی راگ سناؤ۔‘‘

میں یہ دیکھ رہا تھا کہ اس سے ان کے دلوں کو تکلیف پہنچی۔ بوسیدہ ڈاڑھی والے طبلچی کی ڈاڑھی کے بال خفگی سے اینٹھ گئے۔ گو وہ روندے ہوئے مفلوک الحال آرٹسٹ تھے، مگر انہیں اپنے فن پر ناز تھا۔ فلمی راگ کا کہہ کر میں نے ان کی توہین کی تھی۔

بوسیدہ ڈاڑھی والا آدمی کوئی غزل گانے لگ گیا۔ اسے فلمی گیت نہ آتے تھے۔ وہ گانے کا استاد نہ تھا… کھانے کے بعد بھی وہ کچھ دیر ساز بجاتے رہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے سننے والوں کو پھانپ گئے ہیں، کیونکہ ان کے راگوں میں جان نہ پڑی۔ وہ بددل سے تھے، ان کے گانے سے کوئی بھی دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔

آخر میں نے انہیں رخصت ہونے کی اجازت دی۔ کچھ معذرت کے انداز میں، جیسے یہ ان کی فنکارانہ اہلیت کے مقابلے میں ایک ناقابل قدر معاوضہ ہو، ان کو دس روپے کا نوٹ دیا۔ ان کے چہرے چمک اٹھے۔ یہ ان کے لیے دولت تھی۔ انہیں اتنے انعام کی توقع نہ تھی۔

’’سرکار،‘‘ فیاض علی نے کورنش بجا لاتے ہوئے کہا۔ ’’آج کچھ محفل جمی نہیں۔ ہمیں پھر اپنی خدمت میں کبھی کبھار آنے کی اجازت دیں، سرکار۔‘‘ اس کے لہجے میں التجا تھی۔

اس کے بعد تین دن بمشکل گذرے تھے کہ وہ میرے بنگلے کے باہر موجود تھے۔ ان کے دماغ میں یہ خیال پختہ ہوگیا تھا کہ اس ناقدر شناسوں کے شہر میں پرانی کلاسیکی موسیقی کا واحد قدر دان میں ہی تھا۔ (حقیقت یہ ہے کہ کلاسیکی موسیقی میرے لیے لاطینی ہے اور میں دادرے اور ٹھمری میں فرق نہیں بتا سکتا۔)

میرے نوکر نے آکر مجھے اطلاع دی، ’’صاحب، اس دن والے گویے پھر آئے ہوئے ہیں۔‘‘ اس کے کہنے کا انداز ظاہر کرتا تھا کہ وہ انہیں پسند نہیں کرتا۔

’’انہیں دو روپئے دے دو،‘‘ میں نے کہا۔

’’بس جی، آٹھ آنے کافی ہیں۔ ان لوگوں کا کیا ہے جی، یہ پھر ہل جاتے ہیں۔ ان کا کام ہی یہ ہے۔‘‘

’’چلو دو روپئے دے دو، اس دفعہ،‘‘ میں نے اس کی منت کی۔

میرے نوکر نے تھوڑی دیر کے بعد اندر آکر مجھے اطلاع دی کہ وہ اب تک کھڑے ہیں اور مجھے سلام کرنا چاہتے ہیں۔ خود ایک آرٹسٹ ہونے کی وجہ سے مجھ میں اتنا جگرا نہ تھا کہ ان کو چلے جانے کے لیے کہوں… میں ایک آرٹسٹ کے احساسات جانتا تھا۔

میں باہر گیا، کچھ جھینپا ہوا اور اپنے کو مجرم محسوس کرتا ہوا۔

’’سرکار، راگ سنیے گا۔ ٹھاٹھ کی چیز ہے۔ دل کھل جائے گا،‘‘ فیاض علی نے فرشی سلام کرتے ہوئے کہا۔

’’میں اس وقت تو مصروف ہوں…‘‘ میں نے کہا۔

’’سرکار، پندرہ منٹ سن لیں… صبح کا راگ ہے… ہمارا دل رہ جائے گا، سرکار۔‘‘

میں ان کے احساسات کو سمجھ گیا۔ وہ اپنے آپ کو بھک منگا محسوس نہیں کرانا چاہتے تھے۔ وہ دو روپئے ایسے ہی قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ اس کے معاوضے میں وہ مجھے اپنے عظیم فن کا تحفہ دینا چاہتے تھے، جسے انہوں نے پشت در پشت اور سالوں کی محنت اور مشق سے حاصل کیا تھا۔ ان کی خود داری مقتضی تھی کہ وہ اپنے انعام کو کمائیں… ان کا دل رکھنے کو میں ان کا راگ سننے پر رضا مند ہوگیا۔

میں موسیقی کے رموز و اسرار سے بیگانہ ہوں، مگر میں یہ دیکھ سکتا تھا کہ فیاض علی خوب ستار بجاتا تھا۔ اس کی پتلی، پھرتیلی انگلیاں چابکدستی اور استادی سے ستار کے تاروں پر حرکت کرتیں۔ اس کے راگ کی حس بالکل خطا نہ کرتی تھی، سر اور تال کبھی نہ بھٹکتے تھے۔ اسے سنتے ہوئے اور دیکھتے ہوئے، میں اس حسن کی آن بان، اس کے تموج کا ہلکا اور نامکمل سا اندازہ کرسکتا تھا جسے وہ تخلیق کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’بہت اچھا بجاتے ہو۔‘‘

’’سرکار، کبھی کبھی حاضر ہونے کی اجازت عطا فرمائیں…‘‘

’’دیکھو بھئی، مجھے موسیقی سے دلچسپی نہیں۔ میں پکے راگ کو نہیں سمجھتا۔‘‘

’’سرکار، راگ بڑی اچھی چیز ہے۔ حکم ہو تو میں شام کو ایک دو گھنٹے ستار کا علم سکھانے آجایا کروں۔ سرکار، یہ ایک مکمل علم ہے۔‘‘

’’نہیں، یہ مجھے اب نہیں آسکتا… آخر تم بتاؤ، تم نے اسے کتنے برس میں سیکھا؟‘‘

اس نے مجھے بتایا کہ وہ بچپن سے ستار بجانے کا کام کرتا رہا ہے اور ابھی تک اس فن کو سیکھ رہا ہے۔ کئی ایسے مشکل راگ ہیں جنہیں ابھی تک وہ اپنے تاروں میں مقید نہیں کر سکا۔

’’تو تم یہ کیسے کہتے ہو کہ میں اسے اب اس عمر میں سیکھ لوں گا؟‘‘

’’سرکار آسان راگ تو بجا سکیں گے… محنت اور شوق کی بات ہے۔ سرکار، ہمارا بھی کچھ روٹی کپڑے کا بندوبست ہو جائے گا۔‘‘

میں نے انکار کردیا۔ ایک تو مجھے یقین تھا کہ میں کبھی ستار بجانا نہیں سیکھ سکتا، دوسرے یہ ڈر کے میرے دوست مجھ پر ہنسیں گے۔

وہ پھر دوسرے تیسرے ہفتے آنے لگے۔ ان کا بس چلتا تو وہ ہفتے کی بجائے دوسرے تیسرے روز ہی آتے، مگر میرے نوکر رفیق کا سرد مہر رویہ ایسا کرنے سے ان کو باز رکھتا تھا۔ جب بھی وہ آتے، میں ان کو اندر بلالیتا، ان کے راگ سنتا اور کچھ ’انعام‘ دے دیتا۔ ’انعام‘ دیتے وقت اپنے آپ کو بڑا گھٹیا محسوس کرتا۔ ان کے فن کا مول وہ ایک دو چاندی کے ٹکڑے نہیں تھے، جو میں انہیں دیتا تھا۔ وہ اس انعام کو اس قدر آداب اور تکلف سے قبول کرتے کہ میرے لیے پریشانی کا موجب ہو جاتا۔ راگ کے بعد فیاض علی اور میں فن اور زمانے کی ناقدر شناسی کی باتیں کرتے۔ اس گفتگو کی تان ہمیشہ اس بات پر ٹوٹتی کہ وہ مجھ سے درخواست کرتا کہ میں اس سے راگ کا سبق لیا کروں۔ گفتگو عموماً اس قسم کی ہوتی:

’’فیاض‘‘ میں کہتا، ’’تم جانتے ہو، اس فن کی یہاں کوئی قدر نہیں۔‘‘

’’ہاں سرکار، ہندوستان میں بڑی قدر تھی۔ بڑے بڑے راجہ نواب گانے بجانے کا شوق رکھتے تھے اور منہ مانگا انعام دیتے تھے۔ یہاں تو جب سے آئے ہیں، فاقوں مر رہے ہیں۔‘‘

’’تم کوئی اور کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘

’’اور کیا کروں، سرکار؟ مجھے صرف ستار بجانا آتا ہے۔ ساری عمر ستار سیکھتے اور بجاتے گزرگئی۔‘‘

’’کوئی دوسرا کام… آدمی کو روٹی تو کسی طور کمانا ہی ہے۔‘‘

’’دو سال پہلے پشاور ریڈیو میں نوکری مل رہی تھی۔ ٹیسٹ میں کامیاب ہوگیا تھا۔ پھر والد صاحب نے بلوا لیا،‘‘ وہ اداس لہجے میں کہتا۔

’’تمہارے والد صاحب کہاں ہیں؟‘‘

’’وہ پیر جلال والی کے ہاں ستار بجانے پر ملازم ہیں۔‘‘

’’وہ تمہاری مدد نہیں کرتے؟‘‘

’’نہیں سرکار، انہوں نے دوسری شادی کرلی ہے۔ چاہیں تو کیوں نہیں مدد کرسکتے۔ میں نے کئی بار لکھا ہے کہ مجھے وہاں بلا لیں۔‘‘

’’تمہارے کتنے بچے ہیں؟‘‘

’’سرکار، پانچ…‘‘

’’دیکھو،‘‘ میں کہتا، ’’ایسے کام نہیں چلے گا۔ اس طریقے سے تم اپنے بچوں کو نہیں پال سکتے۔ تم کو کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جو سوسائٹی کے لیے مفید ہو۔‘‘

’’سرکار، شام کو ایک دو گھنٹے کے لیے آجایا کروں؟ یہ بہت بڑا علم ہے،‘‘ اور اس کے فاقہ زدہ ستے ہوئے چہرے میں آنکھیںدمکنے لگتیں۔

’’نہیں،‘‘ میں اس کی آنکھوں میں روشنی کو بجھتے دیکھتا۔ ’’میں راگ نہیں سیکھ سکتا…‘‘

میرے ملازم کو مجھے ان دو بھک منگے آرٹسٹوں سے بچانے کی فکر تھی، جو اس کی رائے میں مجھے لوٹ رہے تھے۔ اس نے میرے ایک دنیا دار، موٹے اور ٹھٹھولی دوست کو شریک کار بنایا اور ان دونوں نے مل کر ستار والی پارٹی کی آمد پر سب دروازے بند کردیئے۔ وہ اب بنگلے کے نزدیک نہیں پھٹک سکتے تھے۔ میں اکثر ان دونوں کو اپنے سازوں کے ساتھ دور دور منڈلاتے ہوئے دیکھا کرتا… دراصل وہ میرے پاس صرف روپئے کے لیے ہی نہ آتے تھے، مجھے کچھ کچھ شک ہے کہ فیاض علی کو مجھ سے تھوڑی سی محبت ہوگئی تھی، جیسی کہ مجھے بھی اس سے یقیناً تھی… ہم تینوں فنی محبت کے رشتے میں منسلک تھے۔ ہم بڑی آرٹسٹ برادری کے افراد تھے۔ ہماری زندگی کی حیثیتوں میں جو فرق تھا، وہ ظاہری تھا یا اتفاقی تھا۔

یہ درست ہے کہ ہمارے فن جداگانہ تھے اور ہمارے راستے بھی مختلف، پھر بھی ہمارا مقصد ایک تھا۔ ہم قدرت کے بچ کر نکل جانے والے مبہم حسن اور سوز کو گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ وہ آواز کے ذریعے، میں الفاظ کے سہارے۔ ہم تینوں، یہ سچ ہے، معمولی اور ناکامیاب آرٹسٹ تھے۔ ان کے راگوں کو کوئی نہیں سنتا تھا اور ایڈیٹر میری طویل نظموں کو توہین آمیز الفاظ سے واپس بھیج دینے کے عادی تھے۔ مگر ہم آرٹسٹ ضرور تھے، الوہیت سے ہمارے دل فروزاں ضرور تھے۔

ایک دن میں اپنے پاور ہاؤس کے باہر کھڑا پھاٹک پر ٹیوب لائٹ لگوا رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے کسی کے کھڑے ہونے کا احساس ہوا۔ مڑ کر دیکھنے پر میں نے اپنے دونوں دوستوں کو منڈلاتے ہوئے پایا۔ مجھے بے اختیار ہنسی آگئی۔

’’کیوں، کیا بات ہے؟‘‘ میں نے ایک ہرجائی محبوب کی طرح بناوٹی روکھے پن سے کہا۔

’’سرکار،‘‘ فیاض علی نے کہا، ’’اب تو بڑے دن سے سرکار نے یاد نہیں فرمایا۔ ایک خاص ٹھاٹھ کی چیز ہے، صرف آپ کے سننے کی۔‘‘

’’تم جانتے ہو، راگ سمجھنے کی مجھ میں صلاحیت نہیں۔‘‘

’’سرکار، آپ سنیں گے تو جانیں گے۔ بڑودہ میں راجہ اجل چند اسے بڑے شوق سے سنا کرتے تھے۔‘‘

’’دیکھو، تم کوئی اور کام کیوں نہیں کرتے…‘‘ میں جھلایا۔ ’’تمہارا فن وغیرہ ٹھیک ٹھاک ہے، لیکن آدمی کو پیٹ بھی بھرنا پڑتا ہے کہ نہیں؟‘‘

’’سرکار، قسم لے لیجئے، کل سے ایک کھیل اڑ کر منہ میں نہیں گئی۔‘‘ فیاض علی کی آنکھوں میں آنسو جھلک آئے۔ بوسیدہ ڈاڑھی والے آدمی نے ایک ماتمی ہاں میں سر ہلایا۔

مجھے بے حد افسوس ہوا۔ فی الواقعی ان کے چہرے بھوک سے نڈھال اور ستے ہوئے تھے اور ان کی وضع بالکل کنگلے بھک منگوں کی سی تھی۔ بڑی، گرجتی ہوئی دنیا ان کے دکھوں اور ان کے مصائب سے بے تعلق تھی۔ مگر ایک آرٹسٹ اپنے آرٹسٹ بھائیوں کو کیسے فاقے میں مرتے دیکھ سکتا ہے۔ میں ان سے اتنا عرصہ جان بوجھ کر بچنے کی کوشش کررہا ہوں، میرے ضمیر نے مجھے سخت ملامت کی۔

میں نے انہیں کچھ رقم دی۔

’’فیاض علی۔‘‘

’’سرکار۔‘‘

’’کل سے تم پاور ہاؤس میں آئل مین کی جگہ کام کرو گے۔‘‘

’’سرکار، اس کی بجائے اگر شام کو ایک دو گھنٹے…‘‘

’’حضور، مجھے بھی کہیں نوکری دلوا دیجئے،‘‘ بوسیدہ ڈاڑھی والے شخص نے منت کی، ’’دعا دوں گا۔‘‘

’’میں تمہیں منیجر بینک کے نام چٹھی لکھ دوں گا۔ ان کو چپراسی کی ضرورت ہے۔‘‘

دوسرے دن وہ دونوں آزاد آرٹسٹ ملازمت کی قید میں پابند ہوگئے۔ یہ ان کے لیے ایک نئی اور مختلف زندگی تھی۔ ان کے کام ایسے تھے جو انہوں نے پہلے کبھی نہ کیے تھے، مگر مہینے کے آخر میں بندھے بندھائے روپئے تو تھے۔ میں ان ہم سفروں کے ساتھ اپنا فرض سرانجام دے کر اطمینان اور خوشی محسوس کرنے لگا۔ اب ان پر فاقے تو نہیں پڑیں گے۔

میں نے فیاض علی کو بوڑھے تجربہ کار ڈرائیور سردار کے حوالے کیا کہ اسے دو تین مہینے میں فرسٹ کلاس آئل مین بنا دے۔ بوڑھے سردار نے مسکراتے ہوئے اپنے عجیب شاگرد کو دیکھا، ایک ایسی نظر جو صاف کہہ رہی تھی کہ یہ آئل مین بننے والی شکل تو نہیں۔

اس کی ملازمت کے دوسرے دن صبح جب میں پاور ہاؤس گیا تو میں نے اسے اپنی بغل میں ستار دبائے جلدی سے پھاٹک میں سے اندر جاتے ہوئے دیکھا۔

’’فیاض علی۔‘‘

’’سرکار،‘‘ اس نے کورنش بجا لاتے ہوئے کہا۔

’’یہ ستار تم ساتھ کس لیے لے جا رہے ہو؟‘‘

’’سرکار، دل بہلاوے کا سبب بھی تو ہونا چاہیے۔ حکم ہو تو کچھ راگ عرض کروں۔ اب تو بڑی مدت ہو گئی۔‘‘

اس دفعہ مجھے واقعی غصہ آیا۔ میں نے حکم دیا کہ وہ ستار کو واپس جا کر گھر چھوڑ آئے اور اسے اپنے ساتھ پاور ہاؤس میں نہ لایا کرے۔ وہ منہ لٹکائے اپنے ساز کو چھوڑنے چلا گیا۔ اس نے اپنے نئے کام کو سیکھنے، اس میں دل لگانے کی کوشش ضرور کی، مگر یہ اس کے بس کا روگ نہیں تھا۔ ایک آدمی جو بچپن سے راگ اور راگنیوں کی دنیا میں رہتا ہو، وہ ڈیزل انجنوں کی صحبت میں کیسے آسودہ رہ سکتا ہے! سردار سے میں اکثر اس کا حال پوچھتا رہتا۔ اس سے مجھے معلوم رہتا کہ اسے انجن کا کام مطلقاً نہیں آ رہا۔ شروع شروع میں اس نے کوشش ضرور کی تھی، لیکن اب اس نے دلچسپی لینا بھی چھوڑ دیا تھا اور اداس پھرتا رہتا تھا۔

سردار نے کہا، ’’صاحب، کوئی اور آدمی رکھو۔ یہ تو مستقل عذاب ہے۔ اسے ذرا جھڑک کے کچھ کرنے کو کہو تو آنسو اس کی آنکھوں میں امڈ آتے ہیں۔۔۔‘‘

سردار کا کہنا درست تھا۔ میں ایک دفعہ اچانک انجن روم میں چلا گیا۔ فیاض علی ایک کونے میں بیٹھا تھا۔ مجھے آتا دیکھتے ہی وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور ایک تیل کی کپی اٹھا کر گویا انجن کو تیل دینے لگا۔ جب میں پاس آیا تو وہ کپی سمیت کورنش بجا لایا۔

’’تمھیں ابھی معلوم نہیں ہوا کہ پاور ہاؤس کے آداب میں کورنش بجا لانا نہیں؟‘‘

’’جی سرکار۔‘‘

’’اور سرکار بھی مت کہو۔‘‘

فیاض علی کی مسکراہٹ بجھ گئی۔ اس نے مجھے اس طرح غصے میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یقیناً اس وقت میں اسے ایک مختلف آدمی نظر آیا ہوں گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس سے ذرا بھی خفا نہ تھا، مگر دوسرے آدمیوں کے سامنے مجھے بننا پڑ رہا تھا۔

اس کے شاید دوسرے دن ہی سردار ڈرائیور نے مجھے رپورٹ کی کہ فیاض علی کام پر نہیں آیا۔ وہ اس سے اگلے روز بھی نہ آیا۔ اس نے ملازمت چھوڑ دی تھی اور تنخواہ ملنے کا بھی انتظار نہ کیا تھا۔ وہ مجھے ملنے بھی نہ آیا، اسے غالباً ڈر تھا کہ میں اس پر ناراض ہوں گا کہ اس نے ملازمت کیوں چھوڑ دی۔ میں اس پر ناراض کیوں ہونے لگا! البتہ اس کے بارے میں جاننے کے لیے اب میں پریشان ضرور تھا۔ میں اس کے ساتھ اس قدر درشتی سے پیش آنے پر نادم تھا جس کی وجہ سے وہ نوکری چھوڑ کر چلا گیا تھا۔

میں نے اسے دو مہینے تک نہیں دیکھا اور پھر ایک دن میں شہر کی گلیوں میں بجلی کے کھمبے سیدھے کرا رہا تھا کہ میں نے بازار میں فیاض علی اور بوسیدہ ڈاڑھی والے گویے کو ساز اٹھائے آتے دیکھا۔ مجھے پر نظر پڑتے ہی وہ جلدی سے پہلی گلی میں مڑگئے۔ انہوں نے پھر اپنے گانے بجانے کے پیشے کو شروع کردیا تھا۔ ان کے آرٹسٹک ضمیر نے فاقے اور مصائب کے ممکنات پر فتح حاصل کر لی تھی اور وہ پھر اپنے سچے پیشے کی طرف لوٹ گئے تھے۔ لوگوں کے دلوں کو حسن اور سوز سے روشناس کرنے کا پیشہ۔

میں نے بجلی کے پول کو دیکھا، جو پہلے سے بھی ٹیڑھا ہوگیا تھا۔۔۔ اور پھر میں اپنے دو بہادر آرٹسٹوں کے پیچھے بھاگا۔ میں نے ان کو جا لیا۔ چپکے سے میں ان دونوں کے درمیان جاگھسا۔ اپنے ایک بازو کو ایک کی گردن میں ڈالا، دوسرے کو دوسرے کی گردن میں۔ گلی کے آخر تک ہم نے آپس میں کوئی بات نہ کی، لیکن ہمارے ہونٹ مسکراتے رہے اور خوشی کے آنسو ہماری آنکھوں سے چھلک پڑے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔