ہر انسان کی کہانی، ماضی اور حال اس کی پیشانی پر کندہ ہوتا ہے

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 17 مارچ 2019
محبّت، اسیر کرلینا نہیں اسیر ہوجانا ہے،قید نہیں آزادی ہے محبت۔ فوٹو: فائل

محبّت، اسیر کرلینا نہیں اسیر ہوجانا ہے،قید نہیں آزادی ہے محبت۔ فوٹو: فائل

قسط نمبر35

میں اس عظیم خاتون کی ہدایات پر دل و جان سے عمل کرنے کا مصمّم ارادہ کرچکا تھا، جب وہ رخصت ہوگئیں تو میں اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ لیکن فجر کے فوراً بعد ہی جب میں ناشتے کا سامان اٹھانے لگا تو میں نے دیکھا کہ وہ شخص جسے میں نے ریلوے اسٹیشن پر اس کے حال سے آگاہ کیا تھا، اپنے ساتھ دو اور لوگوں کو لیے میری کٹیا کے سامنے موجود تھا۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے دوسروں سے کہا مجھے وہ کہیں نظر نہیں آرہے، جب کہ میں ان کے سامنے موجود تھا، لیکن اس کی نگاہوں سے اوجھل تھا، کیسے؟ میں نہیں جانتا! لیکن پھر میں نے خاموش رہنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد بھی وہ کئی مرتبہ آیا تھا، میں اس کے سامنے ہوتا اور وہ اِدھر اُدھر گھوم پھر کے واپس چلا جاتا۔ اس کے بعد وہ مجھے کہیں نظر نہیں آیا، شاید وہ ناامید ہوگیا تھا۔

میں بابا کی طرح نصف شب کو جاگتا اور ان کی جائے نماز پر اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتا، اسی دوران میں ان کے بتائے ہوئے طریقے پر چَنوں کا سالن بناتا اور فجر کی نماز کے بعد انہیں لے کر اسی تندور سے روٹیاں لیتا اور پھر اپنے ٹھکانے پر مزدوروں کو ناشتا دیتا، ابتدا میں تو ان سب نے مجھ سے بابا کے متعلق دریافت کیا تھا اور میں نے انہیں مطمئن کرنے کی اپنی سی کوشش کی تھی پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ انہوں نے مجھ سے پوچھنا چھوڑ دیا تھا۔ واپسی میں اسی دکان سے جہاں سے بابا دوسرے دن کا سامان خریدتے تھے، وہیں جاتا اور وہ دکان دار بھی ایک تھیلا جس میں سب کچھ ہوتا مجھے تھما دیتا اور میں اس کے دام ادا کرکے اپنی کٹیا میں آجاتا۔

وقت کبھی پر لگا کر اڑتا ہے اور کبھی رینگنے لگتا ہے، کبھی پل بھی صدی بن جاتا اور کبھی صدی ایک پل کی طرح ہوجاتی ہے، سمے کا اسرار بھی بہت زیادہ عجب ہے، بیان کیسے کیا جائے کہ یہ اندر کی کیفیت سے جُڑا ہوا جو ہے اور کوئی نادر فصیح البیان ہی یہ کیفیت بیان کرسکتا ہے، مجھ ایسے کم فہم، کوتاہ اندیش، اور بے عقل اسے بس محسوس کرسکتے ہیں، بیان نہیں کرسکتے، ہاں ایسا ضرور ہے کہ ہر آدمی کا سمے اس کے چہرے پر کندہ ہوجاتا ہے، سمے کی دھار کسی کو تو کاٹ ڈالتی ہے اور کسی پر رحم کھا بھی جائے تو اپنی خراشیں ضرور اس کے چہرے پر کندہ کرڈالتی ہے۔ اور کوئی بینا ہو، صرف آنکھوں کا بینا نہیں، دل بینا ہو جس کا وہ ہر آدمی کے سمے کو پڑھ سکتا ہے اور بہ خوبی۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کی کہانی، اس کا ماضی اور حال اس کی پیشانی پر کندہ ہوتا ہے، اس تک رسائی بس اسے ہوتی ہے جو دانا ہو، بینا ہو، ہم درد، ملن سار، بااخلاق و باکردار، مخلص و بے ریا، بے نیاز و سخی، تعصب سے عاری اور رب سے جُڑا ہوا ہو، اور ایک شرط اور بھی ہے اور وہ یہ کہ وہ انسانوں کو اپنی طرف نہیں، بالکل بھی نہیں، قطعاً نہیں بل کہ خالق کائنات کی جانب بلائے، اور وہ بھی حکمت سے، تدبر سے، فہم اور فراست سے، بغیر ان کی عزت نفس کو پامال کرتے ہوئے ان کے روگ اور سوگ کو سُکھ اور مسرت میں بدلنے کا کار خیر انجام دینے پر مامور ہو۔ جیسے بزرگ بابا تھے، ایسا۔ کسی انسان کی پیشانی پر لکھے ہوئے کو پڑھنا ہر کس و ناکس کے بس کا نہیں ہے۔

سردی اپنا درشن کراچکی تھی اور بابا رونق افروز نہیں ہوئے تھے، اسلام آباد کی سردی رگوں میں لہو کو جمانے لگی تو ایک دن میں راجا بازار کمبل خریدنے کے لیے گیا۔ میں ایک ٹھیلے پر رکھے پُرانے کمبل دیکھ رہا تھا کہ ایک نوجوان دکان دار نے مجھے اشارہ کیا، بہت وجیہہ تھا وہ، کلین شیو اور اُجلے کپڑوں میں ملبوس، اس کے رخساروں کی سرخی اس کے آسودہ ہونے کا پتا دے رہی تھی، میں اس کے پاس پہنچا۔ آئیے آپ کو کمبل چاہیے تو ہمارے پاس بہت ورائٹی ہے، مناسب دام اور بہترین۔ وہ مسکرا کر میری جانب دیکھ رہا تھا۔ لیکن مجھے تو پرانا کمبل چاہیے۔

میں نے کہا۔ آپ کو اگر پرانے کمبل کے دام میں نیا کمبل مل جائے تو کیا تب بھی آپ پرانا ہی لیں گے۔ اس نے مجھے الجھا لیا تھا۔ مجھے خاموش دیکھ کر وہ مجھے دکان کے اندر لے گیا اور کمبل دکھانے لگا۔ دیکھیے میں کچھ جانتا نہیں، آپ بالکل بھی زحمت مت کیجیے، بس خود ہی کوئی مناسب سا کمبل دے دیجیے، میں اس کے دام ادا کردوں گا، میری گفت گو کو اس نے بہ غور سنا اور پھر کہنے لگا: اگر آپ جیسے گاہک ہوں تو جیون کتنا آسان ہوجائے، چلیے ایسا ہی کرتے ہیں، جیسے آپ کہہ رہے ہیں۔ اتنے میں ایک قہوے والا آگیا اور اس نے بغیر مجھ سے پوچھے اس سے اپنے اور میرے لیے قہوہ لے لیا، میں نے احتجاج کیا کہ نہیں بس اپنے لیے لیجیے اور مجھے کمبل دیجیے تاکہ میں جاسکوں، اس نے میری کوئی بات جیسے سنی ہی نہیں۔ لیجیے اچھا قہوہ ہے اور اس ٹھنڈ میں تو اس کا لطف اور بھی دوبالا ہوجاتا ہے۔

وہ بہت اچھی زبان میں گفت گو کا ماہر تھا جیسے کوئی بھی اچھا دکان دار ہوتا ہے، ہاں میں اسے ایسا ہی سمجھ رہا تھا۔ میں نے قہوہ ختم کیا۔ اس نے کمبل میرے حوالے کیا تو میں نے دام پوچھے۔ آپ کمبل لیجیے، آم کھائیے جناب، پیڑ گننے کا کیا فائدہ کہتے ہوئے وہ مسکرایا۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا، میں نے کمبل زمین پر رکھا اور باہر کا رخ کیا ہی تھا کہ وہ میرے سامنے کھڑا ہوگیا اور پھر اس کا ایک دوسرا رخ میرے سامنے تھا، وہ بہت غصے میں تھا، اس کی ساری خوش اخلاقی ہَوا ہوچکی تھی، پھر وہ کہنے لگا: مجھے اس کمبل کے دام مل چکے ہیں، تم یہ کمبل لو اور اپنا راستہ ناپو۔ وہ آپ سے تم پر آگیا تو میرے اندر کا وحشی بھی جاگ چکا تھا، میں نے اس سے راستہ چھوڑ دینے کو کہا۔

اس نے مجھے گُھورا اور پھر کہا: تمہیں سمجھ نہیں آیا جب میں نے کہہ دیا ہے کہ مجھے اس کمبل کے دام مل چکے ہیں تو دو بار اس کے دام کیسے وصول کروں؟ لیکن آپ کو کس نے اس کمبل کے دام ادا کیے ہیں اور آپ مجھے کیسے جانتے ہیں؟ میرا سوال سن کر اس نے اپنی دراز کھولی اس میں سے ایک لفافہ نکال کر مجھے دیا، میں نے جب لفافہ کھولا تو حیران رہ گیا اس میں کچھ روپے رکھے تھے، ساتھ ہی ایک رقعے پر میرا نام لکھا ہوا تھا۔ میں نے اس کی جانب دیکھا تو وہ پھر مسکرایا اور وہی پہلے جیسا بااخلاق بن گیا۔ عجیب کش مکش میرے اندر برپا تھی، مجھے کچھ کچھ تو سمجھ میں آگیا تھا، لیکن میں بہت الجھ بھی گیا تھا، آخر میں نے اس سے پوچھا، آپ کو یہ لفافہ کس نے اور کب دیا تھا۔ وہ مسکرایا اور کہنے لگا: دیکھیے یہ آج میری اور آپ کی آخری بات ہوگی۔

اب سنیے، مجھے یہ پیسے اور رقعہ بابا نے آپ کے آنے سے کچھ دیر پہلے ہی دیا ہے، آپ جب آئے تھے تو وہ یہیں موجود تھے، انہوں نے آپ کی نشان دہی اس وقت کی جب آپ اس ٹھیلے پر کھڑے تھے۔ تو بابا کہاں گئے پھر، اور آپ کب سے انہیں جانتے ہیں، یہ کہتے ہوئے میری آواز رندھ گئی تھی، لیکن اس نے یہ کہتے ہوئے مجھے رخصت کردیا کہ میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ آج میری اور آپ کی یہ آخری گفت گُو ہوگی۔

میں سیاہ قلب و نظر اسے بس ایک عام سا دکان دار سمجھا تھا اور وہ نکلا کیا! عجب ہے بہت اور حیران کن یہ بات اور اب تو میں اس کا عادی ہوچکا ہوں، روز ایک نیا اسرار، نیا انکشاف اور نئی کہانی۔ جی میں نے بابا کو بازار میں ڈھوندنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن پھر مجھے ان عظیم خاتون کا حکم یاد آگیا کہ میں بابا کو تلاش نہیں کروں گا، سو جناب حکم ہے تو بس تعمیل کہ یہی سکھایا گیا ہے مجھے۔ میں اپنی کیفیت بیان نہیں کرسکتا، بس رہے نام اﷲ کا۔

اسی لیے منع کیا گیا ہے کہ کسی بھی انسان کو حقیر مت جانو، کسی کے متعلق یہ گمان مت کرو کہ وہ بس کوئی عام سا آدمی ہوگا، کسی کے متعلق یہ مت سمجھو کہ وہ کوئی خودغرض دنیا دار ہے، کسی کے متعلق کوئی بُری رائے مت قایم کرلو، اور جب اسے جانتے ہی نہیں تو رائے کیسی، کیا صرف دیکھنے سے کوئی آپ پر کُھل سکتا ہے، جی بالکل، لیکن اس کے لیے بہت طویل ریاضت درکار ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ جب کوئی بینائی کے اس مقامِ اعلی پر پہنچتا ہے تو وہ ایک بالکل نیا انسان ہوتا ہے، ایسا جو کسی کے بھی عیوب بیان نہیں کرتا، اتنا مخلص کہ اخلاص بھی اس پر نازاں ہو، یہ نعمت اسے ہی ملتی ہے جو بندۂ نفس نہیں بندۂ خدا ہو۔ بے ریا اور وفا شعار، ہم درد اور ایثار کیش، سب کی عیب پوشی کرنے والا دیانت دار۔

لیکن بہت عجیب ہیں ہم۔ میں تو بدنصیب کہنے والا تھا بل کہ سچ تو یہ ہے کہ یہی کہنا چاہتا ہوں۔ باطن سے مجھے آواز آتی ہے کہ نہیں اتنا آگے مت جاؤ۔ ہمارے رویے، ہمارا برتاؤ، ہماری بودوباش، ہماری خواہشات سب کچھ عجیب ہے۔ خواب بھی۔ ہم تضادات کا مجموعہ ہیں۔ جو اہم ہے اُسے نظرانداز کرتے ہیں، جو ثانوی ہے اُسے اولیت دیتے ہیں۔ میں بندۂ نفس ہوں، مجھے بندۂ رب بننا تھا۔ اور بندۂ رب وہ ہے جو اُس کی چلتی پھرتی، جیتی جاگتی، ہنستی گاتی تصویروں سے محبت کرے۔ لیکن ٹھہریے! مشروط محبت نہیں۔۔۔۔ بس محبت، جس میں اخلاص ہی اخلاص ہو، طلب نہ ہو، بالکل بھی نہیں۔ بس دینا ہی دینا، لینا کچھ نہیں۔ کھلے بازو اور کھلا دل۔ تنگ دلی کا گزر بھی نہ ہو۔ طمع و لالچ چُھو بھی نہ سکیں۔۔۔۔ بس خالص محبت۔ رب اُس سے محبت کرتا جو مخلوق سے محبت کرے۔ کتنا عجیب ہے یہ رویہ کہ میں کسی سے محبت کرتا ہوں اور اس کی تخلیق سے صرفِ نظر! مجھے اپنی ایک رضائی بہن یاد آگئیں ہیں، عمر میں مجھ سے سات سال بڑی، اور دانا اور بینا ایسی کہ کمال کو پہنچی ہوئیں۔

میں انہیں بڑی آپا کہتا تھا۔ وہ وقت مجھے آج بھی یاد ہے۔۔۔۔ بڑا سا ڈرائنگ روم اور سفید بالوں والی ہماری بڑی آپا۔۔۔۔ اور میری بحث پر اُن کی مسکراہٹ۔ میں نے انسانی شکل میں بہت فرشتے دیکھے ہیں، وہ بھی ایسی ہی تھیں، بہت تحمل اور صبر والی۔۔۔۔ اور مجھے یہ دونوں چُھو کر بھی نہیں گزرے۔ میں نے ان سے محبّت اور تعلّق کے بارے پوچھا تھا کہ یہ کیا ہوتی ہے۔ جب بہت دیر ہوگئی تو انہوں نے مجھ سے کہا: میں جانتی ہوں کہ تُو سمجھ گیا ہے، بس ویسے ہی بحث کر رہا ہے! تو میں بہت ہنسا اور کہا: آپا مجھے کچھ کچھ تو سمجھ آگیا، پوری طرح نہیں۔ پھر آپا گویا ہوئیں: او پگلے! جب تجھے کسی کی بُری عادتیں بھی اچھی لگیں، اس کے غصے پر بھی پیار آئے، تُو اُس کی جھڑکی سن کر بھی سرشار ہو، اُس کی ڈانٹ سننا چاہے، بل کہ خود ایسی حرکت کرے کہ وہ تجھے ڈانٹ دے، تجھ میں سے تُوخود نکل جائے اور وہ بس جائے، اَنا صرف دم نہیں توڑے بل کہ فنا ہوجائے، جب وہ دھتکار دے اور تُو اور قریب آئے۔۔۔۔ جب تجھ میں، تیری رگ و پے میں، نس نس میں، لہو کی ہر بوند میں وہ سما جائے تو سمجھ لینا ہاں! اب ہے محبت، اگر ایسا نہیں تو عبث ہے سب عبث، سب کارِ عبث ہے۔ محبت اسیر کرلینا نہیں اسیر ہوجانا ہے، قید کرلینا نہیں آزاد ی ہے محبّت۔

ہاں مجھے سمجھ آگیا تھا، تجربہ تو کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا۔ بالکل ایسا ہی ہے۔ مجھے عجیب لگتا ہے۔ ہم سب رب کی محبت کے طلب گار ہیں اور مخلوق سے بے زار۔ نہ جانے کیا ہے یہ! میں اُسے قید کرنا چاہتا ہوں جب کہ محبت آزادی ہے۔ وہ سارے عالم کا رب ہے، ساری کائنات کا رب ہے اور میں اُسے صرف رب المسلمین سمجھ بیٹھا ہوں۔ وہ لامحدود ہے اور میں اسے محدود کرکے اپنی ٹوپی و دستار میں بند کرنا چاہتا ہوں۔ میں اُس کے بندوں کو تقسیم کرتا ہوں خانوں میں۔ وہ سب کو دیتا ہے اور میں سب سے روکتا ہوں۔ وہ وسیع ہے اور میں تنگ دل۔ میں بندوں کا حساب کتاب اُس پر نہیں چھوڑتا، خود کوتوال بن گیا ہوں۔ میں محبت تو کیا کروں گا نفرت کا بیج بوتا رہتا ہوں۔ میں کون ہوتا ہوں اُس کے اور اُس کی پیدا کی ہوئی مخلوق کے درمیان آنے والا! میں ڈنڈے اور بندوقیں لے کر انسانوں پر ٹوٹ پڑا ہوں۔ وہ جبر سے منع کرتا ہے اور میں اپنی بات طاقت سے منوانا چاہتا ہوں۔ میں اُس کی کوئی بات نہیں سنتا اور اُس کا خلیفہ بنا پھرتا ہوں۔

مجھے میرے نفس نے برباد کردیا ہے، میں اس کی مخلوق کے لیے آزار بن گیا اور رب سے تقاضا کرتا ہوں کہ وہ مجھے محبت سے دیکھے! میں خود ظالم ہوں اور رب سے طلب کرتا ہوں اُس کا رحم! میں کسی کو بھی معاف کرنے پر تیار نہیں ہوں اور ہر دم اُسے کہتا ہوں کہ وہ مجھے معاف کردے! میں خود پیٹ بھر کر کھاتا ہوں اور اپنے آس پاس خاک بسر لوگوں سے بے خبر ہوں! میں عجیب ہوں، میرے رب نے جو حقوق دیے ہیں سب کو، میں وہ سلب کرکے بیٹھ گیا ہوں۔ میں اپنی بات محبت سے نہیں دھونس، دھمکی سے منواتا ہوں۔ میں اتنا ظالم ہوں کہ میرے گھر والے جنہیں میں نے اتنی محنت کرکے، سچ جھوٹ بول کر، ہلکان ہوکر، جائز اور ناجائز کی پروا کیے بغیر پروان چڑھایا ہے۔ جب وہ اپنے حقوق جو میرے رب نے انہیں دیے ہیں طلب کر بیٹھیں تو میں ڈنڈا لے کر کود پڑتا ہوں۔ اُس وقت تو مجھے رب یاد نہیں آتا۔ میں بہت ظالم ہوں، جو رب نے حقوق دیے ہیں میں نے وہ بھی چھین لیے ہیں، اور دعویٰ کرتا ہوں محبت کا، اپنے رب سے محبت کا۔

ہر بندے کا رب سے ایک خاص تعلق ہے اور ایسا کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا جو مجھے بتائے کہ کون رب کے کتنا قریب ہے۔۔۔۔ وہ جو تسبیح لیے گھوم رہا ہے یا وہ جو سڑک پر تارکول بچھا رہا ہے، وہ جو موٹر میں گھوم رہا ہے یا وہ جو پابرہنہ ہے۔ ہاں موٹر تو کیا، جہاز میں بیٹھنے والا بھی اُس کے قریب ہوسکتا ہے۔ مجھے کیا پڑی ہے کہ میں رب اور مخلوق کے درمیان آؤں! میں خود کو کیوں نہیں دیکھتا کہ میرا کیا تعلق ہے اپنے رب سے! میں اگر نماز پڑھتا ہوں تو بے نمازیوں کو حقارت سے دیکھتا ہوں۔ میں اگر روزے رکھتا ہوں تو دوسروں سے خود کو اعلیٰ سمجھ بیٹھتا ہوں۔ مجھے کیا معلوم کہ کیا مجبوری ہے کسی کی۔ وہ جانے اور اُس کا رب۔۔۔۔ مجھے تو اپنا کام کرنا ہے۔ جو مجھے کرنا چاہیے وہ نہیں کرتا اور جو نہیں کرنا چاہیے وہ کرتا چلا جا رہا ہوں۔

میں اپنے رب سے محبت کے جھوٹے دعوے سے کب باز آؤں گا! مخلوق سے نفرت اور رب سے محبت۔ مجھے تو کچھ پلے نہیں پڑتا، آپ کو سمجھ آگیا ہے تو مہربانی کیجیے، مجھے بھی سمجھائیے۔

یہ اس وقت اقبال بابے کہاں سے تشریف لے آئے۔

عجب واعظ کی دیں داری ہے یا رب

عداوت ہے اسے سارے جہاں سے

کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں

کہاں جاتا ہے‘ آتا ہے کہاں سے

وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے

چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے

میرے معمولات جاری تھے، دسمبر کا نصف گزر رہا تھا، ٹھنڈ اپنے جوبن پر تھی، اس دوپہر میں قبرستان میں ایک جگہ سے گزر رہا تھا، چھوٹی سی چاردیواری میں ایک قبر تھی، نہ جانے مجھے کیا سوجھا کہ میں اس چار دیواری سے کود کر احاطے میں داخل ہوگیا، مجھ سے پھر حماقت سرزد ہوگئی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔