سانحہ نیوزی لینڈ: آخر اتنی نفرت کیوں بھئی!

خرم علی راؤ  ہفتہ 16 مارچ 2019
مسلمانوں کے خلاف بڑھتا متشدد مغربی طرزعمل انسانی بنیادوں پر بھی قابلِ مذمت ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

مسلمانوں کے خلاف بڑھتا متشدد مغربی طرزعمل انسانی بنیادوں پر بھی قابلِ مذمت ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

کسی کے مذہب کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے، سب اپنا عقیدہ رکھنے میں آزاد ہیں۔ دہشت گرد اور دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ انتہاپسندی ایک ناسور اور عالمی امن کے لیے زبردست خطرہ ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے مغربی سوسائٹی کے یہ چند مقبولِ عام بیانیے اور الاپا جانے والا دل پسند راگ ہے… مگر ان کی یہ منطق، یہ باتیں صرف قولاً ہیں یا بس اپنے لیے ہیں،عملاً ان کے رویّے مسلمانوں اور اسلام کے لحاظ سے کچھ اور ہی ہوتے ہیں، بدترین تعصب میں ڈوبے ہوئے۔ مسلمان تو شاید ان کےلیے انسان ہی نہیں، نیم انسان قسم کی کوئی مخلوق ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف کتنا عناد، کیسا زہر اور کتنا غصہ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا؟ آخر اتنی نفرت کیوں بھئی! کیا برچھی مارتا ہے اسلام ان کے؟ کیا تکلیف دیتا ہے؟ یہی ناں کہ ان کی مادر پدر آزاد حیوانی زندگی، ان کے غلیظ اعمال پر کچھ قدغنیں لگاتا ہے، کچھ حدود و قیود کی تلقین کرتا ہے؛ اور بھائی نہیں مانتے تو نہ مانو! گزارو جیسی گزارنی ہے لیکن آپ ہی کے وضع کردہ نام نہاد انسانیت کے اصولوں میں فرد تو پھر آزاد ہے ناں، جیسے چاہے وہ اپنی زندگی گزارے، تو پھر مسلمانوں کو بھی جینے دو!

نیوزی لینڈ میں جو واقعہ ہوا وہ دہشت گردی نہیں بلکہ منظم منصوبہ بندی سے گیا گیا قتلِ عام ہے۔ دو مساجد میں بیک وقت وحشیانہ فائرنگ کی ویڈیوز اب سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہوچکی ہیں اور کروڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔ عالم اسلام میں غم و غصے کی لہر میں مزید اضافہ اور جلتی پر تیل آسٹریلوی سینیٹر فریزر ایننگ کے اس بیان نے چھڑکا جس میں اس نے بڑے بے رحمانہ، متکبرانہ اور غیر انسانی انداز میں اپنی آفیشل ویب سائٹ پر اس اندوہناک واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نیوزی لینڈ کی امیگریشن پالیسی اس واقعے کی ذمہ دار ہے۔ نہ مسلمانوں کو امیگریشن دی جاتی نہ ایسا واقعہ ہوتا، نیز مسلمان بھی تو ساری دنیا میں دہشت گردی کیا کرتے ہیں۔ سنا ہے کہ اس بیان پر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور نیوزی لینڈ کی حکومت اس شر انگیز بیان کے بد اثرات کو کم کرنے کےلیے وضاحتوں پر وضاحتیں جاری کر رہی ہے۔

بلا شبہ یہ قابل تحسین ہے کہ آسٹریلیا کے وزیراعظم نے فوراً اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے اسے شیطانی حد تک مضحکہ خیز اور افسوسناک قرار دیا۔

وہ جو جاں بحق ہوئے وہ تو اسلامی عقیدے کے مطابق شہداء ہیں اور شہید کے درجات سے کون مسلمان واقف نہیں۔ روایت کا مفہوم ہے کہ شہید کے خون کا پہلا قطرہ گرنے سے پہلے ہی اس کے سارے صغیرہ و کبیرہ گناہ سوائے قرض کے معاف ہوجاتے ہیں اور وہ جنت میں پہنچادیئے جاتے ہیں۔ وہ سب نماز کی حالت میں تھے، عبادت میں مشغول تھے، اللہ تعالی کی راہ میں تھے۔ ان شااللہ انہیں تو ابدی جنتیں اور مسرتیں ضرور بالضرور مل چکی ہوں گی لیکن اس فعلِ شنیع اور اس کی منصوبہ بندی کرنے والے چاہے کچھ بھی کرلیں، کیسے ہی قلعے میں خود کو چھپا لیں، قہر خداوندی سے بچ نہیں پائیں گے۔ یہ کوئی ہوائی بات نہیں، خدائی قانون ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔

مسلم ممالک کا ردعمل بھی آنا شروع ہوگیا ہے کہ سوشل میڈیا نے اس اندوہناک واقعے کو من و عن دنیا کو دکھا دیا، کیا یہ انتہا پسندی نہیں؟ کیا یہ جنونیت نہیں؟ کیا یہ قتل عام نہیں؟ اسے آپ کیا نام دیں گے؟ کیا کوئی بھی وضاحت اس غیر انسانی عمل کی ممکن ہوسکتی ہے؟ مسلمانوں کو بنیاد پرست کہنے اور مذکورہ طعنے دینے والے اب کیا کہیں گے؟ نیوزی لینڈ میں تو کبھی کوئی دہشت گردی کی ایسی واردات نہیں ہوئی جس میں مسلمانوں کی موجودگی یا ملوث ہونے کا ثبوت ملا ہو۔ کبھی کوئی اکا دکا بھی واقعہ ایسا کم از کم مجھے تو یاد نہیں پڑتا۔ پھر وہاں ایسا کیوں ہوا؟ کیا گیا یا کروایا گیا؟ مجھے تو یہ خاکم بدہن نائن الیون کی طرح کسی لمبے کھیل کی شروعات لگ رہی ہے۔ خدا کرے کہ میرا یہ گمان غلط ہو لیکن اس بدترین سانحے کے بد اثرات بہت دور تک جائیں گے۔ اگر خدانخواستہ بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے ارکان کو، جو نماز کی ادائیگی کے لیے ان مساجد میں موجود تھے، کوئی گزند پہنچ جاتی تو بہت بڑا فضیحتہ کھڑا ہوجاتا جو شاید منصوبہ سازوں کا مقصد رہا ہوگا۔ مگر صد شکر کہ بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی محفوظ رہے۔

اب مغرب کو اپنی سامراجی اور اسلام دشمن پالیسیوں پر سنجیدگی سے نظر ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے وہ اسلام کا تو نہ کبھی کچھ بگاڑ سکے نہ بگاڑ پائیں گے، لیکن اپنا ہی کوئی بڑا نقصان کر بیٹھیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام دشمن بڑے بڑے افراد، قومیں اور تہذیبیں آج تاریخ کے قبرستان میں بھولی بسری داستانوں کی طرح مدفون ہیں لیکن اسلام اسی طرح تابندہ اور فروغ پذیر ہے؛ اور رہے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ

بلاگر استاد ہیں جبکہ شارٹ اسٹوریز، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری اور ترجمہ نگاری کی مہارت بھی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔