پکڑ صرف ’’چھوٹو‘‘ کی ہی کیوں؟

شہباز علی خان  پير 18 مارچ 2019
چھوٹو گینگ کے 20 ملزموں کو مجموعی 18,18 مرتبہ سزائے موت، 204 سال قید اور 63 لاکھ فی کس جرمانے کی سزا کا حکم (فوٹو: انٹرنیٹ)

چھوٹو گینگ کے 20 ملزموں کو مجموعی 18,18 مرتبہ سزائے موت، 204 سال قید اور 63 لاکھ فی کس جرمانے کی سزا کا حکم (فوٹو: انٹرنیٹ)

چھوٹو سمیت 4 گینگز کے 20 ملزموں کو مجموعی 18، 18 مرتبہ سزائے موت، 204 سال قید کی سزا کا حکم اور 63 لاکھ فی کس جرمانے کے ساتھ تمام جائیداد بھی ضبط۔ کرنے کی خبر تقریباً تمام اخبارات کے مرکزی صفحات پر نمایاں رہی۔ اس خبر کا آغاز وہی روایتی الفاظ کا مجموعہ تھا، فلاں تاریخ کو فلاں وقت پر ایس ایچ او صاحب کو اطلاع ملی کہ فلاں ولد فلاں خطرناک اشتہاری ملزمان فلاں جگہ پر موجود ہیں اور پولیس پارٹی بھاری اسلحہ سے لیس ہو کر علاقہ میں پہنچی۔

دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ یہ پٹی جو ’’کچے‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اگر ہم نقشہ میں دیکھیں تو بل کھاتا یہ دریا جغرافیائی لحاظ سے کبھی ایک صوبے کی حد میں ہوتا ہے تو اگلے ہی لمحے دوسرے صوبے کی حدود میں بہہ رہا ہوتا ہے اور اس کی چوڑائی بھی کلومیٹرز میں کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ انتظامی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی ابتری اس علاقے کی ایک خصوصیت جانی جاتی ہے۔ اس پسماندگی کی بہت سی وجوہ ہوں گی مگر اس میں بہتری لانے کا سب سے بڑا نقصان تو مقامی سیاست کو پہنچتا، جس کے تانے بانے علاقائی سیاست سے ہوتے ہوئے صوبے اور مرکز سے جاملتے ہیں۔

اپریل 2016 میں جب پانامہ لیکس شہ سرخیوں میں تھا، اس کے ساتھ ساتھ چھوٹو گینگ اور پولیس کی لو اسٹوری بھی اسکور بورڈ پر دوسرے نمبر پر تھی۔ چور سپاہی کا یہ کھیل گاہے گاہے کھیلا جاتا تھا۔ طبل جنگ بجتا اور دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتی تھیں۔ جیسے ہی کسی ایک کا خاتمہ قریب ہوتا، سیٹی بج اٹھتی اور دونوں اپنے اپنے ساتھیوں کے کٹے پھٹے اور زخموں سے بھرے وجود اٹھائے میدانوں سے واپس گھرلوث جاتے۔ شہدا اور ’’پار‘‘ ہونے والوں کی تعداد اگلے دن پھر سے اخبارات کی زینت بنتی اور اس سے اگلے دن کوئی اور بریکنگ نیوز پچھلی والی بریکنگ نیوز کو داخل دفتر کردیتی۔

یہ رومانس مزید کئی برس چلتا مگر پھر پاک فوج کی آمد آپریشن ’’ضرب آہن‘‘ کے نام سے ہوئی، جس نے نہ صرف بغیر کسی جانی نقصان مرکزی سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو سمیت بہت سے ڈاکوئوں کو غیر مشروط ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا بلکہ ان کی قید سے چوبیس پولیس اہلکاروں کو بھی رہائی دلوائی، جنہیں اس گروہ نے قید کر رکھا تھا۔ چھوٹو گینگ کے جرائم کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں بے پناہ اغوا برائے تاوان اور قتل دکھائی دیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ جرائم ایک ایسی انڈسٹری کی صورت اختیار کرچکے ہیں جس میں چھکے ہی چھکے ہیں مگر اس وقت تک، جب تک امپائر کی انگلی اٹھ نہیں جاتی۔

ہمارے نظام میں حکمران بننے کے لیے سیاست کی وہ چالیں چلی جاتی ہیں جن کے بعد سیاست اس ڈریکولا کی صورت اختیار کر جاتی ہے جسے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کےلیے خون درکار ہوتا ہے۔ کچے کا غلام رسول ہو یا سندھ کا نادر جسکانی، یہ اسی سیاسی نظام کی پیداوار تھے اور رہیں گے۔ ان کا مکمل طور پر خاتمہ ہمارے موجودہ سیاسی نظام کےلیے انتہائی خطرناک ہے۔

اپریل 2016 میں گرفتاری دینے والوں نے مارچ 2019 میں فیصلہ آنے تک کا وقت آرام و سکون میں تو نہیں گزارا ہوگا۔ اگر ان کی وہ تصاویر، جب یہ گرفتار ہوئے اور آج جب انہیں موت کی سزا ملی ہے، دیکھیں تو ان کے چہروں پر ایک عجیب سی تھکاوٹ کے ساتھ سکون بھی ملے گا کہ اب انہیں رہائی تو نصیب ہوئی، چاہے موت کی صورت میں ہی سہی۔

آپ کی طرح میرے ذہن میں بھی بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ یہ جس انڈسٹری کو چلا رہے تھے، جو اغوا برائے تاوان ہوتے تھے، اس کی انکم آخر کروڑوں میں ہوتی تھی اور اتنے برسوں سے یہ خدمات سرانجام دے رہے تھے، تو جب 2016 میں انہوں نے گرفتاری دی تو ہمارے اداروں نے کتنے کروڑ وہاں سے برآمد کیے ہوں گے؟ آخر اتنی رقوم وہ وہاں دریا میں چھوٹی مچھلیوں کو تو ڈال نہیں دیتے ہوں گے؟ کیا کسی بینک میں رکھتے تھے؟ اگر بینک میں رکھتے تھے تو یقیناً ان کا کوئی نہ کوئی اکاؤنٹ بھی ہوگا؟ یا پھر اپنے مینیجرز یا ڈائریکٹرز کو بریف کیس میں ڈال کر دے آتے ہوں گے؟ کیونکہ ان کے حالات دیکھ کر تو کہیں سے نہیں لگتا کہ ان کی اتنی آمدنی ہوتی ہوگی کہ یہ راکٹ لانچرز اور جدید ترین اسلحہ حکومت کے خلاف کھل کر لگاتار کئی کئی دن تک استعمال کرنے کی طاقت رکھتے ہوں۔

قانون انہیں اب پھانسی دے کر موت کی سزا سنا رہا ہے جبکہ یہ تو بہت پہلے ہی مارے جا چکے ہوتے ہیں اور انہیں مارنے والا کوئی سرحد پار سے خلاف ورزی کرکے آنے والا نہیں ہوتا بلکہ مقامی سیاستدان ہی ہوتا ہے، جسے حکمران طبقے میں شامل ہونے کی جنونی خواہش ہوتی ہے اور وہ میکاولی یا پنڈت چانکیہ کے تمام اصولوں پر عمل کرتے ہوئے آنکھوں پر طاقت کی پٹی باندھے ان چھوٹے چھوٹے ’’چھوٹوؤں‘‘ کو استعمال کرتا ہے تاکہ اس کی نہ صرف ووٹر پر گرفت رہے بلکہ ہر سیاسی جماعت اس کی محتاج ہو۔ یہی وہ عوامل ہیں کہ ہماری ہر جمہوریت اتنی ہی جابر اور استبدادی ہے جتنی کہ بادشاہت یا ملوکیت۔ کیونکہ قانون کا معیار سب کےلیے مساوی نہیں۔ طبقہ اشرافیہ کی گرفت قانون پر ہے جبکہ قانون کی گرفت صرف چھوٹے چھوٹے ’’چھوٹوؤں‘‘ پر ہی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہباز علی خان

شہباز علی خان

آپ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر ہیں، اور فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔