یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

شاہد سردار  اتوار 17 مارچ 2019

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جنگ برسوں کے غوروفکر، مشاہدے اور تجربات سے وضع کردہ اخلاقی اصولوں کی پامالی، دلیل کی نفی، مکالمے سے انکار اور غلبہ پانے کی جبلت کا نام ہے۔ انسانیت کے اجتماعی عمرانی معاہدے کی تنسیخ کا یہ عمل اسی لیے ناپسندیدہ ہے کہ اس سے بقائے باہمی کے ضوابط ہی فنا نہیں ہوتے تباہی و بربادی بھی لازم ٹھہرتی ہے۔ چنانچہ وہ قومیں جو انسانی بقا اور ترقی کی متمنی ہوتی ہیں باوجود قدرت رکھنے کے جنگ پر امن کو ترجیح دیتی ہیں۔

وطن عزیز میں ہونے والی حالیہ بھارتی جنگی کارروائی یا جارحیت یا پھر انتہائی درجے پر پہنچی بزدلانہ یا بہیمانہ کوشش کو کچھ بھی نام دیا جائے بھارت کی طرف سے اسے اعلان جنگ کا نام ہی کہا جائے گا۔ کاش بھارتی حکمرانوں کو یہ حقیقت سامنے لکھی نظر آجاتی کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ممالک ہیں اور اگر یہاں جنگ ہوئی تو صرف خطے کے لیے نہیں پوری دنیا کے لیے تباہی کے منہ کھول دے گی، لہٰذا اس سے بچاؤ کا راستہ بہر طور نکالا جانا اب وقت کی اولین ضرورت بن گیا ہے اور صورتحال اب ایسی بن چکی ہے جس میں معاملات کی درستی کے لیے عالمی برادری کا متحرک کردار ناگزیر محسوس ہورہا ہے۔

اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پاکستان سے دشمنی دراصل بھارت کے عوام سے دشمنی ہے، بھارت کا اصل مسئلہ غربت اور مفلسی ہے، پاکستان ہرگز نہیں ہے۔ بھارت کی 68 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہے۔ جن کا گزارا 2 ڈالر روزانہ سے بھی کم آمدنی پر ہے۔ 30 فیصد تو صرف سوا ڈالر روزانہ پر جی رہے ہیں۔ جہاں اکیسویں صدی کی تو پرچھائیں بھی نہیں پڑی۔

جنگ نہ کبھی کسی مسئلے کا حل ثابت ہوئی ہے اور نہ ہی اس سے کچھ تعمیری عمل سامنے آیا ہے۔ جنگ اپنی جگہ بہت بڑا مسئلہ تھا ہے اور ہمیشہ رہے گا اور بھارت کے جید، پرمغز یا اہل علم و دانش سبھی جانتے ہیں اور وہاں کے شعرا کرام مدتوں سے امن و یگانگت اور محبت کے گیت لکھ رہے ہیں۔ مصنفین یا رائٹر امن، آشتی یا محبت اور اپنائیت و انسانیت کی کہانیاں قلم بند کر رہے ہیں۔ یہ سبھی دانش کی فتح چاہتے ہیں۔ جوش کی بجائے ہوش کو غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔ جذبات کی بجائے عقل و خرد کی بالادستی کے خواہش مند ہیں۔

ساحر لدھیانوی جنگ کی مذمت کرتے کرتے چلے گئے، کیفی اعظمی امن کا پر چار کرتے رہے، علی سردار جعفری نے جنگ کو انسانیت کا دشمن قرار دیا، امرتا پریتم وارث شاہ کو پکارتی رہی مگر نریندر جیسی سوچ رکھنے والے بھارتی ہٹلر اور ان کے حواریوں نے عالمی ادیبوں اور شاعروں کو تو درکنار بھارت کے ادیبوں اور شاعروں کو بھی کبھی نہیں پڑھا یا سنا، وہ ہمیشہ اکھنڈ بھارت کے پاکھنڈی کی شکل لیے عالمی افق پر نمودار ہوتے رہے۔

کون نہیں جانتا کہ انتقام اور غصے کا جوالا مکھی اور ذہن میں جذبات کا بپھرا ہوا سمندر انسان کا امتحان اور ٹیسٹ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح جوش میں ہوش کا دامن تھامے رکھتا ہے۔ غصے اور نفرت کی آگ جلاکر راکھ کردیتی ہے اور راکھ بننے سے بچنے کے لیے ہوش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح قومی سطح پر خطرناک بحران اور جنگی کیفیت قیادت کی بصیرت اور اہمیت کا امتحان ہوتی ہے کہ وہ اس طوفانی صورتحال سے کیسے عہدہ برآ ہوتی ہے۔ ہر ذی شعور یہ جانتا ہے کہ عامیانہ قیادت وقت کی لہر کے ساتھ بہتی ہے جب کہ اہل اور صحیح معنوں میں ’’قیادت‘‘ وقت کی لہر کا رخ بھی موڑ سکتی ہے۔

آخر جنگی جنون میں مبتلا اور طاقتور عسکری خمار کو یہ کھلی حقیقت کیوں نہیں نظر آتی کہ یہ اکیس ویں صدی ہے۔ اطلاعات اور عالمگیریت کی صدی ہے۔ کوئی ملک، کوئی علاقہ، کوئی خطہ جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دنیا نے بڑی قربانیاں دے کر امن حاصل کیا ہے۔ امن کی قیمت یورپ کے اہل علم و دانش سے پوچھیں۔ جہاں لاکھوں ہلاکتیں ہوئیں۔ لاکھوں گھر جلائے گئے، لاکھوں خاندان ایک دوسرے سے بچھڑگئے۔ جنگیں کئی کئی سال تک جیتے جاگتے انسانوں کو اپنا ایندھن بناتی رہیں۔ جنگ کے شعلوں کے سامنے انسان کتنا بے بس ہوجاتا ہے۔ منطق، اخلاقیات، نفسیات، حوصلے سب ہار جاتا ہے۔ باقی رہتا ہے تو صرف جنگی جنون۔ پھر جب جنگی جنون ختم ہو جاتا ہے تو زندگی کے سارے آثار دم توڑ چکے ہوتے ہیں۔ انسان اپنے آپ کو ذلت، بے بسی اور بے حسی کی آخری سرحدوں پر پاتا ہے۔ دلائل، احتیاط، سمجھداری کچھ بھی انسان کا ساتھ نہیں دیتا۔ جنگ کی آگ بھڑکتی ہے تو ملکوں کے ملک، علاقوں کے علاقے جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔

جنوبی ایشیا دنیا کا وہ حساس مرکز ہے جہاں صدیوں سے قیادتیں ظہور بھی پاتی رہی ہیں اور تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم بھی ہوتی رہی ہیں۔ سیکڑوں مقبرے ہیں۔ کہیں عقیدت مندوں کے ہجوم ہیں۔ کہیں کوئی چراغ جلاتا ہے نہ کوئی بلبل نالہ و فریاد کرتی ہے۔ تاریخ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کون سرخرو ہوگا اور کون محض غبارِ راہ۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ صحیح فیصلے لمحوں کو صدیوں میں بدل دیتی ہیں۔ ایسے فیصلوں کے لیے بڑی جرأت اور بڑا دل درکار ہوتا ہے۔

بھارت کا جنگی جنون اور پاکستان کا تدبر دنیا کی تاریخ میں ایک زندہ مثال بن کر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ بھارت اپنے تکبر میں بہت پیچھے رہ گیا، سیکولرازم اس کے کام آیا نہ جمہوریت، نہ امریکا کی آشیرباد، نہ ایران افغانستان حکومتوں کی چاپلوسی وقت نے پاکستان کا سربلند کردیا۔ ہم پاکستانی آزمائش کی سخت گھڑی میں اللہ کی کرم نوازی سے سرفراز ہوگئے لیکن امن کے لیے، حب الوطنی کے لیے پے درپے درگزر کی پالیسی بھی دشمن کے آگے ہمیں کمزور ثابت کرتی ہے ہمیں اس باریکی یا واضح لکیر کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔

بین الاقوامی تعلقات اور امور و سلامتی کے عالمی حلقوں میں آج کی اس مسلم حقیقت کا اعتراف تو علمی و تحقیقی حوالوں کے ساتھ برسوں سے موجود ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کا شمار تربیت اور پیشہ ورانہ مہارت کے لحاظ سے دنیا کی بہترین اور چوٹی کی افواج میں ہوتا ہے اور ہر ذی ہوش اس بات سے واقف ہے کہ بہترین افواج میں بھارت یہ درجہ کبھی نہ حاصل کرسکا۔ اب قومی دفاعی نظام کے سب سے بڑے، اہم اور احساس جز ترکیبی، عسکری خفیہ اداروں نے یہاں تک اہمیت اختیار کرلی ہے کہ یہ بری، فضائی اور بحری افواج کے مقابل زیادہ غالب ہوگئی ہے کہ زمانہ امن میں بھی ہر دم سرگرم رہتے ہیں۔ تاریخ کے ایک ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سے ہم یہی کہیں گے کہ جنگ خانہ جنگی، دہشت گردی، ہنستے بستے انسانوں کو اسپتالوں، قبرستانوں یا پناہ گاہوں کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ جاہل حکمرانوں یا رعونیت سے لبالب لیکن اندر سے بھر بھرے ارباب اختیار جان لیں کہ بے قابو جذبات ہمیشہ انسان کو کٹھ پتلی بنا دیتے ہیں اور ذہانت بہترین تعارف ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔