نیوزی لینڈ میں دردانگیز سانحہ

ایڈیٹوریل  اتوار 17 مارچ 2019
دہشت گردی کی اس واردات کے محرکات کوئی سربستہ راز نہیں، دہشت گرد انسانیت کے دشمن ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

دہشت گردی کی اس واردات کے محرکات کوئی سربستہ راز نہیں، دہشت گرد انسانیت کے دشمن ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد مسجد النور اور لِن ووڈ مسجد میں نماز جمعہ کے وقت دہشتگردانہ حملوں میں 49 نمازی شہید ،48 سے زائد شدید زخمی ہوگئے۔ اس بہیمانہ حملہ اور منظم قتل عام نے پوری دنیا کے انسانوں کو رنج اور شدید صدمہ سے دوچار کیا ہے۔

عالم اسلام نے اسے انسانیت پر حملہ سے تعبیر کیا جب کہ دنیا بھر کے رہنماؤں نے اسے اسلاموفوبیا کا شاخسانہ اور سفید نسل پرستی کا ابھرتا ہوا گھناؤنا مظہر قراردیا ہے، بعض نے اسے دہشتگردی کے نسل پرستانہ عفریت سے تعبیر کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کا دورہ کرنے والی بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم حملہ سے بال بال بچ گئی۔

نیوزی لینڈ میڈیا کے مطابق فوجی وردی میں ملبوس حملہ آور کی شناخت سفید فام 28 سالہ انتہا پسند آسٹریلوی شہری برینٹن ہیریسن ٹیرنٹ کے طور پر ہوئی ہے جسے پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس نے حملہ آور کے علاوہ بھی ایک خاتون سمیت تین دیگر افراد کو گرفتار کیا ہے جن سے پولیس کے بقول دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا ہے۔ بتایا جاتا ہے حملہ آور نے پہلے مسجد النور کونشانہ بنایا جہاں نماز جمعہ کے 10 منٹ بعد وہ آٹو میٹک رائفل کے ساتھ ایک بج کر 45 منٹ پر داخل ہوا اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کے دوران وہ اسلام اور تارکین وطن کے خلاف زہر اگلتا رہا۔

حملہ آور جدید ہتھیاروں سے لیس، پیٹرول بموں سے بھری گاڑی کے ساتھ وہاں پہنچا تھا اور وہ ہیلمٹ میں لگے کیمرے سے واردات کی ویڈیو لائیو اسٹریمنگ کرتارہا۔ مسجد النور پر حملہ میں 41 جب کہ لِن ووڈ مسجد کے حملہ میں 8 نمازی شہید ہوئے ۔ مسجد النور میں حملہ آور نے پہلے مردوں کے نماز پڑھنے کی جگہ کو نشانہ بنایا اور پھر عورتوں کے نماز پڑھنے کی جگہ کی طرف بڑھ گیا۔ بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کے مینجر خالِد مسعود کے بقول جب حملہ ہوا تو وہ مسجد سے پچاس گز دور یا چند منٹ کے فاصلے پر تھے ۔ اگر ہم پانچ منٹ پہلے وہاں پہنچ جاتے تو پتہ نہیں کیا ہوتا۔

بلاشبہ اس اندوہناک واقعہ پر دنیا بھر کے مسلمان غمزدہ ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ ذمے داران کو فوری طور پر قانون کے کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دی جائے، مذہبی حلقوں کا کہنا ہے کہ ہمیں بیگناہ انسانی جانوں کے ضیاع پر دلی دکھ ہوا اور جس سے پوری دنیا کے مسلمانوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، غم زدہ خاندانوں کے ساتھ دلی ہمدردی و یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا مساجد میں ہونے والی دہشتگردی بد ترین کارروائی ہے دہشتگردی پوری دنیا کا مسئلہ ہے اور قیمتی انسانی جان لے نیوالے دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ نیوزی لینڈ کی مسجد میں ہونے والی دہشتگردی کی بدترین کارروائی تھی۔

نیوزی لینڈ میں مساجد پر دہشتگردانہ حملوں میں 49 نمازیوں کی شہادت پر عالمی سطح پر بھی شدید ردعمل سامنے آیا ہے ۔ نیوزی لینڈکی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے ان حملو ں کی مذمت کرتے ہوئے اس دن کو اپنے ملک کا سیاہ ترین دن قراردیا ہے اور کہا ہے کہ انھیں اس بات پر افسوس ہے کہ حملہ آور نے دہشتگردی کے لیے نیوزی لینڈ کو چنا ۔اس واقعہ کی تحقیقات کر رہے ہیں ، بہت سی معلومات ابھی سامنے نہیں لاسکتے، ذمے داروں کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔ انھوں نے اس واقعہ کو ’نسل پرستی اور فسطائیت‘ قرار دیا ۔ جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ جس نے یہ حملہ کیا ہے وہ ہم میں سے نہیں، نیوزی لینڈ میں تشدد پسندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔

پاکستان سمیت مسلمان ملکوں نے بھی ان حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اسے دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا ’’ اسلامو فوبیا‘‘ قراردیا ہے اور کہا ہے کہ دہشتگردی کا یہ واقعہ نہایت تکلیف دہ ہے۔ وہ لواحقین سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ انڈونیشیا کی حکومت نے کہا ہے کہ عبادت کے مقام پر ایسا حملہ ناقابل قبول ہے۔ افسوسناک واقعے میں شہید ہونے والوں میں 3 انڈونیشی باشندے بھی شامل ہیں۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ یہ حملے اسلام سے بڑھتی ہوئی مخاصمت کی عکاسی کرتے ہیں۔ دنیا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر سب دیکھ رہی ہے ۔اسے رو کنے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ۔ انھوں نے اسے نسل پرستی کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا عمل کوئی فاشسٹ ہی کر سکتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ دنیا میں تیزی سے پھیلتے اسلام سے خوف کھانا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے بھی اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پر امن لوگوں پر حملہ ناقابل قبول ہے ، ملائیشیا نے اسے انسانیت اور عالمی امن کے لیے سیاہ ترین دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ معصوم شہریوں کی جان لینا ایک نہایت گھناؤنا عمل ہے اور کسی مہذب سماج میں اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔

او آئی سی کے سیکریٹری جنرل ایران، افغانستان ، ملکہ برطانیہ وزیراعظم تھریسا مے، امریکی صدر ٹرمپ ، روسی صدو پوٹن ، جرمن چانسلر انجیلا مرکل، آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ اور دیگر نے بھی ان حملوں کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے جب کہ سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث بھی چھیڑ دی ہے کہ یہ حملہ دہشتگردی ہے یا قتل عام ؟

صارفین یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ سفید فام حملہ آور ہونے یا مسلمانوں کے مرنے کے صورت میں ایسے واقعات کو دہشتگردی کے بجائے قتل عام کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد کا بھی یہ ہی کہنا ہے کہ حملہ آور چاہے سفید فام ہے لیکن اس نے جو کیا وہ دہشتگردی کے سوا کچھ نہیں۔ واضح رہے کرائسٹ چرچ حملہ سے پہلے نیوزی لینڈ کا شمار دنیا کے محفوظ ترین ملکوں میں کیا جاتا تھا۔

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ 49 نمازیوں کو شہید کرنے والے حملہ آور کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ مرکزی ملزم برینٹن ٹیرنٹ مسلمان مخالف اور انتہا پسند مسیحی گروہ کا کارندہ ہے جس نے ناروے کے دہشتگرد اینڈرز بریوک سے متاثر ہو کر دہشتگردی کی ہولناک واردات سرانجام دی۔ بریوک نے 2011 میں ناروے میں فائرنگ کر کے 85 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ نیوز ی لینڈ کے حملہ آوروں سے برآمد ہونے والے اسلحہ اور بلٹ پروف جیکٹوں کی تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں انھوں نے ماضی میں مسلمانوں اور عیسائی ریاستوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کے نام لکھے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر جنگیں وہ تھیں جن میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔

یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ مساجد پر حملے سے 24 گھنٹے پہلے ہی ایک 74 صفحات پر مبنی منشور آن لائن سامنے آ چکا تھا جس میں کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں پر حملے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ادھر سکھ کمیونٹی آف پاکستان نے نیوزی لینڈ کرائسٹ چرچ میں دو مساجد میں نمازجمعہ کے دوران فائرنگ سے مسلمانوں کو شہید کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیوزی لینڈ کے واقع نے دوبارہ سے امن کی لہر کو کمزور کیا ہے لیکن ذہنی بیماری کا بہانے بنا کر اس قسم کے رویے اپنانا کسی صورت قبول نہیں ۔ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی النور مسجد میں فائرنگ کے عینی شاہدین نے اس بربریت کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر کے لوگوں کو اشکبار کیا۔

دہشت گردی کی اس واردات کے محرکات کوئی سربستہ راز نہیں، دہشت گرد انسانیت کے دشمن ہیں۔ امید ہے حملہ میں ملوث سفاک قاتلوں کو عبرتناک سزا ملے گی۔ دہشت گرد کسی رحم کے مستحق نہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔