شدت پسند تنظیمیں اور پاکستان کا امیج

عبدالرحمان منگریو  اتوار 17 مارچ 2019

یہ دنیا ایک کینوس ہے جس پر مختلف رنگ بکھرے ہیں اور رنگوں کے امتزاج سے ہی کینوس پہ ایک خوش نما تصویر یا صورت اُبھرتی ہے جوکہ نہ صرف آنکھوں کو بھاتی ہے مگر دیکھنے والے کے دل کو بھی لبھاتی ہے ۔ یا پھر یہ سمجھا جائے کہ یہ دنیا ایک چمن کی مانند ہے جس میں طرح طرح کے درخت ہیں اور اُن درختوں میں کئی اقسام اور ذائقے کے حامل پھل اور پرندے آباد ہیں ۔ جن کی موجودگی اور مختلف بولیاں و طور طریقے اس چمن کو دلفریب خوبصورتی کا مرکز بناتی ہیں ۔

چمن میں موجود سُکون اور خوشی و راحت اس امن کی وجہ سے ہے جوکہ وہاں پھیلا ہوا ہے ۔ اسی طرح دنیا میں بھی اگر امن قائم ہوجائے تو دنیا سکون و خوشحالی کا فردوس نظیر منظر پیش کرنے لگے ۔ کیونکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ازل سے آج تک اس دھرتی کا امن اگر تباہ و برباد ہوا ہے تو اس کی ذمے دار دیگر مخلوقات نہیں بلکہ اعلیٰ ترین مخلوق کے درجے پر فائز صرف انسان ہی ہے ۔ جو ایک دوسرے کو مختلف نظریوں ، فلسفوں اور عقائد کی بناء پر نیست و نابود کرنے پر تُلا ہوا ہے ۔ گروہی جنون ہر دور میں انسانیت سوز رہا ہے لیکن مذہبی جنون نے جو تباہی مچائی ہے اس کی کوئی مثال نہیں ۔

پاکستان بھی اس وقت خطرناک حد تک مذہبی جنونیت کی لپیٹ میں ہے۔ حالانکہ گذشتہ ہفتے سے حکومت کی جانب سے ملک بھر میں مذہبی انتہا پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیاں ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ 68کے قریب تنظیموں پر پابندی عائدکی گئی ہے، جب کہ 2تنظیموں کو واچ لسٹ میں رکھا گیا ہے ۔ اگر یہ اقدامات پہلے کیے جاتے تو نہ ملک کا امن و امان تباہ ہوتا اور نہ ہی دنیا کو ہم پر انگلیاں اُٹھانے کا موقع ملتا ۔

ماضی میں ان تنظیموں کے لیے ریاست کی پالیسی معاونتی رہی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی برادری کے دباؤ پر اگر کبھی کوئی کارروائی کی بھی جاتی ہے تو محض دکھاوے کے طور پر صرف پابندی عائد کرنے کے اعلان یا عارضی طور پر حراستوں و اکاؤنٹ منجمد کرنے تک محدود ہوتی ہے ، کوئی بھرپور اور مستقل روک تھام کی کارروائی نظر نہیں آتی ۔ یہ تنظیمیں نام بدل بدل کر پھر سے اگر ملک میں کام کرتی رہی ہیں تو اس کی وجہ بھی ریاست کی جانب سے مضبوط قانون سازی اور اس پر نیک نیتی سے عمل درآمد کی کمی ہے ۔

دیکھا جائے تو پاکستان کے قیام میں کہیں بھی کسی مسلم شدت پسند تنظیم کے شواہد نہیں ملتے ۔ پاکستان کا قیام ایک پُرامن جمہوری تحریک کا نتیجہ ہے جس کے لیے قیام کے فوراً بعد قائد اعظم نے خود کہا کہ ’’میں نے بنا کوئی خون بہائے اور بغیر ایک گولی چلائے یہ ملک حاصل کرلیا ہے ‘‘۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں کسی مذہبی شدت پسند تنظیم کی نہ ضرورت تھی اورنہ ہی اُس کا کوئی تصور ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں یہ اتنی ساری شدت پسند تنظیمیں کیسے اور کیوں وجود میں آگئیں ؟

پھر کیوں اور کس لیے 70سال سے اس ملک کی مقتدر قوتیں پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی حمایت کرکے موجودہ درگت بنانے میں مصروف رہتی آئی ہیں ؟ ان تنظیموں کو بڑے پیمانے پر پھلنے پھولنے کا موقع کیوں اور کس نے دیا ؟ یہ بنیادی سوالات ہیں جن کو سمجھے بغیر ملک کی موجودہ تباہ کن صورتحال میں بہتری آنے کی کوئی اُمید نہیں ۔ اس کی صرف ایک ہی بنیادی وجہ نظر آتی ہے کہ پاکستان میں عالمی و داخلی طور پر ایک سامراجی مستقل عوام کی توجہ ملک کے حقیقی مسائل سے ہٹانے کے لیے ایسے فروعی مسائل پیدا کرتا رہتا ہے ۔

یہ شدت پسند تنظیمیں اور ان کی حامی قوتیں اکثر عالمی سرمایہ دار اسٹبلشمنٹ کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتی رہی ہیں ۔لیکن انھیں کامیاب ہونے سے روکا جاسکتا ہے اگر اس بات کو عملی طور پر یقینی بنایا جائے کہ یہ ملک خطے میں جنونیت کو فروغ دینے کے لیے نہیں بلکہ خطے میں موجود اقلیت (مسلمانوں ) کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا ۔جس کا تصور قائد اعظم کے دماغ میں روز ِ روشن کی طرح واضح تھا ۔

اسی کے مطابق قیام ِ پاکستان کے دوران اور بعد ِ قیام عوام سے خطابات میں انھوں نے کہا کہ ’’اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ ان کے مذہبی عقائد محفوظ اور قائم رکھے جائیں گے ۔ انھیں اپنے عقائد کے مطابق عبادت کی مکمل آزادی ہوگی ۔ وہ بلا کسی مذہبی تفریق کے مکمل طور پر پاکستانی شہری کے طور پر قابل احترام اور توقیر کے حامل رہیں گے‘‘ (نیو دہلی : 14جولائی 1947)۔ جب کہ11ستمبر 1947والی تقریر تو اس مد میں ایک روشن راہ ہے ۔

انھوں نے عوام سے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’تم آزاد ہو ، تم آزاد ہوپاکستان کی اس ریاست میں اپنے مندروں میں جانے کے لیے ، تم آزاد ہو اپنی مساجد میں جانے کے لیے یا پھر دیگر عبادت گاہوں میں جانے کے لیے ۔ تم کسی بھی مذہب ،فرقہ یا قبیلے سے واسطہ رکھتے ہو اس سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں ۔ اس ملک میں تم سب برابر کے شہری ہو ‘‘۔ ملک کا آئین معاشرتی حالات کی بنیاد پر چلایا جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے دور ِ حاضر کی ضرورت ہے کہ آئین میں ایسی ترامیم کی جائیںجو 70سال سے خراب ہونے والے ملکی امیج کی بحالی میں معاون ہوسکیں ۔ یعنی مذہبی تشریح کی اتھارٹی پارلیمنٹ کے ماتحت کی جائے ۔

اگر حکومت واقعی ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے تو اُسے کثیر الجہتی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ نہ صرف اُن موجودہ کالعدم تنظیموں کے خلاف بلکہ تمام مذہبی منافرت پھیلانے والی تنظیموں اورایسے تصورات کو فروغ دینے والے مدارس سمیت ملکی تعلیمی نصاب کو بھی از سر نو معتدانہ اورکردار سازی کا حامل و دور ِ حاضر کی جدید ضروریات سے ہم آہنگ کرنے جیسے اقدامات کرنے ہوں گے ۔ مذہب کی اس تشریح سے اجتناب کرنا ہوگا جس کے تحت انتہا پسندی اور دہشت گردی کو تقویت ملتی رہی ہے ۔ اسلام کے سلامتی والے پیغام والی تشریح ہی ملک کی بنیادی پالیسی ہونی چاہیے ۔

وزیر اعظم کی صدارت میں ہونیوالے نیشنل ایکشن پلان سے متعلق اجلاس میں ایسے وسیع کام کے لیے پہلے ہی سے صرف 2ہفتے ٹائم فریم مقرر کرنا بھی حکومت کی سنجیدگی کو مشکوک بنا رہا ہے ۔ لیکن تازہ ہونے والی کارروائیاں بھی کتنی سنجیدہ ہیں یہ کچھ ہی دنوں میں پتا لگ جائے گا ۔ بہرحال ان کارروائیوں سے بھی دنیا کو یہی پیغام جائے گا کہ پاکستان میں یہ دہشت گرد و انتہاپسند تنظیمیں کئی سال قبل سے کالعدم قرار پانے کے بعد بھی اتنی طاقتور اور بے پناہ مالی وسائل کی حامل ہیں ، اقوام عالم یہ ضرور سمجھے گی کہ ان تنظیموں پر اگر واقعی پابندی ہوتی تو یہ تنظیمیں اتنی طاقتور نہ ہوتیں ۔ اس معاملے پر ہوسکتا ہے کہ پاکستان کو کئی دیگر وضاحتیں اور بھی دینی پڑیں ۔ جب کہ اس سے امریکا اور بھارت سمیت ان ممالک کے موقف کو تقویت ملے گی جو بڑے پیمانے پر تمام عالمی فورموں پر یہ موقف رکھتے آئے ہیں کہ پاکستان میں ان دہشت گرد تنظیموں کی نرسریاں ہیں۔

کہا تو یہ جارہا کہ یہ کارروائیاں پاکستان نے اپنے مفاد میں اور اپنی willپر کی ہیں لیکن جب زمینی حقائق پر نظر ڈالتے ہیں تو صورتحال اُس کے برعکس ہے۔امریکا کی جانب سے حالیہ پاک بھارت جنگ کو ٹالنے کا اعزاز اپنی پرائیوٹ ڈپلومیسی کو دینا بھی اس بات کی تردید ہے کہ حکومت اپنی willپر یہ کارروائیاں کررہی ہے ۔ ویسے بھی اگر یہ کارروائیاں بلا کسی عالمی دباؤ کے اپنی willپر ہورہی ہوتیں تو ان عالمی دہشت گرد تنظیموں کے محض 44افراد اور کچھ مدارس کو تحویل میں نہ لیا جاتا بلکہ پارلیمنٹ میں ان نرسریوں کو چلانے والے تمام مدارس کے نظام کو سرے سے ہی ختم کرنے کے اعلان اور قانون سازی کرکے اس پر سختی سے عمل درآمد کا آغاز کیا جاتا ۔ اُن چند افراد کو صرف حراست میں لینے کے بجائے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور کیمپس کو مسمار کیا جاتا ۔ ملک میں موجود غیر قانونی افراد کو ڈی پورٹ کرنے کا آغاز فوری طور پر شروع کیا جاتا ۔لیکن یہاں صورتحال اُس کے برعکس ہے۔

یہ صورتحال خود عالمی سطح پر پاکستان کی جمہوری شناخت کی نفی کرتی ہے ۔ ماضی کے برعکس اب امریکا طالبان سے مذاکرات کرکے ایشیا میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے پاکستانی اداروں کے ان تنظیموں پر اثرکا اقرار کرچکا ہے اور اس پر ہم بڑے نازاں ہوتے دکھائی دیے لیکن دراصل اس سے بھی دنیا میں ہمارا امیج دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنیوالے ملک کے طور پر بنا ۔ ملکی سطح پر بھی یہ تاثر قائم ہوگیا ہے کہ حکومت یہ اقدامات محض عالمی دباؤ پر کررہی ہے ، ورنہ قوم پرست رہنماؤں کے خلاف کی جانیوالی کارروائیوں کے نصف تک بھی اگر ان کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی ہوتی تو اس خطے کا منظر کچھ اور ہوتا ۔

ایک طرف ملک میں بائیں بازو کی قوم پرست و سیکیولر قوتوں کے افراد کی مسخ شدہ لاشیں اور مسنگ پرسنز کی تعداد بڑھتی جارہی ہے تو دوسری طرف شدت پسند و دہشت گرد کالعدم مذہبی جماعتوں کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے ۔ یہ صورتحال مستقبل قریب میں پاکستان کے امیج کو مزید متاثر کرے گی ۔ پاکستان نے ماضی میں کیے گئے بارہا اعلانات کا ایک مرتبہ اور اعادہ کیا ہے کہ’’ پاکستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی ‘‘ ۔ تو وقت آگیا ہے کہ اپنے وعدوں کو پانی دیتے ہوئے اس پر عمل درآمد کیا جائے کیونکہ یہ انتہا پسند تنظیمیں اس دھرتی کو صرف دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہیں کررہیں بلکہ خود پاکستان کے دیرپا استحکام اور ریاستی رٹ کے خلاف بھی استعمال کررہی ہیں ۔

عوام یہ پوچھنے میں بھی حق بجانب ہے کہ جب کوئی بھی فرد اور تنظیم یا گروہ ملکی مفاد سے بڑھ کر نہیں ہوتا تو پھر کیسے اور کیوںہمیشہ ان مذہبی جنونیت کی حامل تنظیموں کے مفاد کو ملکی مفاد پر فوقیت دی جاتی ہے ؟ ان کے تحفظ میں کیوں امریکی ڈرون حملے برداشت کیے گئے ؟ عالمی سطح پر پاکستان کی پُرامن جمہوری فلاحی شناخت کو پہنچنے والا ناقابل تلافی نقصان کیوں برداشت کیا جارہا ہے؟ اور اُن شدت پسند و جنونی تنظیموں کے باقی رہنے کی کوششیںکیوں کی جارہی ہیں ؟

’’دیر آید ،درست آید‘‘ اچھا عمل جب بھی ، جہاں بھی ہو اُ س کی حمایت کرنی چاہیے اور اس کی بناء پر یہ توقع بھی رکھنی چاہیے کہ اس کارروائی کو ملکی مستقل مفاد اور امن کے دیرپا قیام کے لیے جاری رکھا جائے گا بلکہ اُسے مزید وسیع کرتے ہوئے ملک میں پھیلی مذہبی جنونیت کو جڑ سے ختم کرنے کے ٹھوس اقدامات بھی کیے جائیں گے۔ اس سے نہ صرف برصغیر اور ایشیا بھر کے آسمان سے جنگ کے بادل چھٹ جانے کی اُمید ہے بلکہ پاکستان کی اندرونی سلامتی اور امن کو بھی استحکام ملے گا ۔ جس طرح اسلام آباد میں عارضی طور پر حکومت نے مدارس اور مساجد کا انتظام سنبھال لیا ہے، یہ ایک خوش آئند بات ہے، جسے مستقل اور وسیع کرتے ہوئے ملک بھر کے مدارس و مساجد کو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے تاکہ ان مذہبی جنونیت کی نرسریوں پر قابو پایا جاسکے ۔

مذہبی جنونیت کی حامل یہ سوچ کبھی کسی روپ میں ظاہر ہوتی ہے تو کبھی کسی روپ میں اور کبھی تو خود کش بمباروں کے روپ میں موت کا ننگا کھیل کھیلتی نظر آتی ہے ۔ ایسا بھی نہیں کہ پاکستان کو چھوڑ کر باقی دنیا میں سب ٹھیک ہے ، نہیں ایسابالکل بھی نہیں ہے ۔ انڈیا کی شیوسینا ، نائجیریا کی بوکو حرام ، مصر کی اخوان المسلمون اور عالمی سطح پر داعش جیسی تنظیمیں بھی ہیں، تمام تنظیموں کی افرادی قوت اور تصوراتی نرسری کی ضروریات پوری کرنے کا کام مذہبی جنونیت ہی کرتی نظر آتی ہے ۔

آج 9/11کی ملزم جماعت ہو یا بمبئی بم دھماکوں کی ملزم جماعت ، افغانستان میں ملوث جماعت ہو یا ایران پر حملے میں ملوث جماعت اور تو اور ہزاروں میل دور مغربی ممالک میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث دہشت گردوں کا تعلق بھی کسی نہ کسی طرح انتہا پسند تنظیموں یا مدارس سے جوڑ دیا جاتا ہے ۔ اس مذہبی جنونیت کا یہ عالم ہے کہ یہ مذہبی منافرت کی سوچ نہ صرف مدارس اور دیگر اداروں میں سرائیت کرگئی ہے بلکہ حکومتی کابینہ میں بھی بڑے پیمانے پر پھیلی نظر آتی ہے ۔ اس مذہبی جنونیت کے آگے ریاست بڑی کمزور نظر آتی ہے ۔ تجزیہ کار اس محدود کارروائی کو انھیں رعایت دینے کے برابر سمجھ رہے ہیں ۔ ویسے بھی ایسی کارروائی سے حکومتی بیان تو ترتیب دیا جاسکتا ہے مگر انتہا پسندی و مذہبی جنونیت سے پاک مضبوط ملک نہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔