مقابلے کا امتحان…

شیریں حیدر  اتوار 17 مارچ 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ کہاں چل دیں ؟ ‘‘ اس نے سوال کیا۔

’’میں ذرا سانس لینا چاہتی ہوں !! ‘‘ میں نے مڑ کراسے جواب دیا۔

’’ تو کیا اتنی دیر سے سانس نہیں لے رہی ہوتم؟ ‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔’’ میں واقعی سانس لینا چاہتی ہوں … باہر کھلی فضا میں!! ‘‘ اسے کہہ کر میں باہر نکلی، اس نے مزید بحث نہیں کی۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھے کس کس وقت اور کن کن باتوں سے گھٹن ہوتی ہے۔ باہر آنے کا مقصد تو دل میں جمع ہو جانے والا غبار نکالنا تھا مگر ہوا اس سے الٹا۔’’ کم بخت… کم عقل، جاہل، گنوار، موٹے دماغ والے گدھے!!‘‘ کاریڈور میں ہی اس نے اپنے بیٹے کوگالیوں اور تھپڑوں پر رکھا ہوا تھا۔ ہر تھپڑ کے ساتھ ایک گالی اس کی زبان سے ابل رہی تھی۔’’ ارے… یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟ ‘‘ میںنے اس معاملے میں مداخلت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ پایا۔’’ کیا کروں اور اس کم بخت جاہل کے ساتھ، آپ ہی بتائیں کہ کیا کروں، کیا میں اسے چوموں، چاٹوں، گلے سے لگاؤں؟‘‘

’’ آپ کابیٹا ہے… چھوٹا سا معصوم بچہ ہے، اس کے ساتھ یوں تونہ کریں ، یہ زیادتی ہے!! ‘‘

’’ اگر میں یوں نہیں کروں گا تو اس کے ساتھ وہی ہوتا رہے گا ہمیشہ جو تھوڑی دیر پہلے آپ نے کیا ہے!! ‘‘ اس کے لہجے میں بے بسی اور محرومی تھی۔’’ ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا، سب کچھ آپ کے سامنے ہوا ہے اور ہم ایک نہیں، تین تین ممبر بیٹھے ہوئے تھے۔ سب کچھ ان سب کی موجودگی میں ہوا ہے اور آپ کے بیٹے کے سلسلے میں کوئی بھی گنجائش نکل پاتی تو… ‘‘

’’ یہی تو کہہ رہا ہوں … ساری محنت اس نے میری اور اپنی ماں کی اکارت کر دی! ‘‘ میری بات کاٹ کر انھوں نے فوراً ایک اور تھپڑ کے اضافے کے ساتھ اپنی بات کہی۔’’ ایسا نہ کریں، بچہ باغی ہو جائے گا، بچوں کے ذہن بہت سادہ اور معصوم ہوتے ہیں اور ایسی باتوں کی وجہ سے اس کی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے!! ‘‘ میں نے اپنی علمیت بھگاری۔ ’’ اس ملک میں جو نظام تعلیم ہے، اس میں تو بچے کیا بڑے بھی باغی ہو جائیں !!‘‘ اس نے وہ حقیقت بیان کی جس کا ہم سب کو ادراک ہے مگر ہم اس نظام کا حصہ ہوتے ہوئے بغاوت کا علم بلند نہیں کر سکتے۔ دل سے چاہے ہمیں یہ سب برا لگ رہا ہو مگر اکیلا چنا بھاڑ کیسے پھوڑ سکتا ہے۔

’’ میں اکیلی کچھ نہیں کر سکتی، تاہم میں کوشش کرتی ہوں کہ اگر اس سلسلے میں کوئی خاص Favour کی جا سکے تو! ‘‘ میںنے اسے ایک موہوم امید دلائی جس کے سچ ہونے میں مجھے خود بھی شک تھا۔ اس لیے کہ کم از کم اس وقت وہ اس معصوم بچے کی دھلائی بند کر دے۔ تھوڑی دیر قبل یہ بچہ ہمارے کنڈر گارٹن ،سلیکشن بورڈ کے سامنے انٹرویو کے لیے پیش ہوا تھا۔ تین سال کا یہ بچہ، پلے گروپ میں داخلے کے لیے ، ان ایک سو پندرہ بچوں میں سے ایک تھا، جن میں سے فقط چالیس کا انتخاب ہمارے دوسیکشن کے لیے ہونا تھا۔ بچہ انٹرویو کے پہلے سوال میں ہی گھبرا گیا اور اس کی ماں نے اجازت چاہی کہ وہ اس بچے کو ذرا علیحدہ لے جا کر دوبارہ تیار کرنا چاہتی ہے۔ اس اثناء میں ہم دوسرے بچوں کا انٹر ویو کرنے لگے۔ ماں اسے چند منٹ کے بعد دوبارہ لائی اور ایک بار پھر بچہ ہمارے پہلے سوال پر رونے لگا، ماں پریشان ہو گئی اور اس سے پہلے وہ کچھ کہتی میں نے اسے اشارہ کیا کہ وہ خاموش رہے۔

’’ نام کیا ہے ہمارے پیارے سے بیٹے کا؟ ‘‘ میں نے سوال اردو میں کیا تو بچے نے جھجک کر جواب دے دیا ۔

’’ یہ کون سا رنگ ہے؟ ‘‘ میرے ساتھ سلیکشن بورڈ کی دوسری ممبر نے اس سے انگریزی میں سوال کیا تو بچہ بدک گیا۔’’ اسے سب کچھ معلوم ہے… انگریزی میں ہی اسے سب کچھ بتانا آتا ہے مگر اس وقت گھبرا گیا ہے!! ‘‘ ماں کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا، ’’ اصل میں ہم نے اسے سکھایا تو انگریزی میں ہے مگر اس سے پوچھتے ہمیشہ اپنی زبان میں ہیں اس لیے وہ انگریزی میں پوچھے گئے سوالوں کا مطلب نہیں سمجھتا! ‘‘ اس نے مزید وضاحت کی۔ ’’ ہمارے ہاں مختلف ماحول ہے اس لیے اگر میں اسے انگریزی میں کچھ سکھانے کی کوشش کروں تو سب سمجھتے ہیں کہ میں اپنے ماحول سے بغاوت کر رہی ہوں… لیکن جی ہمارے خواہش تھی کہ ہم افورڈ کر سکتے ہیں تو ہمارا بچہ بہترین اسکول میں پڑھے ! ‘‘

’’ آپ کی خواہش بجا مگر ہم بھی اس نظام کے غلام ہیں… ‘‘ میںنے وضاحت کی، ’’ اس بچے کو اگر کسی طرح بھی سلیکٹ کر لیا گیا اورا س کی ٹیچر نے پہلے دن ہی جان لیا کہ بچے میں انگریزی سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے تو… تو ہم جواب دہ ہوں گے!! ‘‘ میںنے بے بسی سے کہا۔ ’’ ہم سے اوپر بھی لوگ ہیں جن کے ہم ماتحت ہیں ! ‘‘ میں نے اسے اپنی پیشہ ورانہ مجبوری بتائی جسے میرا اپنا ذہن بھی تسلیم نہیں کرتا تھا۔ پلے گروپ کے داخلہ کے لیے انٹرویو میں اتنی کڑی شرائط پر ، میرا طرز فکر قطعی مختلف تھا اور اسٹاف کی میٹنگز میں میری اسی سوچ کی وجہ سے کافی سینئرز مجھ سے نالاں رہتے تھے۔ عموماً بڑی سیٹوں پر وہ لوگ بیٹھے ہوتے تھے جن کی سوچ عوام کے لیے ویسی ہی ہے جیسی اس زمانے میں ہمارے حکمرانوں کی ہوتی تھی کہ انھیں انسان بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔

کسی ایک عام آدمی کا بچہ ادارے میں آ جانا ادارے کے قوانین کی توہین سمجھا جاتا ہے اور یہ کہ عام لوگوں کے بچے… خواص کے بچوں کے تعلیمی اداروں کو اسی طرح گندا کرتے ہیں جس طرح ایک گندی مچھلی سارے جل کو گندا کر دیتی ہے۔ یہ سمجھنا اب آپ کے لیے بھی آسان ہو گا کہ مجھے کھلی فضا میں سانس لینے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے نہیں… میرے اندر کے عام انسان کو اس کی شدید ضرورت تھی مگر باہر کے منظر نے مجھے اور بھی پریشان کر دیا۔ اس مایوس کن سوچ نے کہ چار دفعہ کی کوشش کے باوجودبھی وہ بچہ انٹرویو میں فیل ہو گیا تھا۔ اس کے ماں اور باپ نے باری باری کوشش کر کے دیکھ لیا تھا، اسے بھولے ہوئے سبق یاد کروانے اور انگریزی میں پوچھے جانے والے سوال رٹانے کی کوشش کی تھی مگر وہ بچہ مزید گھبرا گیا تھا اور نتیجتاً زمینی حقائق کے پیش نظر وہ انٹرویو میں ناکام ہو گیا۔

اب باپ اس کی جو درگت بنا رہا تھا اس سے اس بچے پر منفی کے سوا کچھ اثرات نہ ہونے والے تھے مگر باپ کا کتھارسس تو ہو رہا تھا۔ وہ گالیاں اپنے بچے کو نہیں اس نظام کو دے رہا تھا جس کے تحت اس کا بچہ اس کے پسندیدہ ادارے میں داخلہ حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا تھا کیونکہ اس کے گھر میں انگریزی نہیں بولی جاتی تھی اور اس کا بچہ صرف اپنی مادری زبان بولنے پر قادر تھا… امید ہے کہ آپ کو بچے کی عمر یاد ہے؟ تین برس، فقط تین برس!!

اس کا باپ وسائل اور دولت کے ہوتے ہوئے بھی اس مقابلے کے امتحان میں اپنے بچے کو کامیابی نہ دلا سکا تھا اور اسے وہ بنیاد فراہم کرنے میں ناکام ہو گیا تھا جو اس کا اور اس کی بیوی کا خواب تھا۔ میںنے ان سے وعدہ کیا تھا تو ان کا کیس اوپر تک لڑا بھی، میرے دلائل پر ادارے کی ساکھ حاوی ہو گئی کہ اگر کسی کو علم ہو گیا کہ ایک انگریزی سے نابلد بچے کو داخلہ مل گیا ہے تو پھر یہ سلسلہ شروع ہی ہو جائے گا۔ ہمارے ملک میںاس نوعیت کے نظام اور ادارے تو مضبوط ہیں مگروہ نہیں کہ جنھیں ہونا چاہیے ۔ کسی بھی مشینری کے وہ پرزے جو خواہ مخواہ آواز پیدا کرتے ہوں … شور کرتے ہوں، ان سے نجات حاصل کرنا سب سے آسان کام ہے ، سو ان سے نجات حاصل کر لی جاتی ہے اور ان کی جگہ نئے کل پرزے فوراً لگ جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔